دبئی کی ملاقاتیں: کیا طے پایا، کہاں رکاوٹ ہے، نتائج کیا نکلیں گے؟

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

دبئی آج کل پاکستانی سیاست کا مرکز بنا ہے۔ اہم ترین سیاسی ملاقاتیں وہاں ہو رہی ہیں۔ پاکستان کے مستقبل کا فیصلہ کرنے والے تمام اقدامات ان چند دنوں میں بڑی حد تک طے ہوجائیں گے۔

یہ تو خیر بتانے کی ضرورت نہیں کہ سب کچھ ہمارے سیاستدان طے نہیں کر رہے بلکہ اس کے بنیادی خدوخال مقتدر حلقے تشکیل دیں گے، حکمران اتحاد کے قائدین البتہ اس میں رنگ بھریں گے۔بہرحال جو کچھ بھی ہے، دبئی کی ان ملاقاتوں کو ہرگز نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔
دبئی کو کیوں منتخب کیا گیا؟
یہ سوال بنتا ہے کہ ملاقاتیں تولندن میں بھی ہو سکتی تھیں، دبئی کیوں ؟
اس کی دو تین وجوہات بتائی جاتی ہیں، ایک تو یہ کہ لندن میں ن لیگی قائد تو موجود ہیں، ان کا وہاں گھر موجود ہے ، مگر پیپلزپارٹی کی قیادت کا ایسا معاملہ نہیں۔ دبئی البتہ ان کا دوسرا گھر ہے، زرداری صاحب وہاں اکثر جاتے رہتے ہیں، ان کا علاج معالجہ بھی وہیں پر ہوتا ہے۔ لندن ملاقات کے لئے اگر زرداری صاحب جاتے تو اس کا سیاسی مفہوم کچھ اور لیا جاتا ، دبئی میں ملاقات البتہ روٹین معاملہ ہے۔
دوسری وجہ امارات کے حکمرانوں کی سہولت کاری بھی ہے، کہا جارہا ہے کہ میاں نواز شریف کو اماراتی قیادت سپورٹ کر رہی ہے، بزنس انویسٹمنٹ کے حوالے سے بھی بہت کچھ طے کیا گیا ہے، اس کے لئے نواز شریف کو وزیراعظم کے طور پر لانا نتھی کیا جا رہا ہے۔ امارات والوں کا زرداری صاحب پر گہرااور دیرینہ اثر ہے۔یہاں ملاقاتوں کی ایک وجہ یہ سہولت کاری بھی ہے۔
تیسری وجہ بھی قابل فہم ہے، دبئی پاکستان سے بہت قریب ہے، یہاں پر ملاقات کے لئے جانا آسان ہے، لندن میں مقامی پاکستانی بہت ایکٹو ہیں جبکہ وہاں کا میڈیا آزاد اور سرکش ہے، کوئی بھی سٹوری کہیں سے نکل سکتی ہے، دبئی میں لوکل میڈیا سے ایسا کوئی خطرہ نہیں، یہاں بڑے محلات میں ملاقاتوں کی خبر برسوں باہر نہیں نکلتی۔” خفیہ ملاقاتوں“ کے لئے یہ نہایت مناسب مقام ہے۔

الیکشن کب کرائے جائیں ؟
ان ملاقاتوں میں تین چار چیزوں پر غور ہونا ہے۔ فیصلہ یا فیصلہ کے قریب ہونااور مشترک نکات پر اتفاق رائے ضروری ہے۔
ایک اہم نکتہ یہ ہے کہ الیکشن کب کرایا جائے؟تجویز زیرغور ہے کہ اسمبلی کی مدت مکمل ہونے سے دوچار دن پہلے اسمبلی تحلیل کی جائے تاکہ الیکشن کے لئے ساٹھ کے بجائے نوے دن مل سکیں۔ اس حساب سے نومبر کے پہلے عشرے میں الیکشن کی ڈیٹ بنتی ہے۔
پیپلزپارٹی اس حق میں ہے۔ زرداری صاحب اپنے قریبی حلقے میں بار بار یہ کہہ چکے ہیں کہ الیکشن وقت پر نہ ہوئے تو پھر کہیں کوئی اور بڑا کھیل نہ سامنے آ جائے جس کا مقصد سال دو سال کے لئے معاملات آگے لے جانا ہے۔ زرداری صاحب کو خطرہ ہے کہ ایسی صورت میں کسی کے ہاتھ کچھ نہیں آئے گا۔ پیپلزپارٹی کے لئے ویسے بھی اصل معاملہ سندھ ہے، جہاں انہیں ایک طرح سے کھلا میدان میسر ہے، سو فی صد امکانات ہیں کہ وہ اگلی حکومت آرام سے بنا لیں گے ۔
مسلم لیگ ن بھی الیکشن کے حق میں ہے کیونکہ اس کے سب سے بڑے حریف تحریک انصاف کا ایک طرح سے خاتمہ ہونے جا رہا ہے، عمران خان اور ان کی پارٹی کو الیکشن سے باہر رکھنے کے لئے بہت کچھ طے ہوچکا، اس پر عمل درآمد بھی جاری ہے۔
ن لیگ کا اصل معاملہ میاں نواز شریف کو کلین چٹ ملنا ہے۔ نواز شریف صاحب الیکشن لڑ کر چوتھی بار وزیراعظم بننا چاہتے ہیں۔ انہیں بظاہر کوئی سیاسی رکاوٹ سامنے نظر نہیں آ رہی البتہ انہیں سنائی گئی سزا ایک رکاوٹ ہے۔ تاحیات نااہلی والے معاملے کو انہوں نے اسمبلی سے ایک قانون منظور کرا کر دور کرنے کی کوشش کی۔ یہ ابھی معلوم نہیں کہ اس قانون کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا گیا تو کیا بنے گا؟ بعض ماہرین قانون کا کہنا ہے کہ تاحیات نااہلی والا معاملہ کسی قانون نہیں بلکہ آئینی ترمیم کے ذریعے ہی حل ہوسکتا ہے۔
دوسری بڑی عملی رکاوٹ میاں صاحب کو سنائی گئی سزا ہے۔ وہ اگر ابھی پاکستان واپس آئے تو انہیں جیل جانا پڑے گا۔ یہ الگ بات ہے کہ ان کے رائیونڈ والے گھر کو سب جیل قرار دے دیا جائے ۔میاں نواز شریف کی یقینا ترجیح ہوگی کہ ان کی واپسی سے پہلے اسلام آباد ہائی کورٹ میں ان کے کیس کا فیصلہ ہوجائے اور وہاں سے انہیں کلین چٹ مل جائے ۔ پھر وہ ایک ہیرو کی طرح وطن لوٹ سکیں گے۔
اب اس میں امکان ہے کہ کچھ تاخیر ہوجائے۔ عدالتی معاملات سلجھانے کی کوشش ن لیگ کو نئے چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے دور میں زیادہ آسان لگ رہی ہے۔ جسٹس فائز ستمبر کے وسط میں چیف جسٹس بنیں گے۔ اس لئے ایک آپشن یہ ہے کہ اسمبلی تحلیل کر کے نومبر میں الیکشن کرانے کے بجائے اسے چھ ماہ آگے کر دیا جائے تاکہ سب معاملات صاف ہوجائیں ۔ اس آپشن میں بھی بعض مسائل ہیں، اس لئے اس پر غوروخوض جاری ہے۔ دبئی ملاقات کا یہ اہم ایجنڈہ ہوگا۔
سیٹ ایڈجسٹمنٹ
ان مذاکرات میں پنجاب کی سیٹ ایڈجسٹمنٹ ایک اہم ایشو ہے۔ ن لیگ کو اب اقتدار کی کرسی سامنے نظر ا ٓ رہی ہے تو وہ اپنے مزاج اور روایت کے مطابق زیادہ طاقتور ہو کر آنا چاہتی ہے۔ سب کو پتہ ہے کہ اگلی حکومت مخلوط ہوگی، مل بانٹ کر شیئر لینا ہوگا، لیکن اگر ن لیگ کو الیکشن میں سادہ اکثریت حاصل ہوگئی تو اس کی بارگینگ پوزیشن مضبوط ہوجائے گی۔ پھر اگلے برسوں میں اگر اس کے پی پی سے معاملات ٹھیک نہ چلے تب بھی وہ اپنے طور پر چھوٹے اتحادیوں کے ساتھ مل کر حکومت چلا لے گی۔ اس سب کے لئے پنجاب میں نوے پچانوے ، سو سیٹیں لینا لازمی ہے۔ ن لیگ اس لئے پنجاب میں پی پی کو سیٹیں دینے کے لئے تیار نہیں۔
اس وقت تک صرف یہ طے پایا ہے کہ ن لیگ پی پی کے یوسف رضا گیلانی کے مقابلے میں امیدوار کھڑا نہیں کرے گی۔ ممکن ہے یہ رعایت گیلانی صاحب کے تمام بچوں کے لئے نہ ہو کہ گیلانی صاحب بھی قومی اور صوبائی اسمبلی کی چار پانچ نشستوں پر اپنے صاحبزادوں سمیت کھڑے ہوتے ہیں۔ زرداری صاحب نے قمر زماں کائرہ اور ندیم افضل چن کے حوالے سے سیٹ ایڈجسٹمنٹ پر بھی زور دیا ہے۔ ن لیگ اس کے لئے تیار نہیں کہ ان کے پاس بہتر امیدوار موجود ہیں ۔
جھنگ سے فیصل صالح حیات کو مبینہ طور پر زرداری صاحب نے ن لیگ سے سیٹ ایڈجسٹمنٹ کرا لینے کی یقین دہانی کرائی تھی۔ اب سنا ہے کہ رانا ثنااللہ نے فیصل صالح کو صاف انکار کر دیا ہے۔ اس طرح کے بعض دیگر معاملات پر بھی بات چیت ہونا ہے۔ ن لیگ نے پنجاب میں اگر پی پی کو چند سیٹیں دیں تو پھر وہ کراچی میں پیپلزپارٹی سے بعض نشستوں پر سیٹ ایڈجسٹمنٹ مانگے گی۔ اس بار فری لنچ کسی کو نہیں ملے گا۔
ن لیگ کے لئے مسئلہ یہ بھی ہے کہ وہ استحکام پاکستان پارٹی اور ق لیگ کو بھی چند سیٹوں پر ایڈجسٹ کرے گی۔ یہ ایڈجسٹمنٹ ان کے لئے ضروری بھی ہے اور مجبوری بھی۔
نگران وزیراعظم
یہ بھی بہت اہم ایشو ہے۔ نگران وزیراعظم کا تعین کرنا ا س لئے بھی ضروری ہے کہ کئی سازشی تھیوریز ساتھ ساتھ چل رہی ہیں کہ پنجاب کی موجودہ نگران حکومت کی طرح کل کو وفاق میں نگران حکومت بھی تین ماہ سے آگے جا سکتی ہے۔ ایسی صورت میں پی ڈی ایم جماعتوں کی کوشش ہوگی کہ ان کا وفادار نگران وزیراعظم ہو تاکہ معاملات ہاتھ میں رہیں ، کسی اور طرف نہ نکل جائیں۔
محسن بیگ صاحب کانام کئی ہفتوں سے چل رہا تھا، آج بھی یہ ڈسکس ہو رہا ہے ۔ خیال ہے کہ محسن نقوی کی طرح محسن بیگ کے بھی مقتدر حلقوں سے قریبی تعلقات ہیں۔ البتہ اب ایک حلقہ کا کہنا ہے کہ ان کا نام خطرے میں ہے۔ دو اور صحافیوں کے نام بھی چل رہے ہیں، فہد حسین جو ابھی کچھ دن پہلے تک وزیراعظم کے معاون خصوصی بھی تھے، دوسرے محمد مالک ہیں۔ لاہور کے ایک معروف بزنس مین کانام بھی چل رہا ہے۔ چلیں نام لے ہی لیتے ہیں، گوہر اعجاز۔ ایک اور دلچسپ نام جو شائد پی پی کی جانب سے پیش کیا گیا، وہ زمرد خان کا ہے، یہ ایک زمانے میں بیت المال کے چیئرمین تھے، آج کل لوپروفائل میں ہیں۔ ان مختلف ناموں کے علاوہ بھی کوئی اور نام ہوسکتا ہے ۔ میاں نواز شریف کے بارے میں مشہور ہے کہ وہ اپنے کارڈ ز ہمیشہ سینے سے لگا کر رکھتے ہیں اور عین ٹائم پر اسے سامنے لاتے ہیں۔

الیکشن کے بعد کیانقشہ بنے؟
پوسٹ الیکشن سینیاریو یعنی الیکشن کے بعد کیا ہوگا، کیسے ہوگا، اس سب پر بھی کچھ نہ کچھ بات تو ہوگی۔ انویسٹمنٹ پلانز اور ان میں سعودی عرب اور امارات کے کردار پر یقینی طور پر زرداری صاحب کو اعتماد میں لیا جائے گا۔ الیکشن کے بعد ایک براڈ بیسڈ یعنی وسیع البنیاد مخلوط حکومت کا بننا طے شدہ امر ہے۔ اس میں کس کا کتنا شیئر ہے، شائد اس کے لئے الیکشن نتائج کا انتظار کر لیا جائے ۔ پیپلزپارٹی بلاول بھٹو کو وزیراعظم بنانا چاہتی ہے یا ممکن ہے زرداری صاحب یہ بات کہہ کر بلاول کے لئے اگلی کابینہ میںوزارت خارجہ یا ڈپٹی پرائم منسٹر کا عہدہ لینا چاہتے ہوں۔ بہرحال ان سب پر بھی بات ہوگی۔
صدر کے عہدے پر بھی یقینی طور پر گفتگو ہوگی۔ ماضی میں زرداری صاحب اس عہدے پر فائز رہ چکے ہیں، ان کے دل میں پھر صدر پاکستان بننے کی خواہش انگڑائی لیتی ہوگی۔ پچھلے دنوں ایک آئیڈیا یہ بھی کہیں سے آیا کہ بلاول وزیراعظم اور نواز شریف صدر۔ اس میں رکاوٹ صرف یہی ہے کہ نواز شریف صاحب طاقتور ترین عہدے پر فائز ہونا چاہیں گے۔ پی پی کی خواہش تو یہ تھی کہ نواز شریف کے بجائے شہباز شریف وزیراعظم رہیں ۔ ممکن ہے اسٹیبلشمنٹ بھی ایسا چاہے۔ اس کے لئے مگر معلق پارلیمنٹ کا بننا ضروری ہے جس میں آزاد اور چھوٹے گروپس پر دارومدار ہو، تب پی پی والے اپنی بارگینگ کر پائیں گے۔ نواز شریف انہی خطوط کو ذہن میں رکھ کر پنجاب کے ساتھ کے پی، کراچی اور بلوچستان سے بھی نشستیںجیتنا چاہتے ہیں تاکہ سادہ اکثریت یا اس سے بہت قریب پوزیشن بن جائے۔
یہ مذاکرات ابھی چل رہے ہیں۔ شیڈول کے مطابق نواز شریف نے سعودی عرب جانا ہے اور پھر واپس دبئی آئیں گے۔ ملاقاتیں چلتی رہیں گی، خبریں بھی جنم لیتی رہیں گی۔ نئے اپ ڈیٹس آئے تو ہم اگلے کسی بلاگ میں ان شااللہ اس سب کچھ پر بات کریں گے۔

Related Posts