ترقی یافتہ دور کا آسیب

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

دنیا کے مختلف خطوں، ممالک اور علاقوں میں بسنے والے انسان ایک دوسرے سے رابطے کیلئے گفتگو، انٹرنیٹ اور ٹیلیفون سمیت دیگر ذرائع ابلاغ کا سہارا لیتے ہیں اور بات ایک انسان سے دوسرے تک باآسانی پہنچ جاتی ہے۔

ترقی یافتہ دور کا انسان بے شمار سہولیات سے فیضیاب ہوتا ہے تاہم دیگر مخلوقات یہ سہولیات استعمال نہیں کرتیں جن میں جانور اور پودے شامل ہیں اور مختلف کتب کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ انسانوں کی طرح جانور بھی ایک دوسرے سے بات چیت کرتے ہیں۔

ایک دنیا تو وہ ہے جس میں ہم انسان، جانور، پودوں اور خوردبینی جانداروں کے علاوہ کسی اور چیز کی بات نہیں کرتے جبکہ دوسری دنیا کو ماورائی دنیا کہا جاتا ہے جو گاہے بگاہے ہماری دنیا پر اثرات مرتب کرتی ہے۔ ایسے کوئی اثرات کسی عمارت یا انسان پر مرتب ہوں تو کہا جاتا ہے کہ اس پر آسیب کا سایہ ہوگیا ہے۔

آسیب کیا ہے؟ سادہ الفاظ میں جنات سمیت دیگر ایسی مخلوقات جنہیں ہم نہیں جانتے، اگر وہ انسان سے رابطے یا اس پر اپنی مرضی سے کوئی بات مسلط کرنے کی کوشش کریں تو اسے آسیب کہتے ہیں جسے ختم کرنے کیلئے جھاڑ پھونک سمیت دیگر ذرائع استعمال کیے جاتے ہیں۔

بے شمار لوگ آسیب کی موجودگی کو تسلیم نہیں کرتے تاہم ایسے لوگوں کی تعداد بھی بے شمار ہے جو نہ صرف آسیب کو تسلیم کرتے ہیں بلکہ جنات کو قبضے میں کرکے ان سے فائدہ اٹھانے کے دعوے بھی کرتے ہیں تاہم یہ سب ہمارا موضوع نہیں ہے۔

لفظ آسیب کا اطلاق معنوی کی بجائے اصطلاحی بنیاد پر کیا جائے تو ہم آسیب سے مراد ایک ایسی چیز بھی لے سکتے ہیں جو ہم نے خود گھڑ لی ہے۔ خالقِ کائنات نے ایسی کسی چیز کو کبھی پیدا ہی نہیں کیا تھا بلکہ یہ انسان کی اپنی اختراع اور من گھڑت چیز ہے۔

یہاں ہم خدانخواستہ جنات یا اللہ کی پیدا کی ہوئی غیبی مخلوقات کو من گھڑت نہیں کہہ رہے بلکہ مراد صرف اتنا ہے کہ ہم نے بے شمار سہولیات کو زندگی کی ضرورت بنا لیا ہے جو کسی آسیب کی طرح ہم پر اپنا سایہ کچھ اس طرح قائم کیے ہوئے ہیں کہ ہم ان سے نجات کا سوچ بھی نہیں سکتے۔

مثال کے طور پر اللہ تعالیٰ نے انسان کو آزاد پیدا فرمایا۔ انسان نے چار دیواری کھڑی کی اور اس پر چھت ڈال کر خود کو اس میں قید کر لیا اور کہا کہ یہ میرا گھر ہے۔ میں اس میں دشمنوں، سخت موسم اور نادیدہ مشکلات سے محفوظ رہ سکتا ہوں اور رفتہ رفتہ یہ گھر ہماری ضرورت بن گیا۔

ماضی میں انسان کو سردی لگتی تھی تو چقماق نامی پتھر رگڑ کر آگ جلا لیتا تھا، آج کل ہیٹر چلایا جاتا ہے۔ گرمی لگتی تھی تو قدرتی جھیلوں اور دریاؤں میں بہنے والے پانی سے نہا لیا جاتا تھا، آج کل اے سی آن کر لیا جاتا ہے۔

ایسی ہی بے شمار سہولیات ہماری ضرورت بن چکی ہیں جو پتھر کے دور سے لے کر سیکڑوں بلکہ ہزاروں برسوں تک انسان کے پاس نہیں تھیں اور انسان پھر بھی آسانی سے جی رہا تھا تاہم وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ آسیب ہمیں اپنی لپیٹ میں لیتا گیا اور ہم اس کے عادی ہوگئے۔

عادت اگر اچھی ہو تو نعمت ہے، بری ہو تو زحمت ہے اور اگر فضول ہو تو مصیبت ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ موجودہ دور کا انسان ترقی یافتہ دور کے تمام تر آسیبوں کو اپنانے کے ساتھ ساتھ انہیں اپنی ضرورت قرار نہ دے بلکہ وقت پڑنے پر ان سہولیات کے بغیر بھی گزارا کرنا سیکھے تاکہ کسی مشکل وقت میں بغیر کسی سہارے کے بھی اپنی گزر بسر کرسکے۔

Related Posts