جارج فلوئڈ کا قتل اور عوامی طاقت

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

سیاہ فام امریکی جارج فلوئڈ کے بہیمانہ قتل کے تقریباً ایک سال بعد آخر کار نسل پرست دنیا کی سب سے زیادہ خودمختار جمہوریت میں انصاف کا بول بالا ہوا۔ قتل کے مرتکب سابق پولیس افسر ڈیرک کو تینوں الزامات میں مجرم ٹھہرایا گیا جس نے جارج کو گرفتار کرنے کی کوشش کے دوران اس کی گردن پر گھٹنا رکھ کر اس کا سانس روک لیا تھا۔ یہ تین مجرمانہ الزامات دوسرے اور تیسرے درجے کا قتل اور قتلِ عام تھے۔ امریکا کی نسلی اقلیتوں نے اس فیصلے کا خیر مقدم کیا اور صدر جو بائیڈن نے کہا کہ یہ فیصلہ نسل پرستی اور پولیس کی بربریت کے خلاف جنگ میں ایک بہت بڑا قدم ہے۔

جارج کے کیس کو سفید فام پولیس افسر کے باعث معاشرے کیلئے خطرے کے طور پر دیکھا گیا۔ امریکی دستور کے ذریعے غلامی 1865ء میں ختم کردی گئی تھی لیکن آج بھی خود کو آقا سمجھنے والے سیاہ فاموں کو غلام ہی سمجھتے ہیں۔ یوں 8 منٹ 46 سیکنڈ تک ایک سفید فام پولیس افسر نے اپنے گھٹنے ایک سیاہ فام ملزم کی گردن پر برقرار رکھے۔ جارج مرتے دم تک چیختا رہا کہ میں سانس نہیں لے سکتا اور تقریباً 3 منٹ بعد ہی اس نے دم توڑ دیا جس کے بعد پورے امریکا میں نسل پرستی کے خلاف مظاہروں نے جنم لیا جو امریکا سے نکل کر دیگر ممالک میں پھیل گئے۔

ساری دنیا میں اس واضح ناانصافی اور ناحق قتل پر غم و غصہ محسوس کیا گیا۔ ہزاروں مظاہرین نے واشنگٹن کی طرف مارچ کیا۔ لندن کے پارلیمنٹ اسکوائر اور سڈنی میں بھی لوگوں نے جارج سے یکجہتی کا اظہار کرنے کیلئے شدید مظاہرے کیے۔ مظاہرین کا ایک ہی مطالبہ تھا کہ انصاف کے تقاضے پورے ہونے چاہئیں۔ سیاہ فاموں کی زندگی بھی معنی رکھتی ہے، یہ ثابت کرنے کیلئے ایک مقدمے کا فیصلہ کیا گیا جو تاریخی ہے۔ یہ دیکھتے ہوئے کہ جارج کو دی جانے والی موت ویڈیو میں ریکارڈ کر لی گئی ہے، اس کا براہِ راست اعتراف ایک مناسب فیصلہ تھا تاہم امریکی ریاستوں میں سیاہ فام افراد کے خلاف پولیس کی بربریت کی ایک تاریخ موجود ہے جسے نظر انداز نہیں کیاجاسکتا۔

تقریباً 30 سال قبل ایک ویڈیو میں ایک افریقی امریکی روڈنی کنگ کو گرفتار کرنے کے دوران 4 سفید فام پولیس افسران نے وحشیانہ تشدد کیا۔ غیر مسلح شخص اپنے گھٹنوں پر دیکھا گیا جس پر لاٹھی چارج کیا گیا اور 53 سے 56 بار پیٹ کر تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ ویڈیو شواہد کے باوجود روڈنی کنگ کے خلاف دفاعی اقدام کا بہانہ بنا کر حد سے زیادہ طاقتور پولیس من چاہا فیصلہ حاصل کرنے میں کامیاب رہی۔ جرم ثابت ہونے کے باوجود سزا دینے میں ناکامی کے اسی انداز کا مشاہدہ ایرک گارنر، فیلنڈو کاسٹائل، الٹن سٹرلنگ اور 12 سالہ تیمر رائس کے معاملات میں بھی کیا گیا۔

دراصل امریکی قانونی نظام میں سیاہ فام آدمی کو شاید انسان نہیں سمجھا جاتا کیونکہ ایسے افراد پر تشدد کرنا، انہیں مارنا پیٹنا، گلا گھونٹنا ایک روایتی مشق سمجھی جاتی تھی تاہم رواں برس کیا تبدیلی آئی؟ جارج فلوئڈ کی موت کے بعد مقدمے میں جیت کا کیا سبب ہوسکتا ہے؟

سن 2014ء میں مائیکل براؤن اور ایرک گارنر کی اموات کے بعد اے بی سی کے ایک سروے میں یہ انکشاف سامنے آیا کہ 43 فیصد امریکی ایسی ہلاکتوں کو پولیس کی نسل پرستانہ کارروائیوں کا نتیجہ سمجھتے ہیں۔ جارج فلوئڈ کے قتل کے بعد سروے دوبارہ ہوا تو پتہ چلا کہ 74 فیصد امریکی سمجھتے ہیں کہ امریکی پولیس کی نسل پرستی بے نقاب ہوچکی ہے، گویا عوام نسلی امتیاز کے مسئلے میں زیادہ باخبر اور متحرک ہوچکے تھے۔

ریاستہائے متحدہ امریکا کے عام شہریوں کیلئے اپنے ہی ملک میں رنگ و نسل کی بنیاد پر عوام کے ساتھ متعصبانہ سلوک کرنے والی پولیس کی بربریت سے انکار ممکن نہیں تھا کیونکہ جارج کا چہرہ ٹی وی، واٹس ایپ، فیس بک، انسٹا گرام، ٹوئٹر اور یو ٹیوب پر بار بار سامنے آرہا تھا۔ اسنیپ چیٹ یا ٹک ٹاک پر بھی دیکھیں تو ایک شخص بار بار یہ کہتا نظر آرہا تھا کہ میں سانس نہیں لے سکتا، مجھے مت مارو۔ اس کے نتیجے میں منظم احتجاج سامنے آیا اور انصاف کا مطالبہ زور پکڑ گیا۔ شرکائے احتجاج تیزی سے نسلی طور پر متنوع ہوئے جس میں بھورے، پیلے، سفید اور کالے سبھی لوگوں نے پولیس کی رنگ و نسل کی بنیاد پر متعصبانہ کارروائیوں کے خاتمے کیلئے کوشش کی اور بالآخر متعصب نظام کو تبدیلی لانی پڑی۔

موجودہ دور ایک ایسا دور ہے جہاں صرف ایک بٹن دبانے پر سیکڑوں اور ہزاروں کی تعداد میں لوگ ایک دوسرے سے منسلک ہوجاتے ہیں اور یہ عوامی طاقت عام انسان کو خاص بنا دیتی ہے۔ آج کل لاکھوں افراد سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کا استعمال کرکے عوام کیلئے آواز اٹھا رہے ہیں۔ جارج کے ساتھ اظہارِ یکجہتی کیلئے کم و بیش 50 ممالک میں مظاہرے کیے گئے جو ایک بڑے ملک امریکا کی تاریخ میں سب سے بڑا احتجاج تھا۔ وکالت کیلئے لاکھوں ڈالرز جمع کیے گئے۔ سیاستدان اپنے اتحادیوں پر نظرِ ثانی کرنے پر مجبور ہو گئے۔ امریکی ریاست اور پولیس اہلکار کے مابین فیصلہ صرف قانونی جیت نہیں بلکہ رائے عامہ اور عدل و انصاف کی فتح تھی۔

یہ فیصلہ سامنے آنے کے بعد نینسی پلوسی نے بڑی آسانی سے انصاف کیلئے اپنی جان قربان کرنے پر جارج فلوئڈ کا شکریہ ادا کیا، تاہم پولیس رپورٹ میں جارج کے قتل کو ایک طبی واقعہ قرار دے کر انصاف کے تقاضوں کو نظر انداز کرنے کی کوشش کی گئی۔ فلوئڈ کے حق میں فیصلہ مساوی انصاف کے نظام کا نہیں بلکہ ان لوگوں کی کاوشوں کا نتیجہ ہے جنہوں نے قانونی نظام کو انصاف پر مجبور کیا۔ حتمی طور پر ایک قوم ہی معاشرے کے طور طریقوں اور چال چلن کی ذمہ دار ہوتی ہے۔ اقتدار کے مالک افراد کو بھی چاہئے کہ عوام کو انصاف کے حصول کیلئے دیگر طریقوں پر سوچنے پر مجبور نہ کریں۔ 

 

Related Posts