الیکشن 2023: کیا ہونے جا رہا ہے، کیا اشارے مل رہے ؟

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

پاکستان کی قومی سیاست کے حوالے سے بہت ہلچل مچی ہے، کچھ اندرون ملک اور خاصا کچھ بیرون ملک بھی ہو رہا ہے۔ پچھلے دو ڈھائی ماہ میں کئی ڈرامائی تبدیلیاں آئی ہیں، جن سے پورا لینڈ سکیپ ہی تبدیل ہوگیا۔ سکرپٹ بھی شائد بدلنا پڑا ہوگا۔

اہم بات یہ ہے کہ اس وقت مستقبل کے نقشے کے خدوخال بڑی حد تک واضح ہوگئے، بس اس میں رنگ بھرنے باقی ہیں، صرف ایک آدھ چیز ہی اس وقت دھندلی ہے، مگر وہ بھی چند دنوں تک صاف ہوجائے گی۔
سب سے پہلے پی ڈی ایم حکومت کو لیتے ہیں.۔الیکشن ، نگران سیٹ اپ،سیٹ ایڈجسٹمنٹ اورانتخابات کے بعد کی سیچوئشن ۔ باری باری سب چیزیں لیتے ہیں۔

پی ڈی ایم حکومت کا مستقبل
بظاہر یہ لگ رہا ہے کہ موجودہ حکومت اگلے چار ہفتوں میں ختم ہوجائے گی، دس یا گیارہ اگست کو اسمبلی توڑ دی جائے گی تاکہ الیکشن کرانے کے لئے نوے دن کی مہلت مل سکے۔ اگر بارہ اگست تک حکومت چلی تو اسمبلی اپنی پوری مدت مکمل کر کے تحلیل ہوگی، ایسی صورت میں ساٹھ دن کے اندر الیکشن لازمی ہے۔

یاد رہے کہ نوے دن کی شرط بھی زیادہ سے زیادہ ہے یعنی الیکشن ستر، اسی ، پچاس دنوں میں بھی ہوسکتا ہے۔ تاہم توقع یہی ہے کہ نومبر کے پہلے عشرے کی کوئی ڈیٹ الیکشن کے لئے رکھی جائے گی، عام طور سے کسی اتوار کا انتخاب کیا جاتا ہے۔ پانچ نومبر کو اتوار ہے اور پھر بارہ نومبر کو۔ بارہ تک شائد نہ جایا جا سکے تو کوئی سا دن چنا جا سکتا ہے، ویک اینڈ بھی ۔

نگران وزیراعظم
نگران سیٹ اپ کے لئے مختلف نام گردش کرتے رہے، ان میں سے بعض ناموں پر کراس بھی لگ چکا ہے۔ پہلے نیوز ایجنسی آن لائن کے سربراہ محسن بیگ کا نام لیا گیا۔شدید اینٹی عمران ہونا ان کی خوبی سمجھی جا رہی ہے، پی ڈی ایم قائدین اور اسٹیبلشمنٹ سے اچھا تعلق بھی ان کی امتیازی خصوصیت ہے۔ تاہم اب کہا جارہا ہے کہ ان کے امکانات کم ہوگئے۔

دو تین صحافیوں جیسے نجم سیٹھی، محمد مالک وغیرہ کے نام بھی چلتے رہے، پچھلے دنوں ایک افواہ نجم سیٹھی کی بیگم جگنو محسن کی بھی اڑائی گئی، یہ رکن پنجاب اسمبلی تھیں، انہیں مریم نواز شریف کا اتالیق بھی سمجھا جاتا ہے، ایک زمانے میں مریم کو سیاسی داﺅپیچ سکھایا کرتی تھیں۔ لاہور کے ایک معروف بزنس مین گوہر اعجاز کا نام بھی لیا جاتا ہے۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ نگران وزیراعلیٰ محسن نقوی کی کارکردگی سے خوش ہو کر انہیں نگران وزیراعظم بنایا جائے اور پنجاب میں موجودہ نگران کابینہ میں سے کسی کو وزیراعلیٰ بنا دیا جائے۔

مختلف آپشنز چل رہی ہیں، مگر ابھی حتمی فیصلہ نہیں ہوا۔ اسٹیبلشمنٹ کی حمایت حاصل ہونا ایک لازمی امر ہے، تاہم زرداری نواز شریف ملاقات میں یہ بھی زیربحث آیا کہ ایسا نگران وزیراعظم ہو جو پنڈی کے بجائے پی ڈی ایم جماعتوں سے زیادہ مخلص ہوتاکہ نگران سیٹ اپ طویل کرنے کی سازشی تھیوری میں جان نہ ڈالی جا سکے ۔

نواز شریف کی واپسی
یہ طے ہوچکا ہے کہ نواز شریف صاحب ہر حال میں واپس آ ئیں گے۔ وہ صرف یہ انتظار کر رہے ہیں کہ موجودہ چیف جسٹس عطا بندیال کا دور ختم ہوجائے۔ بندیال صاحب سولہ ستمبر کو ریٹائر ہو رہے ہیں۔ میاں نواز شریف کو مشورہ دیا جا رہا ہے کہ وہ سولہ کے بعد آئیں۔ تاہم میاں صاحب کو ایک حلقہ کہہ رہا ہے کہ چودہ اگست کے بعد وطن واپس آئیں اور چند دنوں کے لئے جیل بھی چلے جائیں تاکہ ہیرو کا درجہ مل سکے۔

میاں نوازشریف نے دو دن پہلے بیان دیا کہ میں اپنی جان اور صحت کی پروا کئے بغیر وطن واپس آﺅں گا خواہ مجھے جیل جانا پڑے۔تین برسوں سے لندن میں مزے لوٹنے والے نواز شریف کا یہ مضحکہ خیز بیان یہی اشارہ کر رہا ہے کہ چند دن جیل کا ڈرامہ کرنے کے لئے وہ تیار ہیں۔ یہ بھی ممکن ہے کہ جاتی عمرہ ہی کو ان کی سب جیل قرار دیا جائے۔ بہرحال پنجاب اور وفاقی حکومت ان کی ہے تو جیل بھی ان کے لئے کسی نخلستان اور ارضی جنت سے کم نہیں بنائی جائے گی۔

سیٹ ایڈجسٹمنٹ
یہ طے ہوچکا ہے کہ پی ڈی ایم بطور انتخابی اتحاد الیکشن نہیں لڑے گا۔ اپنا اپنا الیکشن لڑا جائے گا، تاہم مختلف جماعتیں اگر چاہیں تو اپنی مرضی سے باہم سیٹ ایڈجسٹمنٹ کر سکتی ہیں۔ ن لیگ البتہ پنجاب میں پیپلزپارٹی کو سیٹ ایڈجسٹمنٹ کے نام پر نشستیں دینے کو تیار نہیں۔ نواز شریف نے فیصلہ کیا ہے کہ صرف یوسف رضا گیلانی کی نشست پر سیٹ ایڈجسٹمنٹ کی جائے گی، ممکن ہے ایک آدھ کہیں اور ۔

زرداری صاحب کی جانب سے جھنگ میں فیصل صالح حیات، کھاریاں میں قمر زماں کائرہ، سرگودھا میں ندیم افضل چن اور پنڈی میں راجہ پرویز اشرف کی سیٹوں پر بھی ایڈجسٹمنٹ کا کہا گیا ہے۔ ن لیگ ایسا کرنے کے موڈ میں نظر نہیں آتی۔ ان کے خیال میں ان سیٹوں پر وننگ امیدوار ن لیگ کے پاس پہلے سے موجود ہیں۔ دیکھیں آخری وقت میں کیا فیصلہ ہوپائے ؟

اہم بات یہ ہے کہ پی ٹی آئی کے میدان ہونے یا نہ ہونے پر بہت کچھ منحصر ہے۔ اگر تحریک انصاف کو کسی طریقے سے بین کر دیا جائے تو پھر پی ڈی ایم جماعتیں آپس میں برسرپیکار ہوں گی۔ عمران خان اور تحریک انصاف میدان میں ہوئے تو پھر سیٹ ایڈجسٹمنٹ بھی کر لی جائے گی۔

پوسٹ الیکشن سیناریو
الیکشن کے بعد وزیراعظم کے حوالے سے تو حتمی فیصلہ ہوچکا ہے۔ میاں نواز شریف اس کے لئے تیار ہیں۔ وہ چوتھی بار وزیراعظم بننا چاہتے ہیں تاکہ اپنے نکالے جانے کے فیصلے کو عملاً غلط ثابت کر سکیں۔

نواز شریف کو اس بارملکی اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ دوست ممالک کی سپورٹ بھی حاصل ہے۔ کہا جا رہا ہے کہ چین، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات پوری طرح سے نواز شریف کو بیک کریں گے۔ ریجنل شفٹ،اہم شعبوں میں غیر ملکی سرمایہ کاری اور اکانومی کو بہتر بنانے کے لئے پلان بنا لیا گیا ہے۔

اسٹیلشمنٹ اور ن لیگ، پی پی اس حوالے سے ایک ہی پیج پر ہیں۔ ان تینوں کا خیال ہے کہ آگے بڑھنے کے لئے سب سے زیادہ ضروری ہے کہ عمران خان اور تحریک انصاف کو سیاسی میدان سے باہر نکالا جائے اور اگلے دو تین برسوں تک خان کو جیل میں رکھا جائے تاکہ سکون سے وہ حکومت کر سکیں۔

مستقبل کی صوبائی حکومتیں
سندھ میں تو سو فی صد امکان ہے کہ پی پی کی حکومت ہو، موجودہ وزیراعلیٰ مراد علی شاہ کو پھر ذمہ داری سونپی جائے گی یا بلاول بھٹو اپنی مرضی سے کوئی فیصلہ کر پائیں گے، یہ ابھی یقینی نہیں ہے۔ بہرحال پی پی قیادت جسے چاہے گی ، وہ وزیراعلیٰ بن جائے گا۔

پنجاب میں مریم نواز شریف وزارت اعلیٰ کا منصب سنبھالنے کے لئے پوری طرح تیار ہیں۔ وہ چاہتی ہیں کہ پنجاب میں حکومت چلا کر کچھ تجربہ حاصل کریں اور پنجاب کو اپنی گرفت میں رکھیں تاکہ اگلے الیکشن میں وہ ن لیگ کی جانب سے وزیراعظم بن سکیں۔

ویسے تو حمزہ شہباز شریف بھی امیدوار ہیں، مگر وہ لگتا ہے نواز شریف کی گڈ بکس میں اب نہیں رہے۔ البتہ یہ ممکن ہے کہ شہباز شریف کو وزارت عظمیٰ سے ہٹانے کے بعد ان کی تالیف قلب کے لئے پنجاب میں ان کے مشورے پر عمل کر لیا جائے۔
بلوچستان کے حوالے سے بتایا جا رہا ہے کہ نواز شریف ڈاکٹر مالک بلوچ کو نیا وزیراعلیٰ بنانا چاہتے ہیں۔ میاں نواز شریف کے پچھلے دور میں ڈھائی برس تک ڈاکٹر مالک کو وزیراعلیٰ بنایا گیا، مگر بعد میں ثنااللہ زہری کے لئے انہیں تبدیل کر دیا گیا۔ اب نواز شریف چاہتے ہیں کہ کوئی معتدل قوم پرست لیڈر وزیراعلیٰ بنے جو مخلوط حکومت بنا کر دیگر بڑی جماعتوں کو بھی ساتھ رکھے۔

کے پی میں بھی ن لیگ ہاتھ پاﺅں مارنے کی کوشش کر رہی ہے، ان کا خیال ہے کہ اس بار تحریک انصاف کے نہ ہونے کی صورت میں جو خلا ہوگا، اس میں ن لیگ بھی کچھ شیئر لے سکتی ہے۔ اس لئے مسلم لیگ کے روایتی سٹرانگ ہولڈ ہزارہ ڈویژن سے باہر نکل کے سوات، شانگلہ کے ساتھ کرک، بنوں، صوابی ، پشاور وغیرہ میں بھی امیدوار کھڑے کرنے کا ارادہ ہے، قبائلی علاقوں سے بعض اہم شخصیات کو ملایا گیا ہے۔ ن لیگ کی خواہش ہے کہ اگلے سیٹ اپ میں وہ کے پی صوبائی حکومت میں بھی اپنا معقول شئیر لے سکے ۔ ن لیگ ضرورت پڑنے پر بعض سیٹوں پر اے این پی اور جے یوآئی سے بھی الائنس کرے گی۔

ن لیگ کے لئے البتہ کے پی میں صوبائی صدر امیر مقام بھی ایک مسئلہ ہیں۔ وہ ون مین شو کے قائل ہیں اور انہوں نے سینئر مسلم لیگی لیڈروں مہتاب عباسی، ظفر اقبال جھگڑا، صابر شاہ وغیرہ کو بھی کارنر کر کے ناراض کر رکھا ہے۔ نواز شریف وطن واپسی کی صورت میں یہ اختلافات سلجھانے کی کوشش کریں گے۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ کے پی میں نواز شریف سے زیادہ ان کی دختر مریم نواز شریف کی مقبولیت اورووٹ بینک ہے۔ پختون ووٹر نواز شریف کو ملک چھوڑ کر باہر بھاگ جانے والا اور مریم نواز شریف کو ڈٹ جانے والی بہادر خاتون سمجھتا ہے۔ یہ بات نواز شریف کے علم میں بھی ہوگی، کیونکہ انہوں نے صوبے میں بہت تفصیلی ووٹر سروے کرائے ہیں۔

(یہ سب منظرنامہ پی ڈی ایم /اسٹیبلشمنٹ کے نقطہ نگاہ سے ہے۔ ہم نے تحریک انصاف ، اس کے پوٹینشل اور اسے درپیش خطرات اورمستقبل کے ممکنہ منظرنامے پر بات نہیں کی۔ البتہ اگلا بلاگ ان شااللہ اسی پر ہوگا۔ )

Related Posts