حکومت اپوزیشن ٹکراؤ: ملک میں کیا ہونے جا رہا ہے؟

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

حکومت اپوزیشن ٹکراؤ: ملک میں کیا ہونے جا رہا ہے؟
حکومت اپوزیشن ٹکراؤ: ملک میں کیا ہونے جا رہا ہے؟

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

جمعرات کی شام ڈی جی آئی ایس پی آر ٹی وی سکرینوں پر نمودار ہوئے تو سیاست میں دلچسپی رکھنے والے ان کی طرف پوری طرح متوجہ تھے۔ ان کے ہر فقرے کو جانچنے کے لئے تیار۔ پریس کانفرنس سے چند منٹ پہلے ایک سینئر صحافی سے میری بات ہوئی، کہنے لگے کہ اگر ڈی جی صاحب کہہ دیں کہ تمام ادارے ریاست کا ساتھ دینے کے آئین، قانونی طورپر پابند ہیں تو کیا ہوگا؟میں نے عرض کیا، اگرچہ آئینی طور پر تو یہی پوزیشن ہے، ہر ادارہ ریاستی ادارہ ہے، ریاست کا ساتھ دینے کا پابند، مگر ایسے موقعہ پر یہ بیان تو وزیراعظم عمران خان کی حمایت تصور ہوگا۔

اگلا سوال میں نے کیا کہ اگر کہا جائے کہ فوج کا سیاست سے کوئی لینا دینا نہیں، ہم سے اس بارے میں سوال نہ کیا جائے تب کیا تاثر پڑے گا؟ اس بار ان کا جواب تھا، ”یہ اپوزیشن کے حق میں جائے گا۔ اسٹیبلشمنٹ کی غیر جانبداری کا مقصد اپوزیشن کو تقویت دینا ہے کہ یہی تو اپوزیشن کا ساڑھے تین سال سے مطالبہ رہا ہے، وہ یہی کہتے رہے کہ اگر اسٹیبلشمنٹ سائیڈ پر ہوجائے تو ہم فوری طورپر حکومت کوآئینی طریقے سے ان ہا?س تبدیلی کے بعد چلتا کر دیں گے۔

پریس کانفرنس سب نے سن لی ہوگا، اس کا مرکزی نکتہ کچھ اور ہی تھا، اس پر وضاحت اور قوم کو اعتماد میں اچھے طریقے سے لیا گیا۔ ایک سوال کا ضمنی حصہ وہ تھا، جس پر دئیے گئے جواب کے بعد صبح کے تمام اخبارات کی لیڈیہی ہوگی،”فوج کا سیاست سے کوئی لینا دینا نہیں“۔

تو صاحبو، اسٹیبلشمنٹ نے اپنی غیر جانبداری کا ایک بار پھر کھل کر اعلان کر دیا اور اس بار فیصلہ کن مرحلے پر ایسا کیا گیا ہے۔ کہتے ہیں کہ اسٹیبلشمنٹ پاور گیم میں کبھی غیر جانبدار نہیں ہوتی، البتہ کبھی یہ تاثر دے دیتی ہے۔ ویسے سیاست میں تو تاثر کی بھی بہت اہمیت ہے۔ اس تاثر پر الیکشن ہارے، جیتے جاتے ہیں، حکومت بدل جاتی ہیں۔

اس پریس کانفرنس کے ساتھ ساتھ اسلام آباد میں پارلیمنٹ لاجز کے اندر، باہر پولیس آپریشن نے ایک نیا ہنگامہ جنم دے دیا۔ ایسا ہنگامہ جو پوری ملکی سیاسی صورتحال کو پراگندا کرنے کے ساتھ صورتحال کو ایک نئی طرف لے جا سکتا ہے۔

انصاف کا تقاضا یہ ہے کہ اس ناخوشگوار واقعے کے حوالے سے کچھ ذمہ داری جمعیت علما اسلام (جے یوآئی ف)کی قیادت یا اس رہنما پر ڈالنی چاہیے،جس نے انصارالاسلام کارکنوں کو پارلیمنٹ لاجز میں بلایا۔ انصار الاسلام جے یوآئی ف کی ایک ذیلی شاخ ہے اور یہ تربیت یافتہ کارکن ہیں جو پارٹی لیڈرکی حفاظت اور جلسوں وغیرہ کا انتظام سنبھالتے ہیں۔ ان کی مخصوص وردی ہے اور کئی بار انہیں فوجی انداز میں پریڈ کرتے اور ایک بار تو مولانا فضل الرحمن کو خاص انداز میں گارڈز آف آنر پیش کرتے بھی دیکھا گیا۔

دو سال پہلے مولانا فضل الرحمن نے لانگ مارچ اور اسلام آباد میں دھرنا دیا تب یہی انصار الاسلام کے کارکن اس میں پیش پیش تھے، ہاتھوں میں ڈنڈے تھامے وہ تمام معاملات سنبھالتے رہے۔ جے یوآئی کے ترجمانوں کے مطابق یہ پارٹی کے گارڈز کا دستہ ہے۔ یعنی دوسرے الفاظ میں یہ پارٹی کے دست وبازو ہیں۔

سوال یہ ہے کہ ایک ایسی تنظیم جس کی شہرت ہی گارڈز کے انداز میں قوت کے استعمال سے ڈسپلن وغیرہ قائم کرنا ہے، اسے اسلام آباد کے پارلیمنٹ لاجز میں کیوں مدعو کیا گیا؟ ایسا کرنے کا مقصد کیا تھا؟کیا مولانا اور ان کے دیگر ساتھی اس سے بے خبر تھے کہ اس طرح کے کارکنوں کے کسی جتھے کو پارلیمنٹ لاجز میں نہیں گھسنے دیا جائے گا؟

دو منٹ کے لئے فرض کر لیں کہ اگر تحریک انصاف اپنے انصافین یوتھ فورم یا اسی طرح کے نوجوان کارکنوں کے جتھوں کو بھی پارلیمنٹ لاجز میں بلا لیتی تو کیا ہوتا؟ یہی کام ن لیگ، پیپلزپارٹی کرتی تو پھر ہنگامہ آرائی اور جنگ وجدل کے سوا اور کیا ہونا تھا؟

مولانا فضل الرحمن کا اس پر ردعمل بھی غیرمعمولی حد تک جارحانہ تھا۔ پورے ملک کو جام کرد ینے کا اعلان، سڑکیں بلاک کرنے اور جگہ جگہ احتجاج کرنے کا کہنا تو بڑے پیمانے پر ہنگامے اور عوام کو پریشان کرنے کے مترادف ہے۔ ہم لوگ چند ماہ پہلے ایک مذہبی تنظیم کے ایسے دھرنوں اور احتجاج کو بھگت چکے ہیں، لاکھوں لوگ جس سے پریشان اور خوار ہوئے۔ اب مولانا وہی منظر کیوں دہرانے لگے ہیں؟

سوال تو یہ بھی ہے کہ مولانا کو ایسے وقت میں احتجاج کی کیا سوجھی؟ ان کے اپنے بیان کے مطابق وہ تحریک عدم اعتماد کے لئے ضرورت سے زیادہ ارکان اسمبلی کی حمایت حاصل کر چکے ہیں، وہ دعویٰ کرتے ہیں کہ گیم جیت چکے ہیں، وزیراعظم اور حکومت کا خاتمہ تو اس اعتبار سے اب صرف دو ہفتوں کی کہانی رہ گئی ہے۔ یہ وقت سڑکوں پر جانے اور احتجاج کرنے کا نہیں بلکہ ڈرائنگ روم پالیکٹس کا ہے۔

مجموعی طور پر پوری اپوزیشن کے انداز گفتگو اور نقطہ نظر میں یکایک جارحیت آ گئی ہے۔ لہجوں سے آگ برسنے لگی، آنکھوں سے چنگاریاں نکل رہی ہیں۔ ایسا کیوں؟ یونین کونسل کی سطح پر بھی دیکھا گیا کہ جو فریق الیکشن ہار رہا ہوتا ہے وہ ہنگامہ آرائی کرتا ہے جبکہ جیتنے والا اپنے غصے پر قابو پا کر شانت اور ریلیکس رہتا ہے کیونکہ اسے جیت نظر آرہی ہوتی ہے۔ اپوزیشن ایسا کیوں نہیں کر رہی؟

اگلے روز بلاول بھٹو نے دھواں دھار پریس کانفرنس کی اور کئی روز پہلے آصفہ بھٹو سے حادثاتی طور پر ٹکرانے والے ڈرون میں سازشی تھیوری ڈھونڈلی، انہوں نے پریمئر ایجنسی سے اس کی تحقیقات کا مطالبہ کیا اور وزیراعظم عمران خان کی تقریر کا نہایت سخت بلکہ دھماکے دار لہجے میں جواب دیا۔ پاور پالیٹکس کرنے اور اسمبلی میں کامیاب تحریک عدم اعتماد لانے والے کسی سیاستدان کا یہ لہجہ ہی نہیں۔

عمران خان کا غصہ اور فرسٹریشن سمجھ میں آتی ہے۔ اپوزیشن ان پر حملہ آور ہوئی ہے، ان کی حکومت ایک سنگین خطرے سے دوچار ہے، کچھ بھی ہوسکتا ہے۔ پھر ان کے اپنے اتحادیوں کا رویہ افسوسناک رہا،وہ باربار اپوزیشن کی طرف جا کر واضح بلیک میلنگ کر رہے ہیں۔ پارٹی میں کئی گروپ بن چکے ہیں، حتیٰ کہ وزرا تک بغاوت کے اشارے دے رہے ہیں۔

ویسے عمران خان بھی خواہ مخواہ کی جارحانہ، گالیاں، کوسنوں والی تندوتیز تقریریں کر رہے ہیں۔ ان کا لہجہ غیر شائستگی کی حد کو عبور کر رہا ہے، انہیں ایسا ہرگز نہیں کرنا چاہیے، مگر اپوزیشن کا تو یہ رویہ غلط ہونے کے ساتھ غیر منطقی بھی ہے۔

بلاول بھٹو کو چاہیے تھا کہ وہ اپنی آج کی پریس کانفرنس میں عمران خان کا مضحکہ اڑاتے، طنزیہ جملے، پھبتیاں کستے،اپنے مخصوص مصنوعی مسکراہٹ اور ہنسی کے ساتھ کہتے کہ چونکہ حکومت جا رہی ہے اس لئے یہ اتنا غصہ کرر ہا ہے، وغیرہ وغیرہ۔ یہ منطقی اور قابل فہم تھا۔ یہی رویہ مولانا فضل الرحمن کو اپنانا چاہیے۔ انہیں انصارالاسلام کارکنوں کو اسلام آباد بلانا ہی نہیں چاہیے تھا۔ اگر جنگ پارلیمنٹ سے جیتنا ہے تو پھر انہیں اپنے اعصاب پر قابو پانے کی ضرورت ہے۔

ایسا کرنے کی دو وجوہات ہوسکتی ہیں۔
اپوزیشن کا غصہ، فرسٹریشن اور جارحیت ان کی اب تک کی ناکافی تیاری یا کسی قسم کی غیر متوقع رکاوٹوں کی خبر دے رہی ہے۔ ایسی رکاوٹ جس کا انہیں پہلے اندازہ نہیں تھا۔ ان کے گیم پلان میں جس کے لئے کچھ نہیں سوچا گیا۔

یا پھر یہ کسی بڑے ایجنڈے، کسی گریٹ گیم کا حصہ ہے۔ جس کا مقصد آگ بھڑکانا، ٹکرا? کرنا، معاملات تصادم کی طرف لے جانا ہے۔ ایسے میں دانستہ یا نادانستہ طور پر کئی لوگ استعمال ہوتے ہیں، حکومت یا اپوزیشن دونوں اطراف سے۔

مثال کے طور پر انصار الاسلام کارکنوں کا آنا، پارلیمنٹ لاجز میں جا کر کسی مخصوص کمرے سے اپنی وردیاں لے کر پہننا غلط تھا۔ ایسا نہیں ہونا چاہیے۔ جس انداز سے مگر پولیس آپریشن کیا گیا، اس کا بھی کوئی جواز نہیں۔ ارکان اسمبلی کو پکڑنا، کارکنوں کو دھکے دے کر باہر نکالنا اور گاڑیوں میں ٹھونسنا بھی غلط۔

اگر انتظامیہ چاہتی تو آسانی کے ساتھ مولانا سے بات کر کے ان کارکنوں کو باہر نکلوا سکتی تھی۔ یہ اتنا مشکل کام تو نہیں تھا۔ آج کل میڈیا کا دور ہے، ان کارکنوں کو کیمرے میں دکھایا جاتا اور کسی ہنگامے، زورجبر کا اندیشہ ظاہر کیا جاتا تو خود مولانا پر عوامی دبا? آ جاتا۔ ان کو یہ کارکن واپس بھجوانے پڑتے۔ جس طرح وزارت داخلہ نے آپریشن کیا، وہ آگ بھڑکانے والا طریقہ ہے۔ اس سے ہنگامہ آرائی ہوگی، معاملات خرابی کی طرف جائیں گے۔
سوال یہ ہے کہ بات”ودھ“ گئی توفائدہ کسے پہنچے گا؟
مختارے کے ساتھ ساتھ حکومت، اپوزیشن، سیاسی، جمہوری حلقوں کو یہ سوچنا چاہیے۔
آپ کو، ہم سب کو یہ بھی سوچنا چاہیے کہ ملک میں کیا ہونے جا رہا ہے؟ کیا جو کچھ دکھایا جا رہا ہے، وہی ہے یا اس کے پیچھے کوئی اور کھیل بھی موجود ہے۔
آخری تجزیے میں ہم سب کو آئین، قانون، جمہوریت اور سیاسی سسٹم کے ساتھ کھڑا ہونا چاہیے۔ سیاسی لیڈر، پارٹیاں، کارکن، میڈیا، سوشل میڈیا، لکھنے والے…. ان سب کو نادیدہ قوتوں سے استعمال نہیں ہونا چاہیے۔
ہوشیار رہیں، جاگتے رہیں، چیزوں کو دیکھتے، سمجھتے رہیں۔

Related Posts