امریکا میں انسانی حقوق کی سنگین صورتحال- پہلی قسط

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

جمہوریت، آزادی اور انسانی حقوق وہ تین سیاسی ہتھیار ہیں جن کے دم پر امریکہ دنیا بھر کے غیر مطیع ممالک کے خلاف پہلے میڈیا ٹرائل کے ذریعے عالمی سطح کی بدنامی کا اہتمام کرتا ہے اور پھر اس میڈیا مہم کے ذریعے پیدا کردہ ماحول کا فائدہ اٹھا کر ایسے ممالک کو یا تو بلیک میل کرکے اطاعت پر مجبور کرتا ہے۔ اگر ایسا نہ ہوسکے اور ٹارگٹ ملک عالمی سطح کی یتیمی کا شکار ہو تو پھر فوجی حملہ کرکے اس کی اینٹ سے اینٹ بجا دیتا ہے۔ لیکن اگر ٹارگٹ ملک پر دیگر عالمی پلیئرز کی حمایت کے سبب حملہ ممکن نہ ہو تو پھر اقتصادی و سفری پابندیاں عائد کرکے اس ملک کی ترقی کا سفر روک دیتا ہے۔ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ ان مقاصد کے لئے امریکہ ہر سال کے آغاز پر “انسانی حقوق” کے حوالے سے رپورٹ جاری کرکے ٹارگٹ ممالک کو نامزد کرتا ہے۔ مگر یہ حقیقت اب دن بدن اشکار ہوتی چلی جا رہی ہے کہ امریکہ اب نہ تو پہلے جیسا عالمی اثر رکھتا ہے اور نہ ہی وہ داخلی طور پر کوئی مستحکم ملک ہے۔ وہ داخلی انتشار کے حوالے سے اس وقت دنیا کا سب سے بدتر ملک بن چکا ہے۔ دوسروں کو جمہوریت اور جمہوری اقدار کے لیکچر دینے والے اس ملک میں اب پارلیمنٹ بھی سیاسی مخالفین کے حملوں سے محفوظ نہیں۔ اور یہ حملے کوئی اور نہیں بلکہ خود امریکی صدر کراتا پایا گیا ہے۔

دوسری جانب چین ایک نئے عالمی لیڈر کے طور پر تیزی سے ابھر رہا ہے۔ اور اب چین اپنی روایتی خاموشی بھی توڑتا نظر آرہا ہے۔ 24 مارچ 2021ء کو چین نے “یو ایس ہیومن رائٹس وائلیشنز 2020” کے عنوان سے ایک رپورٹ جاری کی ہے جس میں خود امریکہ کے سرکاری اداروں اور امریکی و برطانوی میڈیا کی رپورٹس کو سورس بنا کر امریکہ میں انسانی حقوق کی بدترین صورتحال کو دنیا کے سامنے پیش کیا گیا ہے۔ اس رپورٹ میں کرونا وائرس سے نمٹنے میں حکومتی غفلت، سیاسی ابتری، نسلی امتیاز اور عالمی معاہدات کی خلاف ورزی جیسے چار اہم پہلوؤں سے امریکہ کی صورتحال کو پیش کیا گیا ہے۔ اس مفصل رپورٹ کے چیدہ چیدہ نکات پیش خدمت ہیں۔ اس پہلی قسط میں اس رپورٹ کے وہ نکات پیش کئے جا رہے ہیں جو کرونا وائرس سے نمٹنے سے متعلق امریکی حکومت کی غفلت کا احاطہ کرتے ہیں۔

٭ 2020ء میں پھوٹنے والے کرونا وائرس نے پوری دنیا کو رنگ، نسل، اور مذہب کی تفریق کے بغیر اپنی لپیٹ میں لیا تو اس سے لڑنے کے لئے لازم ہوگیا تھا کہ دنیا باہی اتحاد و تعاون سے اس وائرس کے خلاف لڑے۔ لیکن امریکہ واحد ملک تھا جو اس وائرس کے خلاف کسی عالمی اشتراک کا حصہ بننا تو کجا داخلی سطح پر بھی متحد نہ ہوسکا۔ عین پینڈامک کے دوران حکومت کی طرف سے نسلی کشمکش اور سیاسی اختلافات کو ہوا دے کر کروڑوں امریکی انسانوں کی زندگی کو شدید خطرات لاحق کئے گئے اور نتیجتا لاکھوں انسان وہاں اس وبا سے زندگی کی بازی ہار گئے۔ انسانی حقوق کی یہ بدترین خلاف ورزی کسی اور نے نہیں بلکہ امریکہ کی برسر اقتدار حکومت نے کی۔

٭ امریکہ کا دعوی ہے کے وہ دنیا میں سب سے زیادہ طبی سہولیات اور وسائل والا ملک ہے۔ مگر کرونا وائرس سے پیدا ہونے والی صورتحال سے نمٹنے میں یہ دنیا کے سب سے بدنظم اور منتشر ملک کے طور پر سامنے آیا۔ جس کے نتیجے میں امریکہ کرونا متاثرین اور کرونا سے مرنے والوں کی تعداد کے لحاظ سے دنیا میں پہلے نمبر پر ہے۔

٭ فروری 2021ء کے ختتام پر صورتحال یہ تھی کہ دنیا کی آبادی میں امریکہ کا کل حصہ پانچ فیصد سے بھی کم ہے۔ لیکن دنیا کے کنفرم کرونا کیسز میں اس کا حصہ 25 فیصد ہے۔ اور کرونا سے دنیا بھر میں ہونے والی اموات میں 20 فیصد امریکی شہری ہیں۔

٭ جان ہاپکن یونیورسٹی کے اعداد وشمار کے مطابق امریکہ میں کرونا کے کنفرم متاثرین کی تعداد 28 ملین ہے۔ جبکہ ان میں سے مرنے والوں کی تعداد 5 لاکھ سے زائد ہے۔

٭ 29 جنوری 2020 کو ڈونلڈ ٹرمپ کے مشیر تجارت پیٹر نوارو نے میمو جاری کیا کہ اگر بروقت اقدامات نہ کئے گئے تو پانچ لاکھ سے زائد امریکی اموات کے ساتھ ساتھ ٹریلینز آف ڈالرز کا امریکہ کو نقصان ہوسکتا ہے مگر اس میمو کو صدر نے نظر انداز کردیا۔ کرونا کے تدارک کے بجائے حکومت کی ساری توجہ اس بات پر مرکوز رہی کرونا کے حوالے دئے جانے والے قومی سطح کے اویرنس پیغامات کی روک تھام کی جائے اور لوگوں کو یہ باور کرایا جائے کہ کرونا سے کوئی خطرہ نہیں۔ یہاں تک کہا گیا کہ کرونا سے امریکی شہریوں کے متاثر ہونے کا امکان بہت ہی کم ہے۔ اور یہ کہ یہ وائرس ایک عام سا فلو ہےجو موسم گرما کے آتے ہی خود ختم ہوجائے گا۔

٭ نیویارک ٹائمز اور واشنگٹن پوسٹ سمیت امریکہ کے بیشتر میڈیا ہاؤسز نے رپورٹس جاری کی ہیں کہ ماہرین کی جانب سے بار بار متوجہ کرنے کے باوجود حکومت نے قصدا تمام وارننگز کو نظر انداز کیا اور انسانی جانوں کو بڑے نقصان سے دوچار کیا۔

٭ جب پینڈامک امور کے امریکی ماہرین مسلسل کہہ رہے تھے کہ عوامی مقامات پر ماسک کو لازم قرار دیا جائے تو خود امریکی صدر اور ان کے مشیر اس کے خلاف جا رہے تھے اور اس کی خلاف ورزی کر رہے تھے۔

٭ سی این این نے رپورٹ کیا کہ صورتحال اتنی بدتر ہے کہ ماہرین صحت ایک بات کرتے ہیں، ریاستوں کے گورنرز اس کے خلاف جا کر کچھ اور بات کرتے ہیں اور قومی لیڈر کوئی تیسری بات۔ جس سے عدم تسلسل کو ہی تسلسل حاصل ہے۔ جب وفاقی حکومت نے کار و بار مرحلہ وار کھولنے کی ہدایت کی تو قومی لیڈروں نے ریاستوں سے کہا کہ کار و بار مرحلہ وار نہیں بلکہ تیزی سے فورا کھولے جائیں۔ جب سی ڈی سی نے تجویز دی کہ لوگ پبلک مقامات پر ماسک پہنیں تو لیڈرز نے اسے کئی ماہ تک مسترد کئے رکھا۔ ایسے لیڈر بھی دیکھے گئے جو یہ مہم چلاتے رہے کہ لوگوں کو علاج کے لئےبلیچ کے انجیکشن لگائے جائیں۔

٭ حکومتی غفلت کا یہ عالم تھا کہ ملک کا صدر امریکہ میں کرونا کیسز زیادہ ہونے کا سبب یہ بتاتا رہا کہ ہم نے زیادہ ٹیسٹ کئے ہیں اس لئے ہمارے کیسز زیادہ ہیں۔ باقی ملکوں نے ٹیسٹ کم کئے ہیں اس لئے ان کے کیسز کم ہیں۔

٭ غفلت اس درجے کی تھی کہ جن علاقوں میں کرونا سب سے تیزی سے پھیل رہا تھا ان علاقوں میں اس کے تدارک بجائے کار و بار کھولنے پر سارا زور صرف کیا جا رہا تھا۔

٭ انسانی جانوں کی ناقدری اس درجے کی تھی کہ ٹیکساس کے لفٹننٹ گورنر ڈین پیٹرک نے فاکس نیوز پر بات کرتے ہوئے 23 مارچ 2020 کو کہا کہ اگر لوگوں کو موت سے بچانے کے لئے احتیاطی تدابیر کے نتیجے میں معیشت کو نقصان ہوتا ہے تو وہ معیشت کو بچائے رکھنے کے لئے موت کو ترجیح دے گا۔

٭ کرونا کے تدارک کے حوالے سے نظام اس قدر غیر منصفانہ ہے کہ امریکہ میں کرونا وائرس سے متاثر ہونے کا امکان سفید فاموں کے مقابلے میں سیاہ فاموں میں تین گنا زیادہ ہے۔اگر اموات کے لحاظ سے دیکھا جائے تو انتظامی غفلت کے نتیجے میں کرونا سے سیاہ فام کے مرنے کا امکان سفید فام سے دوگنا ہے۔ صرف کرونا ہی نہیں بلکہ سیاہ فاموں کی تو عام حالات میں بھی صورتحال یہ ہے کہ سفید فام کے مقابلے میں سیاہ فام کا پولیس کے ہاتھوں مرنے کا امکان تین گنا زیاہ ہے۔

٭ کرونا سے نمٹنے کے معاملے میں حکومتی غفلت کے نتیجے میں صورتحال یہ ہوگئی کہ اس سال کروڑوں امریکی شہری ہیلتھ انشورنس سے محروم ہوگئے۔

٭ اسی بدترین غفلت کے نتیجے میں ہر چھ میں سے ایک بالغ امریکی اور ہر چار میں سے ایک امریکی بچہ بھوک کے خطرے سے دوچار ہو گیا۔ اور یہ سب اس لئے ہوا کہ امریکی حکومت نے کرونا وائرس سے نمٹنے میں انتہائی لاپروائی کا مظاہرہ کیا۔ اگر یہ سب انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزی نہیں تو کیا ہے ؟

Related Posts