ہمارا نظامِ تعلیم اور حکومت کا اپریل 2021ء تک یکساں نصاب رائج کرنے کا فیصلہ

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

ہمارا نظامِ تعلیم اور حکومت کا اپریل 2021ء تک یکساں نصاب رائج کرنے کا فیصلہ
ہمارا نظامِ تعلیم اور حکومت کا اپریل 2021ء تک یکساں نصاب رائج کرنے کا فیصلہ

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

پاکستان میں نظامِ تعلیم کے نام پر عوام کو ابتدا سے ہی دھوکے میں رکھا گیا۔ پاکستانی تاریخ گواہ ہے کہ ملک میں حقِ حکمرانی پر قابض سیاست دانوں نے ملک بھر میں یکساں نظامِ تعلیم کبھی رائج نہیں ہونے دیا۔

وزیرِ اعظم عمران خان کی قیادت میں تحریکِ انصاف کے وفاقی وزیر شفقت محمود اِس وقت ملک بھر میں یکساں نصاب رائج کرنے پر کام کر رہے ہیں۔ گزشتہ روز انہوں نے اِس حوالے سے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر ایک پیغام بھی دیا۔

پیغام کے مطابق حکومت اپریل 2021ء تک یعنی آج سے ایک سال بعد ملک بھر کے تمام اسکولز اور تعلیمی اداروں میں یکساں نصاب رائج کرنا چاہتی ہے۔ آج ہم اسی فیصلے کے مختلف پہلوؤں کو موضوعِ گفتگو بنانا چاہتے ہیں۔

یکساں نصابِ تعلیم کیوں؟

ہمارا سب سے اہم اور بنیادی سوال یہ ہے کہ یکساں نصابِ تعلیم رائج کرنے کی ضرورت کیوں پیش آئی؟ دراصل ملک میں بیک وقت کئی نظام ہائے تعلیم رائج ہیں جن میں سرکاری، نجی، تکنیکی اور مدارس کا نظامِ تعلیم شامل ہے۔

الگ الگ نظاموں کے نصاب بھی الگ الگ ہیں۔جب لوگ مختلف نظامِ تعلیم سے پڑھ لکھ کر معاشرے میں کردار ادا کرنے نکلتے ہیں تو سب کے افعال کے نتائج مختلف نکلتے ہیں جس سے معاشرہ تقسیم در تقسیم ہوتا چلا جاتا ہے۔ 

مثال کے طور پر میں نے ایک سرکاری اسکول سے تعلیم حاصل کی اور مجھے جس زبان میں علم دیا گیا وہ اُردو تھی۔ ایک نجی اسکول میں بنیادی زبان انگریزی ہوتی ہے۔ میں گریجویشن کرنے کے باوجود انگریزی ٹھیک طرح بول نہیں سکوں گا جبکہ نجی اسکول سے تعلیم حاصل کرنے والے ایک میٹرک کے طالب علم کی انگریزی مجھ سے بہتر ہوگی۔

یہ ایک معمولی سا فرق ہے لیکن جب ہم ایک الگ نصاب اور ایک الگ نظامِ تعلیم کی بات کرتے ہیں تو فرق آہستہ آہستہ بڑے ہونے لگتے ہیں۔ سرکاری اسکول کے طلباء زیادہ تر متوسط سرکاری عہدوں پر براجمان نظرآتے ہیں جبکہ اعلیٰ سرکاری عہدوں اور حقِ حکمرانی پر مغرب سے تعلیم یافتہ متمول طبقہ حکمران ہوتا ہے۔

کامیاب زندگی کا براہِ راست تعلق ہمارے مالی معاملات سے ہوتا ہے۔ کاروباری ادارے آج جن معیارات کے مطابق تعلیمی اسناد طلب کرتے ہیں، زیادہ تر سرکاری ادارے ان پر پورے نہیں اترتے۔ دوسری جانب نجی تعلیمی اداروں سے پڑھ کر نکلنے والے طلباء کو اردو زبان و ادب اور قومی ثقافت سے وہ شناسائی نہیں ہوتی جو ایک عام پاکستانی شہری کو ہونی چاہئے۔

اِس کا سادہ سا حل یکساں نظام اور ایک جیسا نصاب ہے جو پورے ملک میں پڑھانا ضروری ہے۔ حکومت نے تمام نصاب سامنے رکھتے ہوئے ان کی اچھی باتیں قبول کرکے ایک نئے نصاب کی تیاری شروع کردی ہے۔ 

نصاب اور نظام میں فرق

نصاب سے مراد کتابوں کا وہ سیٹ ہے جو بچے مدرسے یا اسکول میں پڑھتے ہیں جس کا امتحان دیا جاتا ہے۔ اس کا نتیجہ سامنے آنے پر آپ کو مخصوص سند عطا کی جاتی ہے جبکہ نظام اس سے بہت بڑی چیز ہے۔

نظام سے ہماری مراد نجی و سرکاری، مدارس اور تکنیکی نظامِ تعلیم ہے جس میں ادارے کی عمارت اور کھیل کے میدان سے لے کر اساتذہ اور خود نصاب تک ہر چیز شامل ہے۔ 

ابھی تک حکومتِ پاکستان نے یکساں نصاب کی بات تو کی، لیکن یکساں نظام کی کوئی بات یا وعدہ نہیں کیا گیا۔ بے شک اس میں بے شمار تکنیکی مسائل ہوسکتے ہیں، تاہم یکساں نصاب ہونے کے باوجود اسے الگ الگ نظامِ تعلیم کے ذریعے پڑھائے جانے پر طلباء کے درمیان تضادات کی سطح کم تو ضرور ہوگی، تاہم اسے ختم نہیں کیا جاسکے گا۔ 

اسکول میں داخلہ نہ لینے والے اور نصاب 

اقوامِ متحدہ کے ادارے یونیسیف کے مطابق پاکستان میں 5 سال سے 16 سال کی عمر تک کے 2 کروڑ 28 لاکھ بچے آج بھی اسکول نہیں جاتے۔ 

اسکول نہ جانے والے بچوں کے حساب سے پاکستان کے اعدادوشمار بد ترین ممالک میں سے دوسرے نمبر پر ہیں۔ یونیسیف کے مطابق ملک کی 44 فیصد آبادی یہی 5 سال سے 16 سال کی عمر کے بچے ہیں۔

سندھ میں 52 فیصد بچے جن میں سے 58 فیصد لڑکیاں ہیں، اسکول نہیں جاتے جبکہ بلوچستان میں 78 فیصد لڑکیاں اسکول سے باہر ہیں۔ پرائمری کی سطح پر 1 کروڑ 7 لاکھ لڑکے اور 86 لاکھ لڑکیوں کو داخل کرایا جاتا ہے جو مڈل تک پہنچتے پہنچتے 36 لاکھ لڑکے اور 28 لاکھ لڑکیاں رہ جاتی ہیں۔

آپ یکساں نصاب لائیں یا نظام، ایسے بچوں کواِس بات سے  کوئی فرق نہیں پڑتا۔اس لیے یونیسف نے حکومتِ پاکستان پر زور دیا ہے کہ اسکول چھوڑ دینے والے بچوں پر توجہ دیں اور ان کے والدین کی مالی مدد کی جائے تاکہ وہ انہیں کسی کام پر لگا کر تعلیم سے دور نہ کریں۔ 

نصاب میں تبدیلی کی ضرورت 

موجودہ دور میں ترقی کی رفتار انسانی سوچ سے بہت تیز ہوگئی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم نے وقت کے ساتھ ساتھ اپنا کام مشینوں کو سونپنا شروع کردیا ہے جو کام کی رفتار میں ہمارے مقابلے میں تیز ہیں۔

یہاں ہم یہ ہرگز نہیں کہنا چاہتے کہ انسانیت مشینوں کی محتاج ہوچکی ہے جو کسی حد تک درست بھی ہے، لیکن کہنا صرف اتنا مقصود ہے کہ نصاب وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اَپ ڈیٹ نہیں کیاجاتا جس سے ہم ترقی کی دوڑ میں دوسروں سے پیچھے رہ جاتے ہیں۔

مثال کے طور پر دُنیا فلاپی سے یو ایس بی ڈسک اور ایکسٹرنل ہارڈ ڈسک تک جا پہنچی۔ فلاپی میں 1.44 ایم بی ڈیٹا رکھنے کی گنجائش ہوا کرتی تھی، پھر یوایس بی آئی جو 8 جی بی تک گنجائش کی حامل تھی۔

آج یو ایس بی 128 جی بی اور اس سے بھی زیادہ گنجائش کی حامل ہے جبکہ ایکسٹرنل ہارڈ ڈسک ایم بی سے ہزار گنا جی بی سے بھی آگے جا چکی ہےجس میں ٹیرا بائٹس کے حساب سے ڈیٹا رکھا جاسکتا ہے۔

اگر نصاب کو اَپ ڈیٹ نہ کیا جائے تو ہمارا نصاب ہمیں فلاپی ڈسک اور یوایس بی کی ابتدائی صورت پڑھاتا رہے گا اور دنیا ہم سے آگے نکل جائے گی، اس لیے نصاب کو یکساں کرنے کے ساتھ ساتھ تبدیل کرنا بھی ضروری ہے۔ 

یکساں نصابِ تعلیم ایک احسن اقدام

مندرجہ بالا تمام نکات کے باوجود یکساں نصابِ تعلیم کی اہمیت کسی بھی طرح نظر انداز نہیں کی جاسکتی کیونکہ بڑی سے بڑی منزل کا حصول بھی ایک قدم سے شروع ہوتا ہے، اِس لیے یکساں نصابِ تعلیم بے شک ایک احسن اقدام ہے۔ 

آج حکومتِ پاکستان نے یکساں نصابِ تعلیم کو ضروری سمجھتے ہوئے اس پر کام شروع کیا ہے۔ کل عین ممکن ہے کہ یکساں نظامِ تعلیم اور تعلیمی بجٹ دو گنا کرنے کے حوالے سے بھی اقدامات اٹھائے جائیں۔ 

Related Posts