جنرل باجوہ، عمران خان ٹکراﺅ: چند مزید انکشافات

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

میڈیا اور سوشل میڈیا میں معروف کالم نگار، اینکر جاوید چوہدری صاحب کے ایک کالم کا بڑا چرچا ہورہا ہے۔ جاوید چوہدری صاحب نے جنرل باجوہ سے ملاقات کے حوالے سے پہلے بھی کالم لکھے تھے، جن میں جنرل باجوہ کی طرف کا موقف بیان کیا گیا۔ اب اپنے گزشتہ روز (9 فروری) کے کالم میں جاوید چوہدری صاحب نے پھر سے انکشافات کئے ہیں اور اس کالم سے اندازہ ہوا کہ جنرل باجوہ نے عمران خان حکومت کی تبدیلی کے حوالے سے اپنی ذمہ داری قبول کی اور اس کی توجیہہ عمران خان کا غیر ذمہ دارانہ عمل قرار دیا اور اسے ملکی مفاد میں ضروری کہا۔

جاوید چوہدری صاحب کا کالم ابھی جاری ہے، اس کا دوسرا حصہ اگلے ایک دو روز میں آجائے گا تو اس پر تفصیلی تبصرہ کرنا آسان ہوجائے گا۔

آج ہم ایک اور ممتاز صحافی حامد میر کے ایک مضمون کا جائزہ لیتے ہیں جو پچھلے ماہ یعنی 9 جنوری کو ایک معروف بھارتی جریدے انڈیا ٹوڈے میں شائع ہوا، اس کا عنوان ہے : ”ڈرٹی گیم، اَن ٹولڈ سٹوری آف عمران خان اینڈ جنرل باجوہ لو ہیٹ ریلیشن شپ ۔“

یاد رہے کہ حامد میرگزشتہ چند برسوں میں اینٹی اسٹیبلشمنٹ صحافی کے طور پر مشہور ہوئے تھے، تاہم آج کل ان کے اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ تعلقات خوشگوار ہیں، اس کا ایک ثبوت جنرل باجوہ کی ان کے ساتھ ملاقاتیں ہیں اور دوسرا وہ پی ڈی ایم حکومت کی کھل کر حمایت کررہے ہیں اور ان کا بھارتی جریدے میں چھپنے والا مضمون سخت اینٹی عمران ہے، جس میں میر صاحب نے کھل کر عمران خان پر تیر برسائے اور انہیں ”لوزر“ قرار دیا۔

حامد میر نے اپنے مضمون کا آغاز ہی اس بات سے کیا کہ ”عمران خان نوشتہ دیوار نہیں پڑھ رہے، وہ جنرل ریٹائر باجوہ کے خلاف ایک ہاری ہوئی جنگ لڑرہے ہیں۔ وہ ایک ایسے شخص سے مقابلہ کررہے ہیں جس کے پاس ہارنے کو کچھ نہیں۔ جنرل باجوہ اب ریٹائر آرمی افسر ہیں جسے وزیراعظم نہیں بننا جبکہ عمران خان ایک سیاستدان ہیں جو دوبارہ وزیراعظم بن سکتے ہیں۔“

مضمون کے اسی افتتاحی پیرے میں حامد میر نے پھر یہ سوالات اٹھائے، ”عمران خان کیوں ایسے شخص کے خلاف الزامات لگارہے ہیں جس پر الزام ہے کہ اس نے دو ہزار اٹھارہ میں عمران خان کو وزیراعظم بنوایا؟ کیا وہ جنرل باجوہ کو ہدف بنا کر موجودہ آرمی چیف کو بلیک میل کرنا چاہتے ہیں؟ کیا عمران خان نااہلی اور ملک کے سب سے طاقتور ادارے کو ہدف بنانے کے نتیجے میں گرفتار ہونے سے بچ پائیں گے؟“

حامد میر آگے لکھتے ہیں ”میں عمران خان کو 1989 سے جانتا ہوں۔ وہ ہمیشہ سے کرکٹ میں جارحیت کو بہترین دفاع تصور کرتے تھے۔ میں نے انہیں 1995 میں سیاست میں داخل ہونے سے منع کیا اور سماجی خدمات پر فوکس کرنے کا مشورہ دیا۔ مجھے خدشہ تھا کہ عمران کا پلے بوائے امیج اور ان کی ناجائز اولاد ان کی سیاست میں رکاوٹ بن جائیں گے۔ مگر عمران خان نے سیاست جوائن کرلی اور اپنے مخالفین پر باﺅنسرز پھینکنے شروع کردئیے اور اب وہ اپنے باﺅنسر پاک فوج کے خلاف استعمال کررہے ہیں۔“

اگلے دو پیروں میں عمران خان پر جنرل باجوہ کی ”خدمات“ کا ناشکرا ہونے کے طعنہ دینے سمیت کئی تنقید ی حملے کرنے کے بعد حامد میر نے انکشاف کیا کہ جنرل باجوہ نے پچھلے کچھ عرصے میں عمران خان کے خلاف بعض اہم اطلاعات اپنے سیاست اور میڈیا کے کچھ دوستوں میں لیک کیں اوراپنا کیس پیش کیا کہ عمران خان کے تنقیدی حملے دراصل ان کے ناشکرگزار دل کو ظاہر کرتے ہیں۔ جنرل باجوہ نے ایک کالم نگار(غالباً جاوید چوہدری کی طرف اشارہ ہے) کو خصوصی انفارمیشن دیں اور بتایا کہ انہوں نے 2017 میں عمران خان کو عدالت سے نااہل ہونے سے بچایا۔

حامد میر کے مطابق انہیں یاد ہے کہ 2018 کے الیکشن سے چند ہفتے قبل عمران خان نے ان کے ٹی وی شو میں نواز شریف پر تنقید کی تھی اور کہا تھا کہ وہ فوج کی پراڈکٹ ہے۔ جب یہ انٹرویو آن ائیر گیا تو مجھے چیف جنرل باجوہ نے بلایا۔ وہاں پہنچا تو دیکھا کہ سلیم صافی پہلے سے وہاں پر موجود ہے۔ سلیم صافی جنرل باجوہ کو کہہ رہے تھے کہ آپ نے عمران خان کو وزیراعظم ہاﺅس پہنچانے کا فیصلہ کرلیا ہے، مگر میرے الفاظ یاد رکھیں کہ یہ نہ صرف آپ کو دھوکہ دے گا بلکہ پشت میں چھرا بھی گھونپے گا۔ جنرل باجوہ جواب میں سلیم صافی کو صحافیانہ اخلاقیات پر لیکچر دیتے رہے اور مشورہ دیا کہ صافی عمران خان سے اپنے ذاتی اختلافات بھول جائے۔“ حامد میر کے بقول وہ یہ گفتگو خاموشی سے سنتے رہے اور مداخلت نہ کی۔

آگے حامد میر لکھتے ہیں کہ ”جب سلیم صافی چلا گئے تو جنرل باجوہ نے مجھے کہا کہ عمران خان نے آپ کے ٹاک شو میں نواز شریف پر فوج اور ایجنسیوں کی سرپرستی لینے کا الزام لگایا۔ براہ کرم آپ عمران خان کو مشورہ دیں کہ وہ ایسی باتیں نہ کریں کیونکہ اس انٹرویو کے بعد مجھے (جنرل باجوہ) بہت سے لوگوں نے کہا کہ عمران خان بری صحبت میں ہے اور ا س پر اعتماد نہیں کیا جاسکتا۔“ حامد میر کہتے ہیں کہ انہوں نے جنرل باجوہ کو احترام کے ساتھ جواب دیا کہ میں صحافی ہوں، عمران خان کا مشیر نہیں (جو اسے کوئی مشورہ دوں)۔ جنرل باجوہ نے اس پر قہقہہ لگایا اور کہا آپ اس کے پرانے دوست ہیں، اپنی ذاتی حیثیت میں یہ اسے یہ مشورہ دیں۔“ حامد میر نے یہاں پر یہ وضاحت نہیں کی کہ انہوں نے جنرل باجوہ کا کہنا مان کر عمران خان کو مشورہ دیا یا نہیں۔

حامد میر نے پھر لکھا کہ الیکشن میں جنرل باجوہ اور اداروں کی تمام تر سپورٹ کے باوجود عمران خان اکثریت حاصل نہ کر پائے اور انہیں آزاد اراکین اسمبلی کو تحریک انصاف میں شامل کرا کر وزیراعظم بننا پڑا۔ حامد میر نے یہاں ایک دلچسپ جملہ لکھا کہ جنرل باجوہ وزیراعظم عمران خان کو اپنا ”باس“ تصور نہیں کرتے تھے۔ جنرل باجوہ نے تحریک انصاف کی جانب سے پنجاب اور کے پی کے نامزد کردہ وزرائے اعلیٰ پر ناپسندیدگی ظاہر کی۔ وہ ان عہدوں پر اپنے پسندیدہ لوگ لانا چاہتے تھے، مگر عمران خان نے انہیں obligeکرنے سے انکار کردیا۔ حامد میر کے مطابق جنرل باجوہ نے 2019میں مجھے بلایا اور کہا کہ عمران خان سے لازمی طور پر ملو اور اسے کہو کہ وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کو تبدیل کرے۔ حامد میر کہتے ہیں کہ میں نے ایک بار پھر جنرل باجوہ کو یہ کہہ کر ناراض کردیا کہ میں ایک صحافی ہوں، یہ میرا کام نہیں۔

حامد میر نے اس مضمون میں بتایا کہ جنرل باجوہ ہمیشہ سے بھارت کے ساتھ خوشگوار تعلقات قائم کرنا چاہتے تھے۔ شاہد خاقان عباسی جب وزیراعظم تھے تو ان کی اجازت سے جنرل باجوہ نے بیک چینل ڈپلومیسی کا سلسلہ شروع کیا، جب عمران خان وزیراعظم بن گئے تو پھر سے اس سلسلہ کو آگے بڑھایا گیا۔ تاہم پلوامہ واقعہ، بھارتی فضائی حملے اور پھر بھارتی طیارہ گرائے جانے اور ابھی نندن کی گرفتاری اور رہائی کے واقعات آگئے، پھر بھارت نے اگست 2019 میں کشمیر کا خصوصی اسٹیٹس ختم کردیا اور پھر عمران خان نے نریندرمودی کا مشہور نازی لیڈر ہٹلر سے موازنہ شروع کردیا اور پھرعمران نے نومبر 2019 میں کرتارپور کوریڈور کا افتتاح بھی کردیا۔

آگے جاکر حامد میرنے ایک اہم انکشاف کیا۔ وہ لکھتے ہیں ”جنرل باجوہ کے مطابق بھارتی وزیراعظم نریندر مودی 9 اپریل 2021 کو پاکستان کے دورے پر آنے کو رضامند ہوگئے تھے۔ جنرل باجوہ کا دعویٰ تھا کہ نریندر مودی پاکستانی شہر لسبیلہ میں ہنگلاج ماتا مندر کی سالانہ چار روزہ تقریبات میں شامل ہونے پر تیا ر ہوگئے تھے۔

”جنرل فیض حمید ایک خلیجی شہر میں بھارتی نیشنل سکیورٹی ایڈوائزر اجیت دیول کو ملے اور دونوں میں باہمی تجارتی تعلقات اور کرکٹ لنکس کھولنے کے لئے اتفاق رائے ہوگیا تھا۔ بھارت کے ساتھ تجارت شروع کرنے کا اصولی فیصلہ بھی ہوگیا تھا، مگر عمران خان کی کابینہ نے اس فیصلے کو نامنظور کردیا۔ بقول حامد میر جنرل باجوہ کا دعویٰ تھا کہ دونوں اطراف (پاکستان اور بھارت) کشمیر کو بیس سال کے لئے فریز کرنے پر راضی ہوگئے۔ عمران خان بھی تعلقات قائم کرنا چاہتے تھے، مگر انہوں نے اس کی رفتار سست کرنے کا مشورہ دیا۔ دراصل عمران خان آزاد کشمیر میں ہونے والے الیکشن (جولائی 2019) کو جیتنا چاہتے تھے۔ جنرل باجوہ کے خیال میں عمران خان کو ان کے وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی نے مس گائیڈ کیا،جو میڈیا میں تنقید سے خوفزدہ تھے ۔ “

اگلے پیرے میں حامد میر نے اپنے ایک ذاتی تجربے کو بیان کرتے ہوئے لکھا کہ اپنی ریٹائرمنٹ سے کچھ عرصہ قبل جنرل باجوہ ایک تقریب میں پھٹ پڑے کہ پاکستانی میڈیا پاک بھارت تعلقات بحالی میں بریک تھرو ہونے کی راہ میں رکاوٹ ہے۔ بقول جنرل باجوہ جب بھی تعلقات خوشگوار ہونے لگتے ہیں میڈیا میں سے کچھ لوگ حکومت پر کشمیر دشمن کو بیچ دینے کا الزام لگا دیتے ہیں۔ حامد میر نے یہاں پر ایک اور اہم انکشاف کیا کہ جنرل باجوہ اسرائیل کو بھی انگیج کرنا چاہتے تھے، مگر عمران خان ہچکچاہٹ کا شکار رہے۔

حامد میر کا ایک اور دلچسپ انکشاف تحریک عدم اعتماد میں جنرل باجوہ کے کردار کے متعلق ہے۔ اس سے پہلے حامد میر نے لکھا کہ ڈی جی آئی ایس آئی کا تقرر وہ بڑا واقعہ تھا جس کے بعد دونوں شخصیات (عمران، جنرل باجوہ) میں بداعتمادی پیدا ہوئی اور یوں اس کے بعد فوج نے سیاست سے دور رہنے کا فیصلہ کیا۔ حامد میر لکھتے ہیں کہ تحریک عدم اعتماد کے موقعہ پر عمران خان نے جنرل باجوہ کو کہا کہ وہ ان کے سیاسی مخالفین سے ملیں اور انہیں تحریک واپس لینے کا کہیں۔ حامد میر نے (حددرجہ معصومیت سے ) یہ لکھا کہ جنرل باجوہ نے شہباز شریف اور آصف زرداری سے کئی ملاقاتیں کیں اور انہیں تحریک عدم اعتماد واپس لینے کی درخواست کی، مگر انہوں نے انکار کردیا۔

حامد میر نے اگلی سطر میں ایک اہم انکشاف کیا۔ میر صاحب کے مطابق آخرکار جنرل باجوہ نے شہباز شریف کا پنجاب میں منصوبہ سبوتاژ کرنے کا فیصلہ کیا اور ان کے اتحادی چودھری پرویز الٰہی کو عمران خان کے ساتھ ہاتھ ملانے کا کہا۔ یہی وجہ ہے کہ چودھری پرویز الٰہی عمران خان کی طرف سے جنرل باجوہ پر تنقید پرناخوش ہوئے تھے۔

(بھارتی جریدے میں چھپنے والے مضمون میں حامد میر نے بہت تفصیل سے لکھا، تاہم ان میں سے چند ایک نکات حامد میر نے جنگ میں اپنے کالم میں بھی بیان کئے ہیں۔ ان کی جنرل ریٹائر باجوہ کی جانب سے تردید نہیں کی گئی۔)

حامد میر صاحب کے اس طویل مضمون سے تین چار دلچسپ نتائج برآمد ہوتے ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ یا جنرل باجوہ بھارت کی جانب سے کشمیر کے لئے آرٹیکل 370خاتمے کے بعد بھی اچھے تعلقات قائم کرنا اور تجارت پھر سے شروع کرنا چاہتے تھے، وہ کشمیر کو بیس سال تک فریز کرنے کو تیار تھے ، مگر عمران خان نے ایسا نہ ہونے دیا۔

عمران خان نے شاہ محمود قریشی کے مشورے سے ایسا کیا، جنہیں خدشہ تھا کہ ایسا کرنے پر میڈیا میں سخت تنقید ہوگی۔ (وہ لوگ جو شاہ محمود قریشی کو اسٹیبلشمنٹ کا مہرہ سمجھتے ہیں، ان کواس بات پر غور کرنا چاہیے)۔

جنرل قمر جاوید باجوہ اسرائیل کو بھی انگیج کرنا چاہتے تھے ، مگر عمران خان ہچکچاہٹ کا شکار رہا۔ (جو حلقے عمران خان پر پرو اسرائیل ہونے کا الزام لگاتے ہیں اور یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ وہ اسرائیل کو تسلیم کرنا چاہتا ہے، ان کے لئے یہ انکشاف غیر متوقع ہوگا)۔

حامد میرکا دعویٰ ہے کہ وزیراعظم عمران خان کے کہنے پر جنرل باجوہ کئی بار شہباز شریف اور زرداری صاحب سے ملے اور انہیں تحریک عدم اعتماد واپس لینے کا کہا، مگر انہوں نے انکار کردیا۔ اس پر جنرل باجوہ نے غصے میں شہباز شریف کا پنجاب میں کھیل بگاڑا اور چودھری پرویز الٰہی کو عمران خان کی طرف بھیج دیا۔ (آپ چاہیں تو یہ سوال اٹھا سکتے ہیں کہ کیا شہباز شریف بھی آرمی چیف کو انکار کرنے کی سکت رکھتے ہیں؟)

ایک دلچسپ انکشاف یہ بھی نکلتا ہے کہ جب جیو بظاہر اسٹیبلشمنٹ کی نظر میں معتوب چینل تھا، تب اس کے دو ممتاز صحافی حامد میر اور سلیم صافی نہ صرف آرمی چیف سے ملاقاتیں کرتے تھے بلکہ ان کے ساتھ خصوصی ان سائیڈ گفتگو بھی ہوتی تھی۔

Related Posts