لاک ڈاؤن میں نرمی کہیں پچھتاوے کا سبب نہ بن جائے

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

ناول کورونا وائرس کے باعث دنیا بھر کی طرح پاکستان میں بھی لاک ڈاؤن ہے جس کی وجہ سے معمولات زندگی بری طرح متاثر ہوئے ، کورونا وائرس کی روک تھام کیلئے کوئی دوسری موثر طریقہ کار سامنے نہ آنے کی وجہ سے چین کی طرز پر پوری دنیا میں لاک ڈاؤن کی حکمت عملی اپنا کر اس موذی وباء کی پھیلنے سے روکنے کی کوشش کی جارہی ہے۔

ملک میں کورونا کی صورتحال
26 فروری کو کراچی کے شہری یحییٰ جعفری میں کورونا کی تصدیق کے بعد آج تک پاکستان میں کورونا وائرس کے کیسزکی مجموعی تعداد 7 ہزار 638ہوچکی ہے جبکہ 144افراد اس موذی وباء کے باعث اپنی زندگیاں گنواچکے ہیں جبکہ یومیہ سیکڑوں کیسز سامنے آرہے ہیں۔

لاک ڈاؤن کے باوجود شہریوں کی جانب سے احتیاطی تدابیر پر عمل نہ کرنے کی وجہ سے صورتحال گمبھیر ہوچکی ہےجبکہ حکومت کی جانب سے سپریم کورٹ میں جمع کرائی جانیوالی رپورٹ میں 25 اپریل تک ملک میں کورونا کے کیسز 50 ہزار تک ہونے کا خدشہ ظاہر کیا گیا تھا۔

صوبوں میں کیسز کی تعداد
پاکستان کا سب سے بڑا صوبہ پنجاب کورونا سے سب سے زیادہ متاثرہ ہوا ہے جہاں 3410 کیس سامنے آچکے ہیں، صوبہ سندھ 2335کیسز کے ساتھ دوسرے، بلوچستان 335کیسز کے ساتھ تیسرے، گلگت بلتستان 250 کیسز کے ساتھ چوتھے، اسلام آباد 163 کیسز کے ساتھ پانچوں اور آزاد کشمیر 48 کیسز کے ساتھ چھٹے نمبر پر ہے۔

لاک ڈاؤن
پاکستان میں سب سے پہلے کراچی میں کورونا وائرس کے مریض کی تصدیق کے بعد سندھ حکومت نے روایتی سستی کا مظاہرہ کرنے کے بجائے بادی النظر میں بھرپور اقدامات کا سلسلہ شروع کیا اور پاکستان میں کورونا وائرس کے کیسز بڑھنے کے بعد سندھ حکومت نے لاک ڈاؤن کا فیصلہ کیا جس کے بعد پنجاب ودیگر صوبوں نے بھی لاک ڈاؤن کیا اور وفاق کو بھی لاک ڈاؤن کی طرف جاناپڑا اور 14 اپریل کو وفاق اور سندھ کے بعد دیگر صوبوں میں بھی لاک ڈاؤن میں توسیع کردی گئی۔

کاروبار کی اجازت
وفاق کی جانب سے نفاذ کے باوجود لاک ڈاؤن کی مخالفت کی جارہی تھی تاہم وزیراعظم پاکستان نے 14 اپریل کو کنسٹرکشن انڈسٹری کے ساتھ دیگر کچھ شعبوں میں نرمی کا اعلان کیا جبکہ سندھ حکومت نے بھی چھوٹے اور درمیانے کاروبار کی اجازت دیکر اسی روز فیصلہ واپس لے لیاجبکہ پنجاب کے کچھ شہروں اور اسلام آباد وخیبرپختوا میں بھی عجیب وغریب صورتحال ہے۔

کہیں کاروبار کی اجازت ہے کہیں پابندی، اسی طرح کراچی میں گزشتہ روز کمشنر کراچی کی جانب سے ہوٹلز اور ریسٹورنٹس کھولنے کی اجازت دیدی گئی ہے تاہم لوگوں کو ہوٹلوں میں بیٹھ کر کھانا کھانے کی اجازت نہیں ہوگی لوگ پارسل کھانا لیجاسکتے ہیں۔ملک کے دیگر شہروں میں بھی کاروباری جزوی طور پر کھل رہے ہیں ۔

حکومتی اقدامات
کورونا کا پھیلاؤ روکنے کیلئے حکومت کی جانب سے گزشتہ تین ہفتوں سے جاری لاک ڈاؤن کے دوران عوام سے ایک ہی اپیل کی جاتی رہی کہ گھروں میں رہیں لیکن اس کے ساتھ ساتھ کئی کاروبار بدستور جاری رہے جبکہ کراچی کی سڑکوں پر معمول سے زرا کم لیکن ٹریفک موجود ہے اور بیشتر علاقوں میں ٹریفک جام بھی معمول کے مطابق جاری ہے جیسے لاک ڈاؤن سے پہلے ہوتا تھا جبکہ شہر میں شام پانچ بجے تک کاروبار کی اجازت کے باعث دکانوں پر دن بھر معمول سے زیادہ رش دکھائی دیتا ہے۔

حکومت کی جانب سے کوئی واضح حکومت عملی نہ ہونے کی وجہ سے شہری شش وپنج کا شکار ہیں اور ملک میں لاک ڈاؤن کے باوجود مطلوبہ نتائج نہیں مل سکے۔حکومت کی جانب سے متاثرین کی داد رسی نہ ہونے کی وجہ سے لوگوں نے لاک ڈاؤن کے احکامات پر مستعدی نہیں دکھائی کیونکہ حکومت کی جانب سے راشن وامداد عوام تک نہ پہنچنے کی وجہ سے لوگوں کو اپنے اہل خانہ کیلئے روزی روٹی کا انتظام کرنے کیلئے گھروں سے نکلنا پڑا۔

امداد کی فراہمی
عالمی بینک کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں غربت کی شرح30 فیصد سے زائد ہے جبکہ 80 فیصد عوام غریب کا شکار ہیں جبکہ کورونا کی وجہ سے ذرائع معاش مسدود ہونے کی وجہ سے غریب افراد غربت کی لکیر سے نیچے چلے گئے ہیں، کاروبار کی بندش کے باعث غریب ومتوسط طبقہ کو شدید مشکلات کاسامنا ہے تاہم وفاق وسندھ حکومت کی جانب سے عوام کی داد رسی کیلئے خاطر خواہ اقدامات نہیں کئے جاسکے۔

وفاق نے لاک ڈاؤن کے دوہفتے گزرنے کے بعد احساس ایمرجنسی کیش پروگرام شروع کیا جس میں بینظیر انکم سپورٹ پروگرام میں پہلے سے رجسٹرڈ افراد کے علاوہ قلیل تعداد میں لوگوں کو امدادی رقوم فراہم کی جارہی ہیں جبکہ اعلان کردہ 12 ہزار میں سے کئی جگہوں پر 8 اور کہیں جگہوں پر 4 ہزار روپے دیئے جارہے ہیں۔

یہاں دلچسپ بات تو یہ ہے کہ سندھ حکومت کا دعویٰ ہے کہ سندھ میں 12 ارب روپے کورونا کے حوالے سے اقدامات پر خرچ ہوچکے ہیں اور 8ارب روپے راشن کی تقسیم کی مد میں دینے کا دعویٰ بھی کیا گیا ہے جبکہ حقیقت تو یہ ہے کہ کراچی سمیت سندھ بھر میں عوام تاحال حکومت کی جانب سے راشن ملنے کے منتظر ہیں جبکہ حکومت کا دعویٰ ہے کہ راشن تقسیم کیا جاچکا ہے۔

راشن کا سیاسی استعمال
کراچی سمیت سندھ کے بعض اضلاع میں راشن تقسیم کرنے کی اطلاعات موصول ہوئی ہیں لیکن وہ راشن پیپلزپارٹی کے کارکنوں کو دیا جارہا ہے جو اس من پسند افراد کو نوازنے کے علاوہ آئندہ بلدیاتی الیکشن کی مہم کے طور پر اپنے ووٹرز یا سپورٹرز کو دے رہے ہیں  جبکہ پیپلزپارٹی کے کارکنوں کی جانب سے مستحقین کی تضحیک اور تذلیل کی کئی اطلاعات بھی موصول ہوئی ہیں۔

عوام کا کہنا ہے کہ یہ راشن سندھ حکومت کی جانب سے دیا جارہا ہے تو پیپلزپارٹی کے کارکنان کیسے اثر ورسوخ استعمال کرسکتے ہیں؟۔ عوام کا کہنا ہے کہ سندھ حکومت صرف میڈیا پر دعوے کرکے حقائق کو چھپانہیں سکتی اور آئندہ الیکشن میں پیپلزپارٹی سمیت تمام پارٹیوں کو اس کا اندازہ بخوبی ہوجائیگا۔

لاک ڈاؤن میں نرمی
وفاق اور صوبوں کی جانب سے لاک ڈاؤن میں نرمی کیلئے سوچ بچار کی جارہی ہے جبکہ تاجروں کی جانب سے بھی رمضان میں کاروبار اجازت دینے کے مطالبات سامنے آرہے ہیںاور علماء بھی مساجد میں باجماعت نماز کی ادائیگی پر مصر ہیں تاہم دیکھا جائے تو پاکستان میں یومیہ کیسز کی تعداد ٹیسٹ کے مقابلے بہت زیادہ ہے چونکہ پاکستان میں ٹیسٹ کا تناسب کم ہے اس کے باوجود کورونا کیسز کا 7ہزار 6سوکا ہندسہ عبور کرنا خطرے کی گھنٹی ہے ۔

حکومت کی جانب سے عوام کو راشن وامداد کی فراہمی نہ ہونے کی وجہ سے اب عوام مزید انتظار کرنے پر رضا مندی دکھائی نہیں دیتے کیونکہ وفاق اور صوبوں اپنی ذمہ داری نبھانے میں بری طرح ناکام ہوچکے ہیں ایسے میں اگر لاک ڈاؤن میں نرمی کی گئی یا لاک ڈاؤن ختم کیا جاتا ہے تو یہ ملک میں کورونا وائرس کو پھیلنے سے کوئی نہیں روک سکے گا۔

Related Posts