امیر و غریب اورانصاف

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

کسی بھی معاشرے کی سب سے بہتر سہولت مختلف النوع ناانصافیوں سے تحفظ قرار دیا جاسکتا ہے۔ یہ پاکستان میں ایک تلخ حقیقت بن چکی ہے۔ سہولت ایک فطری چیز ہے جو مختلف اقسام میں دستیاب ہوتی ہے جن میں ذات پات، قبیلے، جنس، دولت اور قومیت شامل ہیں اور کبھی کبھی آپ یہ سہولت حاصل کرنے کیلئے کچھ بھی نہیں کرسکتے۔

جب آپ پر لطف زندگی گزار رہے ہوتے ہیں، ہمیں آپ کو دی گئی سہولیات کو پہچاننا ہوگا اور پھر انہیں استعمال کرکے ان کی مدد کرنا ہوگی جو ایسی سہولیات سے محروم ہوں کیونکہ یہی ہمارے پیارے نبی حضرت محمد ﷺ کی سنت ہے۔

ہم سب کو حضرت فاطمہ بنت الاسود ال مخزومیہ کے متعلق وہ حدیث معلوم ہے جس میں وہ چوری کرتی پکڑی گئیں اور پھر انہیں آنحضرت ﷺ کے پاس لایا گیا۔ اسامہ بن زید نے سفارش کی کہ ان کی سزا میں تخفیف کی جائے کیونکہ وہ ایک دولت مند اور متمول قبیلے سے تعلق رکھتی تھیں۔

نبئ مکرم ﷺ نے اسامہ کی یہ درخواست رد کرتے ہوئے فرمایا کہ تم سے پہلی قوموں کو اس لیے تباہ کردیا گیا کیونکہ جب امیر کوئی چوری کرتے پکڑا جاتا، اسے چھوڑ دیا کرتے تھے لیکن جب یہی جرم کوئی غریب کرتا تو اس کے ہاتھ کاٹ دیتے تھے، خدا کی قسم جس کے قبضے میں میری جان ہے، اگر یہی جرم میری بیٹی فاطمہ بنتِ محمد ﷺ بھی کرتیں تو میں ان کا ہاتھ کاٹ دیتا۔

مکۃ المکرمہ میں بہت سے لوگ یہ رائے رکھتے تھے کہ رسولِ اکرم ﷺ (انصاف کے معاملے میں بھی) لچک دکھائیں گے کیونکہ آپ کی مجموعی فطرت مہربان اور رحیم و کریم تھی۔ انہوں نے فرض کر لیا کہ حضرت محمد خاتم النبیین ﷺ اس متمول قبیلے کی خاتون کو بخش دیں گے جس سے جانبداری کو فروغ ملے گا تاہم یہ جانبداری حضور ﷺ کی انصاف پسند فطرت کے خلاف تھی۔

قرآنِ پاک میں اللہ تبادک و تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے کہ جب وہ ظلم کرنے لگے تو ہم نے انہیں سزا دی۔

قوموں کو اس لیے تباہ کیا گیا کیونکہ ان کے طاقتور اور بااختیار لوگ معاشرے کے کمزور طبقات پر ظلم کرتے تھے اور معاشرے کے اشرافیہ اور متمول طبقات کو کھلی چھوٹ دے دی جاتی تھی جو جرائم کا ارتکاب کرنے کے باوجود سزا سے بچ جایا کرتے تھے۔

یہاں لچک نہ دکھا اور یہ فرما کر نبی آخر الزمان ﷺ نے ایک مثال قائم کی کہ اگرمیری بیٹی فاطمۃ الزہراء بھی یہی جرم کرتی تو میں اسے بھی یہی سزا دیتا جو تمہاری فاطمہ کو دی جارہی ہے۔ یوں نبی مکرم ﷺ نے واضح فرمایا کہ سہولیات کا انصاف کے معاملات سے کوئی تعلق نہیں۔ یہ کوئی سہولت نہیں ہے کہ جرائم کے ارتکاب کے باوجود آپ سزا سے بچ جائیں۔

آپ ﷺ نے یہ تعلیم فرمائی کہ انصاف کے فیصلے ذاتیات، پسند نا پسند اور طبقات کی تفریق سے بالاتر ہوا کرتے ہیں۔ فاطمہ نامی مذکورہ خاتون بنو مخزوم سے تعلق رکھتی تھیں اور آپ ﷺ کی تعلیمات سے یہ بات بھی واضح ہوئی کہ انہیں سزا اِس لیے نہیں دی گئی کہ نبی ﷺ کے قبیلے کو انصاف کے معاملے میں بنو مخزوم پر کوئی برتری حاصل تھی بلکہ  اسلام کے نزدیک انصاف سب کیلئے مساوی حیثیت رکھتا ہے۔ یہاں یہ بات بھی قابلِ ذکر ہے کہ فاطمہ بنت الاسود المخزومیہ نے جو چوریاں کیں، خود نبی ﷺ کی بابرکت ذات بھی اس کا نشانہ بنی لیکن انصاف کے معاملے میں آپ ﷺ نے اِس بات کو بیان نہیں فرمایا۔

بنی اسرائیل کی مثال دیتے ہوئے اسلام نے فرمایا کہ وہ امیر اور غریب مجرموں کے درمیان فرق کرتے ہوئے کمزوروں کو سخت سے سخت سزا دیتے تھے اور متمول طبقات کی جاں بخشی کردیا کرتے تھے۔ یہ وہ اہم شکایت تھی جو حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے کی۔

اگر ہم مسیحیوں کی الہامی کتاب انجیلِ مقدس کا جائزہ لیں تو میتھیو 23:23 میں اللہ نے فرمایا کہ تم پر تف ہو کہ تم اقربا پروری سے کام لیتے ہو، تم اپنے مذہب پر تو بہت اچھے طریقے سے عمل کرتے ہو لیکن تم نے قانون، انصاف، رحم اور ایمان کے معاملات میں متمول طبقات اور کمزور طبقات کی تفریق قائم کر رکھی ہے۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے قانون کی حکمرانی قائم کرنے اور اس کا غلط استعمال روکنے کیلئے زمین پر اتارا تھا۔

حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے عہد میں مسلمانوں کو قحط سے گزرنا پڑا جس سے چوریاں بڑھ گئیں جس کی وجہ لالچ نہیں تھی بلکہ لوگ بھوکے اور تباہ حال تھے جس پر امیر المومنین حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے چوری کی سزا معطل کردی کیونکہ انہوں نے صورتحال کا تجزیہ کر لیا تھا کہ اب حالات بدل چکے ہیں۔ خود حضرت عمر کو امیر المومنین کی حیثیت سے متمول طبقے کا سربراہ مانا جاسکتا ہے، تاہم انہوں نے یہ فیصلہ صرف غریبوں کو شدید ترین سزا سے بچانے کیلئے کیا۔

 بہت سے علماء حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی مثال سے یہ بات سمجھ گئے جب انہوں نے اسلامی شریعت کے احکام اور قانون (مقاصدِ شریعت) کو تحریر کرنا شروع کیا کہ جب آپ عوام الناس کو بنیادی حقوق کے ساتھ ساتھ خوشی، بقاء اور کامیابی جیسے حقوق نہ دے پا رہے ہوں تو آپ کو انہیں جرائم پر سزا دینے کا بھی کوئی حق نہیں کیونکہ محروم لوگ اپنی کامیابی اور خوشی کے حصول کیلئے ناقابلِ قبول ذرائع اختیار کرسکتے ہیں۔ برائی کا راستہ روکنے سے زیادہ یہ بات اہم ہے کہ اچھائی اور نیکی کیلئے راہ کیسے ہموار کی جائے۔

حضرت عبدالرحمٰن جو حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے صاحبزادے تھے، ایک بار مصر میں گورنر امر بن العاص کے دور میں شراب پیتے ہوئے پکڑے گئے جو انہیں عوام کے سامنے شرمناک سزا سے بچانا چاہتے تھے، وہ نہیں چاہتے تھے کہ امیر المومنین کے بیٹے کو سزا دے کر انہیں دُکھی کردیں۔ اس لیے گورنر نے ملزم حضرت عبدالرحمٰن کو ان کے گھر میں علامتی سزا دے دی۔

جب یہ خبر حضرت عمر رضی اللہ عنہ تک پہنچی تو آپ نے اپنے بیٹے کو مدینہ بلوا لیا تاکہ انہیں عوام کے سامنے سزا دی جائے۔ گورنر مصر کا خیال تھا کہ انہوں نے حضرت عمر کے حق میں فیصلہ دیا لیکن خلیفۂ وقت نے یہ فیصلہ کیا کہ ان کے بیٹے کے خلاف بھی انصاف کے تقاضے ہر لحاظ سے پورے ہونے چاہئیں۔

بطور خلیفہ اپنے پہلے خطبے میں حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے ارشاد فرمایا کہ میری نظروں میں معاشرے کا کمزور طبقہ طاقتور ہی شمار ہوگا جب تک اسے اس کے حقوق واپس نہ دے دئیے جائیں اور میری رائے میں طاقتور کمزور ہوں گے جب تک میں ان سے کمزوروں کے حقوق واپس نہ لے لوں، ان شاء اللہ۔

اپنے ابتدائی خطبے میں یہ فرما کر حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے واضح کیا کہ متمول طبقے کے ساتھ ریاست کوئی ترجیحی یا امتیازی سلوک کرنے کا ارادہ نہیں رکھتی۔ تاہم، آج کل زیادہ تر مسلم ممالک میں متمول طبقات کو اس طرح سزا نہیں دی جاتی جیسا کہ کمزوروں کو دی جاتی ہے۔ یہی وج ہے کہ ڈاکٹر طارق رمضان نے حدود کی سزاؤں کو معطل کرنے کی درخواست کی کیونکہ وہ سزائیں معاشرے کے بد قسمت اور غریب طبقات کو بے دردی سے دی جارہی تھیں۔ قانون کا مقصد مساوات کو فروغ دینا ہوتا ہے ، اس لیے اگر قانون پر عمل سے عدم مساوات پیدا ہو تو یہ یقین رکھنا چاہئے کہ قانون اپنا کام ٹھیک طریقےسے نہیں کررہا۔

ایک حدیث میں نبئ آخر الزمان ﷺ نے ارشاد فرمایا جس شخص نے کسی غلط بات میں اپنی قوم کی حمایت کی، اس کی مثال ایسی ہے جیسے کوئی اونٹ کنویں میں گر رہا ہو اور وہ اس کی دم پکڑ کر لٹک جائے (اور خود بھی اونٹ کے ساتھ کنویں میں جا گرے)۔ اِس حدیث سے ہمیں دو سبق ملتے ہیں کہ جو لوگ متمول طبقات کو غلط کاموں اور جرائم میں مدد کرتے ہیں ان کی مثال کنویں میں گرتے ہوئے اونٹ کو پکڑنے والوں کی سی ہے جنہیں اللہ کے ہاں جوابدہ ہونا ہوگا۔ دوسرا سبق یہ ہے کہ متمول طبقات کی حمایت کرکے لوگ ناانصافی کو فروغ دیتے ہیں جس سے پورا معاشرہ متاثر ہوتا ہے۔ اس کی سزا معاشرے کے ہر شخص کو ملتی ہے۔

پاکستان میں گزشتہ 70 برس سے زائد عرصے کے دوران ناانصافی کا دورہ رہا اور معاشرے کے متمول طبقات کو انصاف کے عمل میں محروموں پر ہر لحاظ سے فوقیت دی گئی۔

جب ملک میں قانون کی حکمرانی کی بات کی جاتی ہے تو متمول طبقات کیلئے ایک جبکہ عوام الناس کیلئے دوسرا قانون ہوتا ہے۔ ریاستی اداروں کو ملک میں ایسی اصلاحات لانا ہوں گی جن سے وطنِ عزیز میں قانون کی حکمرانی رائج ہو۔ اگر ہم نے متمول طبقات کو انصاف کے معاملات میں رعایت دینے کی روش ترک نہ کی تو پاکستان ایک معاشی طاقت یا ریاستِ مدینہ کبھی نہیں بن سکتا۔

سب سے آخر میں شیخ عمر سلیمان کا شکریہ ادا کرتا ہوں جن کی معاشرتی انصاف پر 40 احادیث اور لیکچر سیریز سے مجھے یہ کالم لکھنے کیلئے رہنمائی ملی۔ دُعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کی کاوشوں اور اسلام کیلئے خدمات پر انہیں اجرِ عظیم عطا فرمائے۔ یہاں جو کچھ بھی میں نے اچھا لکھا، اللہ تعالیٰ کی عطا سےجبکہ غلطیاں میری اپنی انسانی کوتاہیوں  کے باعث ہوئیں۔

Related Posts