بجٹ توقعات اور معاشی صورتحال

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

آج سے 2 روز قبل وزیر اعظم شہباز شریف کی زیر قیادت وفاقی حکومت نے قومی اسمبلی میں بجٹ پیش کیا جس سے غریب عوام اور سرکاری ملازمین نے بہت سی توقعات وابستہ کر رکھی تھیں تاہم معاشی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ بجٹ آئی ایم ایف سے متاثر ہے۔

ملک کی معاشی صورتحال بد سے بد تر ہورہی ہے۔ ہر گزرتے روز کے ساتھ مہنگائی بڑھ رہی ہے۔ ملک کی تاریخ میں پہلی بار پیٹرول کی قیمت 200 روپے فی لیٹر سے تجاوز کر گئی جو 300 سے بھی زائد ہونے کا امکان ہے۔

اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں بھی ہوشربا اضافہ ہوا ہے۔ رواں برس بجٹ کا حجم 9500 ارب رہا۔ حکومت نے ہر ماہ 1لاکھ سے کم کمانے والے کو ٹیکس پر چھوٹ دے دی جس سے ٹیکس کی وصولی میں زبردست کمی ہوسکتی ہے۔ چھوٹے تاجروں پر ٹیکس بڑھا کر کمزور طبقات کو دبانے کی پالیسی پر عملدرآمد پھر شروع کردیا گیا۔

لگژری اشیاء کی درآمد پر پابندی لگانا احسن اقدام سہی، جی ڈی پی کی شرحِ نمو 5 فیصد رہنے کی پیشگوئی گوئی بھی آنے والی بد تر معاشی صورتحال کا پتہ دے رہی ہے تاہم حکومت پر امید ہے کہ بجٹ ملک کو معاشی بحران سے نکالنے میں کامیاب ہوگا۔ ملک کے کمزور طبقات کیلئے بڑھتی ہوئی مہنگائی کے تدارک کے طور پر 2000 روپے ماہانہ دینے کا اعلان کرکے جان چھڑا لی گئی۔

سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں 15فیصد اضافہ کچھ نہ کچھ ریلیف فراہم کرنے کی ایک صورت ضرور ہے تاہم یہ ملازمین ملک میں 10 سے 11لاکھ کے لگ بھگ ہیں۔ نجی شعبے میں کام کرنے والے ملازمین بڑھتی ہوئی مہنگائی کا سامنا کرنے میں شدید مشکلات کا شکار ہوسکتے ہیں کیونکہ نجی کمپنیاں تنخواہ بڑھانے میں ہمیشہ سے ہی کنجوسی کا مظاہرہ کرتی آئی ہیں۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ بجٹ میں ایسے ٹیکس اور لیویز موجود ہیں جن کا تقریر میں ذکر نہیں ہوا، فنانس بل میں انہیں شامل کرکے ملک میں مہنگائی میں مزید اضافے کی بری خبرسنائی گئی ہے جس کا نشانہ متوسط طبقہ بنے گا۔

تاہم دوسری جانب کچھ معاشی تجزیہ کاروں کا یہ بھی کہنا ہے کہ تنخواہ دار طبقہ ٹیکس سلیب میں تبدیلی اور 6لاکھ کی سالانہ آمدن پر ٹیکس چھوٹ اور 6لاکھ سے 12لاکھ آمدنی پر 100 روپے ٹیکس ادا کرنے کی سہولت سے فائدہ اٹھا سکتا ہے۔

ٹیکسز میں سب سے زیادہ اضافہ پیٹرولیم مصنوعات اور لیوی کی مد میں 750 ارب اکٹھے کرنے کا ہدف مقرر کرکے کیا گیا۔ تاحال حکومت لیوی کی مد میں 135ارب اکٹھے کرنے میں کامیاب ہوئی ہے۔ آئندہ مالی سال کے آغاز میں ہی پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کم از کم 30 روپے فی لیٹر مزید اضافے کا خدشہ ہے۔

وفاقی بجٹ میں تعلیم، روزگار اور صحت کے شعبوں پر توجہ مفقود نظر آئی۔ محسوس ایسا ہوتا ہے کہ حکومت کی ساری توجہ آئی ایم ایف سے قرض لینے پر مرکوز ہے جو عوامی مسائل کا تدارک کرنے میں بری طرح ناکام نظر آتی ہے۔ 

آئندہ مالی سال کیلئے حکومت نے گیس ڈویلپمنٹ سرچارج اور ایل پی جی پر لیوی سمیت دیگر مدات میں بھی ملک کی ناگفتہ بہ معیشت کا بوجھ عوام پر ڈالنے کی کوشش کی ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ حکومت عوامی مسائل کو سمجھے اور ملکی برآمدات میں اضافہ، درآمدات میں کمی کرکے تجارتی خسارے پر قابو پائے۔ قرض پر قرض لینے اور سود در سود دینے کی پالیسی چھوڑ کر تجارت اور برآمدات میں اضافے پر توجہ دی جائے۔ غیر ضروری درآمدات کا بوجھ بھی کم کرنے کی ضرورت ہے۔ 

Related Posts