معاشی صورتحال اور تنقید برائے تنقید

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

تحریکِ انصاف کے چیئرمین عمران خان اور ان کی حکومت کے سابق وزراء آج کل تنقید برائے تنقید میں مصروف ہیں۔ بہتر یہ ہوتا کہ تنقید برائے اصلاح کی جاتی جس سے ملک ترقی کرتا۔

ایک محبِ وطن پاکستانی ہمیشہ یہ چاہے گا کہ پاکستان ترقی کرے اور جو شخص ملک کیلئے کام کرتا ہو، اس کی تعریف کی جائے مگر افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ہمارے ہاں کچھ لوگ ایسے ہیں جو اپنے ہی ملک کو بدنام کرتے ہیں۔

ایسے لوگ تصویر کا وہ رخ بیان کرتے ہیں جو حقائق سے کوسوں دور ہوتا ہے۔ موجودہ وزیر اعظم شہباز شریف کی حکومت نے بہترین فیصلے کرنا شروع کردئیے ہیں جن پر یہاں روشنی ڈالنا ضروری محسوس ہوتا ہے۔

سب سے پہلا فیصلہ جو ملکی مفاد کیلئے انتہائی خوش آئند سمجھا جانا چاہئے اور نہیں سمجھا جارہا وہ لگژری اشیاء کی درآمدات کو روکنا ہے مگر اس پر پی ٹی آئی رہنماؤں، کارکنان، ووٹرز اور سپورٹرز کی جانب سے تنقید کی جارہی ہے۔

سابق عمران خان حکومت کے سابق اراکین فرما رہے ہیں کہ لگژری اشیاء کی درآمدات روکنے سے ملک کو کوئی خاص فرق نہیں پڑے گا۔ ان کی اطلاع کیلئے عرض ہے کہ جب لگژری اشیاء کی روک تھام ہوگی تو زرِ مبادلہ اور تجارتی خسارے  پر قابو پانے کے حوالے سے اس کے اثرات مثبت ہوں گے اور اس سے بھی بڑے اثرات پاکستان کی مقامی صنعت پر نظرآئیں گے۔

دراصل کوئی بھی ملک ترقی اس وقت کرتا ہے جب اس کی گراس نیشنل پراڈکٹس (جی این پی) میں اضافہ ہوتا ہے۔ جب درآمدات روکی جاتی ہیں تو مقامی طور پر بنائی ہوئی اشیاء کی فروخت بڑھ جاتی ہے جس سے ملکی صنعت ترقی کرتی ہے اور پھر صنعتکار اپنی پیداوار میں اضافہ کرتے ہیں۔کاروبار کو وسعت دی جاتی ہے۔

پیداوار بڑھانے اور کاروبار میں وسعت پیدا کرنے کیلئے صنعتکاروں کو افرادی قوت کی ضرورت پیش آتی ہے جس کیلئے افسران اور اہلکار رکھے جاتے ہیں جس سے روزگار بڑھتا ہے۔

فی الحقیقت دنیا میں تمام ایسے ممالک ترقی کرتے ہیں جن کی جی این پی میں اضافہ ہوتا ہے۔پاکستان سمیت دنیا بھر کے ماہرِ معاشیات یہ سمجھتے ہیں کہ کسی بھی ملک کی ترقی کا انحصار جی ڈی پی سے بڑھ کر جی این پی پر ہوا کرتا ہے۔ 

دوسرا تنقیدی نکتہ جو پی ٹی آئی رہنماؤں اور سابق وزراء کی جانب سے سامنے آیا وہ یہ ہے کہ شہباز شریف حکومت کی وجہ سے ڈالر کی قیمت 200 روپے سے تجاوز کر گئی۔ تو عرض یہ ہے کہ اگر آج ڈالر 200روپے کا ہوا تو اس کی وجہ عمران خان حکومت کی جانب سے متعارف کرائی گئی فری فلوٹ ایکسچینج کی قانون سازی ہے جس نے جوے اور سٹے کی لت کو فروغ دیا۔ 

پاکستان میں فری فلوٹ ایکسچینج ڈالر کی قیمت میں کمی بیشی کا سبب بنتا ہے۔ اس پر حکومت کا کسی بھی قسم کا کنٹرول نہیں ہوتا۔ یہ ایک قسم کا جوا اور سٹہ بن چکا ہے جس کی وجہ سے علمائے کرام نے اس وقت بھی اس قسم کی ڈالر کی خریداری کو حرام قرار دیا جب پی ٹی آئی حکومت نے یہ اصول متعارف کرایا تھا۔ 

اسی جوئے کے باعث لوگوں نے 150روپے کا ڈالر خرید کر  رکھ لیا اور پھر اس کی قیمت بڑھانے کیلئے معیشت کے خلاف افواہیں اور خبریں پھیلانا شروع کردیا۔ مثال کے طور پر اسٹاک مارکیٹ تباہ ہورہی ہے، ملک تباہی کے دہانے پر ہے، ملک دیوالیہ اور برباد ہورہا ہے، وغیرہ وغیرہ۔

اس قسم کی جعلی، من گھڑت اور جھوٹی خبروں سے غیر یقینی صورتحال پیدا ہوئی اور سرمایہ کار گھبرا کر روپے کی بجائے ڈالر خریدنے لگے۔ ان کی سرمایہ کاری سے ڈالر کی مانگ میں اضافہ ہونے لگا۔ اس طرح روپے کی قدر میں کمی آنے لگی۔

تیسرا تنقیدی نکتۂ اعتراض یہ اٹھایا گیا کہ موجودہ حکومت کو امریکا لے کر آیا ہے اور عمران خان کو اس لیے نکالا گیا کیونکہ انہوں نے روس کا دورہ کیا تھا۔امریکا نے سازش کے تحت عمران خان کی حکومت گرا دی اور عمران خان ملک کے بہت بڑے مسیحا اور خیر اندیش ہیں جو دوبارہ وزارتِ عظمیٰ ملتے ہی دودھ کی نہریں بہا دیں گے۔ 

 آج جب وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری سے پوچھا گیا کہ کیا عمران خان کا روس کا دورہ غلط تھا؟ آپ کیا فرماتے ہیں؟ تو بلاول بھٹو نے جواب دیا کہ نہیں۔بلاول نے ان کی حمایت کرتے ہوئے کہا کہ عمران خان نے وزارتِ خارجہ کی پالیسی کے تحت دورہ کیا تھا، روس کے دورے پر پاکستان کو قصور وار ٹھہرانا غلط ہے۔ حیرت انگیز طور پر اس سے امریکا کو کوئی فرق نہیں پڑا بلکہ امریکا نے بلاول زرداری سے کہا ہے کہ امریکا پاکستان سے تجارت کو فروغ دینا اور بڑھانا چاہتا ہے اور بات یہیں پر ختم نہیں ہوئی۔ 

امریکی حکام کی جانب سے کہا گیا کہ امریکا دونوں ممالک کے درمیان ایسے معاہدے چاہتا ہے جن کی وجہ سے پاکستان کی معیشت بہتری کی جانب گامزن ہوسکے۔تو یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ امریکا کو صرف روس کے دورے کی وجہ سے عمران خان کی حکومت گرانے کی ضرورت کیوں پیش آئی؟ اور اگر آئی بھی تھی تو اس کیلئے دھمکی آمیز خط لکھنے کی کیا ضرورت تھی؟ حکومت تو خاموشی سے بھی گرائی جاسکتی تھی۔ 

یہاں میں اپنی قوم سے کہنا چاہتا ہوں کہ خدارا ہوش کے ناخن لیں اور سیاستدان بھی یہ حقیقت سمجھیں۔وقت آگیا ہے کہ ہمارے سیاستدانوں کو تنقید برائے تنقید چھوڑکر ملکی مفاد میں سوچنا شروع کردیں۔

اٹھو وگرنہ حشر نہیں ہوگا پھر کبھی

دوڑو! زمانہ چال قیامت کی چل گیا

اک تم کہ جم گئے ہو جمادات کی طرح

اک وہ کہ گویا تیر کماں سے نکل گیا

سیاستدانوں کو ملکی اداروں اور موجودہ حکومت پر  بے وجہ الزام تراشی بند کرنا ہوگی۔ پاکستان کو اگر ترقی یافتہ ملک بنتے ہوئے دیکھنا ہے تو ہمیں مل کر قومی مفاد میں کام کرنا ہوگا۔

پاکستانی شہریوں کو بھی یہ سمجھنا ہوگا کہ اپنی من پسند سیاسی جماعت کو بھی اگر ووٹ دینا ہے تو کارکردگی کی بنیاد پر دیں تاکہ سیاستدان حقیقت کو سمجھیں اور جذباتی نعرے بازی بند کردیں۔ 

سیاستدان لوگوں کو جذباتی کرکے کبھی مذہب، کبھی زبان ، کبھی فرقوں اور کبھی برادری کے نام پر استعمال کرنا چھوڑ دیں۔ضرورت اس بات کی ہے کہ پوری قوم سمجھے! ہم سب پاکستانی ہیں اور اسی سے ہمارے بچوں کا مستقبل وابستہ ہے۔

Related Posts