تحریک انصاف کے منحرف ارکان اسمبلی کی ڈرامائی کہانی

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

تحریک انصاف کے منحرف ارکان اسمبلی کی ڈرامائی کہانی
تحریک انصاف کے منحرف ارکان اسمبلی کی ڈرامائی کہانی

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

پچھلے چند دنوں سے پی ٹی آئی کے ناراض اراکین اسمبلی کے بارے میں مختلف افواہیں اور خبریں چل رہی تھیں۔ پہلے اپوزیشن کی جانب سے دعویٰ کیا گیا کہ انہیں تحریک انصاف کے پندرہ سے بیس اراکین اسمبلی کی حمایت حاصل ہے۔ حکومتی وزرا اس کی تردید کرتے رہے بلکہ انہوں نے دعویٰ کیا کہ اپوزیشن کے بعض ارکان اسمبلی ان سے رابطہ میں ہیں۔

یہ لفظی جنگ کئی روز سے چل رہی ہے، جمعرات کو البتہ دو معروف اینکرز کو سندھ ہاؤس لے جایا گیا، جہاں پی ٹی آئی کے بعض منحرف ارکان اسمبلی کی ان سے گفتگو ہوئی اور یہ دعویٰ بھی کیا گیا کہ دو درجن کے قریب ارکان اسمبلی منحرف ہیں، ان میں بعض اس خدشہ کے تحت سندھ ہاؤ س میں مقیم ہیں کہ کہیں حکومت کسی حربے سے انہیں روک کر اسمبلی نہ جانے دے۔ یاد رہے کہ سندھ ہاؤس سندھ حکومت کے کنٹرول میں ہے یعنی وہاں پیپلزپارٹی کی گرفت ہے۔

منحرف ارکان اسمبلی میں زیادہ تر وہ ہیں جنہیں تحریک انصاف نے اپنے دور اقتدار میں جہانگیر ترین کے قریب ہونے کی وجہ سے نظرانداز کیا یا پھر وہ عمران خان کی گڈ بکس میں نہ آسکے جبکہ بڑا فیکٹر وزیراعلیٰ عثمان بزدار سے ناراض ہونا بھی ہے۔ ان میں زیادہ تر کا تعلق فیصل آباد ڈویژن یا جنوبی پنجاب سے ہے۔ جمعرات کو ٹی وی ویڈیوز میں چار ارکان اسمبلی کھل کر سامنے آئے ہیں۔ ان میں فیصل آباد کے راجہ ریاض، نواب شیروسیر سرفہرست ہیں جبکہ مظفر گڑھ کے باسط سلطان اور پشاور کے نورعالم بھی ان میں شامل ہیں۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ ہمارے ساتھ چوبیس مزید ارکان اسمبلی ہیں۔

پی ٹی آئی کے اقلیتی رکن اسمبلی ڈاکٹر رمیش کمار کا بیان بھی ان کے اس صف میں جانے کا پتہ دے رہا ہے۔ یہ اہم حلقوں میں تعلقات رکھنے والے شخص ہیں، ان کا جانا کئی اور اشارے بھی کر رہا ہے۔ ٹی وی فوٹیج میں بعض خواتین ارکان اسمبلی بھی تھیں، ان کا معاملہ آسان ہے کہ مخصوص نشستوں سے جیت کر آنا ہوتا ہے، کارکنوں کا دباؤ نہیں، حلقے کی صورتحال کی ٹینشن نہیں اور اگر پیپلزپارٹی، ن لیگ کی جانب سے یقین دہانی ہوگئی تو آسانی سے وفاداری تبدیل۔

پشاور سے رکن اسمبلی نورعالم تو خیر پچھلے ڈیڑھ دو برسوں سے پی ٹی آئی کے ناراض اور منحرف رکن اسمبلی ہیں، یہ اعلانیہ عمران خان اور پارٹی پر تنقید کر رہے ہیں۔راجہ ریاض بھی کھل کر مخالف ہوئے تھے، یہ جہانگیر ترین گروپ کے نمایاں لوگوں میں سے ہیں۔ راجہ ریاض کو دراصل نظرانداز کئے جانے کا شکوہ ہے، وہ تجربہ کار سیاستدان ہیں، ان کا خیال تھا کہ عمران خان انہیں وزیر بنائیں گے، عمران نے نوجوان فرخ حبیب کو ان کے دھواں دھار بیانات کی وجہ سے وزیرمملکت بنا دیا۔

راجہ ریاض مکمل نظرانداز رہے۔ نواب شیر وسیر کا معاملہ دلچسپ ہے کیونکہ یہ ن لیگ کے طلال چودھری کو ہرا کر آئے ہیں، ن لیگ کے لئے انہیں ٹکٹ دینا مشکل ہے، مگر لگتا ہے نواب شیر وسیر کو اپنے طور پر جیت کا یقین ہے۔ باسط سلطان آزاد رکن اسمبلی ہیں، وہ اپنی قوت سے جیتے تھے اور آئندہ بھی جیت سکتے ہیں۔

جنوبی پنجاب کا ناراض گروپ باقی لوگوں کے نام رفتہ رفتہ سامنے آ رہے ہیں۔ جنوبی پنجاب کے اہم سیاست دان اور بادشاہ گر نصراللہ دریشک کانام بھی لیا جاتا ہے، نصراللہ دریشک دراصل جہانگیر ترین کے قریبی دوست ہیں۔ ڈی جی خان سے رکن قومی اسمبلی خواجہ شیراز بھی بزدار کے سخت مخالف ہیں۔ ملتان کے باغی انصافین رکن اسمبلی احمد ڈھیڑ بھی عثمان بزدار اور شاہ محمود قریشی کے سخت مخالف ہیں۔ یہ سب جہانگیر ترین گروپ کے لوگ تھے، اس لئے ترین کے کارنر ہو نے پر رُ ل گئے۔

ملتان ہی کے رانا قاسم نون جبکہ ڈی جی خان ڈویژن سے امجد کھوسہ، جعفر لغاری، ریاض مزاری وغیرہ کے نام بھی منحرفین کی فہرست میں گنے جاتے ہیں، یہ لوگ تردید بھی کررہے ہیں، مگر شک بدستور قائم ہے۔ لیاقت پور سے مخدوم احمد عالم انور کے صاحبزادے مبین عالم پی ٹی آئی سے رکن اسمبلی بنے، یہ یوسف رضا گیلانی کے قریب ہیں اور کہا جاتا ہے کہ سینٹ انتخاب میں گیلانی صاحب کو ووٹ ڈالنے والوں میں شامل تھے۔ وفاقی وزیر سید فخر امام کا لیا جا رہا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ فخر امام کے مقامی حریف ن لیگ میں جانا چاہتے تھے،مگر مبینہ طور پر میاں صاحب نے کہا کہ نہیں ہم فخر امام کو لیں گے، وہ صاف ستھرا آدمی ہے۔

ایک دلچسپ ماجرا سکندر بوسن کا بیان کیا جاتا ہے، اس وقت وہ رکن اسمبلی نہیں، مگر اس واقعہ کی ایک خاص اہمیت ہے۔ایک روایت کے مطابق ن لیگ کے اویس لغاری اور عبدالرحمن کانجو نے سابق وزیر سکندر حیات بوسن کو ن لیگ میں شامل کرانے کی کوشش کی،مگر میاں نواز شریف نے انکار کر دیا۔ انہیں ابھی تک غصہ ہے کہ سکندر بوسن ان کی کابینہ میں وزیر تھا، مگر اس نے ن لیگ کا ٹکٹ لینے کے بجائے شاہ محمود قریشی کے کہنے پر پی ٹی آئی کا ٹکٹ لیا، اگر چہ تحریک انصاف کے کارکنوں کے احتجاج پر ٹکٹ واپس ہوگیا اور احمد حسین ڈھیڑ کو ٹکٹ دیا گیا، وہ جیت بھی گئے۔ اگر یہ روایت درست ہے تو پھر ڈھیڑ کی بغاوت سمجھ آتی ہے، ن لیگ کا ٹکٹ مل جائے تو وہ آسانی سے دوبارہ جیت سکتا ہے۔

عثمان بزدار فیکٹر:

پنجاب میں پی ٹی آئی کے ناراض اراکین اسمبلی کا گروپ بننے کے پیچھے عثمان بزدار فیکٹر بہت اہم ہے۔ بزدار صاحب کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ بظاہر بہت بھولے بھالے، کم گو لگتے ہیں، مگر روایتی سیاست ان کے خون میں شامل ہے اور وہ ہوشیاری کے ساتھ جوڑ توڑ کرتے رہتے ہیں۔ بزدار قبیلہ ڈی جی خان کے بلوچ قبائل میں سب سے چھوٹا اور غیر اہم سمجھاجاتا رہا ہے۔ بڑے بلوچ قبائل میں لغاری، کھوسہ، دریشک، مزاری، گورچانی وغیرہ شامل ہیں۔

یہ بڑے بلوچ سردار ایک چھوٹے قبیلے کے ناتجربہ کار، غیر معروف سردار زادے عثمان بزدار کو وزارت اعلیٰ پنجاب کا منصب ملنے پر ناخوش تھے۔ عثمان بزدار کو اس کا احساس تھا، کہا جاتا ہے کہ انہوں نے میٹھی زبان استعمال کی، مگر ان بڑے سرداروں کو ایک دوسرے کے خلاف بھڑکانے اور لڑانے کی کوششیں کیں۔ اب مسئلہ یہ ہے کہ دریشک ہوں، لغاری، کھوسہ وغیرہ یہ سب طویل عرصے سے سیاست میں ہیں اورآپس کی لڑائیوں کے باوجود ایک دوسرے کو اچھی طرح جانتے ہیں اور باہمی رابطے، تعلق قائم رکھتے ہیں۔ بہت جلد عثمان بزدار ایکسپوز ہوگئے اور یہ سب ان کے خلاف ہو گئے۔

نصراللہ دریشک پرانے تجربہ کار سیاستدان ہیں، ہر طرف رابطے اور تعلق رکھتے ہیں، پنڈی والوں سے بھی ان کی گہری آشنائی ہے۔، ان کا بیٹا حسنین دریشک پرویز الٰہی دور میں وزیر خزانہ رہ چکا ہے۔ عثمان بزدار نے دانستہ حسنین کو ایک غیر اہم وزارت دی اور پھر سال بعد وہ بھی بدلنا چاہی، حسنین دریشک نے اس پر سخت ردعمل دیا کہ سال بعد مجھے وزارت سے بھرپور آگہی ملی ہے اور آپ بدلنا چاہ رہے ہیں۔ دریشک صاحب ویسے اعلانیہ طو رپر ابھی پی ٹی آئی کے خلاف نہیں ہوئے، وہ اس حکومتی ٹیم کا حصہ بھی ہیں جو پارلیمنٹ لاجز جا کر خواجہ شیراز، ریاض مزاری وغیرہ سے مذاکرات کررہی ہے۔ نصراللہ دریشک کو جاننے والے البتہ یہ کہتے ہیں کہ یہ گرم سرد چشیدہ بلوچ سیاستدان کبھی گھاٹے کا سودا نہیں کرتا اور فیصلہ کن موڑ پر اس طرف جائے گا جہاں فاتحین کھڑے ہوں گے۔

عثمان بزدار کے حلقے ہی سے رکن قومی اسمبلی خواجہ شیراز ہیں۔ ان کا تعلق خواجگان تونسہ کی مشہور گدی سے ہے۔ عثمان بزدار نے ابتدا ہی سے خواجہ شیراز کو ٹف ٹائم دیا اور اپنا گروپ بنانے کی کوشش کی تاکہ اگلے الیکشن میں وہ صوبائی اور قومی اسمبلی کی نشست بیک وقت جیت سکیں۔ خواجہ شیراز تین برسوں سے عثمان بزدار سے سخت نالاں ہیں، بار بار وہ احتجاج کرتے اور وزیراعظم عمران خان سے ملنے کی کوششیں بھی کرتے رہے۔ خواجہ شیراز کا اس وقت بھی یہ دعویٰ ہے کہ اگر عمران خان ستائیس مارچ کو عثمان بزدار کو ہٹانے کا اعلان کرے تو وہ پی ٹی آئی کو ووٹ دے گا، ورنہ تحریک عدم اعتماد کی حمایت۔

عثمان بزدار کی وجہ سے ہی جعفر خان لغاری، امجد کھوسہ، عدنان مزاری وغیرہ پی ٹی آئی سے نالاں اور ناراض ہیں۔ ایک فیکٹر یہ بھی ہے کہ تمام اپنے حلقوں میں بہت تگڑے امیدوار ہیں اور انہیں اگلے الیکشن کے لئے تحریک انصاف کی ٹکٹ کی ضرورت نہیں، اگرن لیگ کا ٹکٹ مل جائے تو بہتر ہے ورنہ اپنے طور پر بھی یہ جیت سکتے ہیں۔

ویسے یہ یاد رکھیں کہ جنوبی پنجاب کے ارکان اسمبلی روایتی طور پر کھل کر سامنے آنے اور للکارا مارکر مخالفت کرنے کے قائل نہیں، وہ عین وقت پر وفاداری تبدیل کرتے ہیں۔

ن لیگ کے ٹکٹ کی اہمیت:

یہ بات یاد رکھیں کہ جب سال چھ ماہ بعد الیکشن ہونا ہو تو رکن اسمبلی ناراض ہونے سے پہلے یہ ضرور دیکھتا ہے کہ اگلے الیکشن میں کس پارٹی کا ٹکٹ اس کے لئے مفید ہے۔یہ منحرف ارکان اسمبلی زیادہ تر وہ ہیں جنہیں ن لیگ نے اگلے ٹکٹ کی یقین دہانی کرا دی یا پھر وہ اپنے طور پر الیکشن جیتنے کی طاقت رکھتے ہیں یعنی الیکٹ ایبل ہیں۔سندھ ہاؤس میں صحافیوں کو نواب شیر وسیر نے یہ بتایا کہ مزید ارکان اسمبلی آنے کو تیار ہیں مگر ن لیگ انہیں ایڈجسٹ نہیں کر سکتی۔ یہ بہت اہم نکتہ ہے۔ جہاں جہاں ن لیگ کے پاس رکن اسمبلی موجود ہے یا ان کے پاس وفادار مضبوط امیدوار ہے تو وہاں وہ پی ٹی آئی کے منحرف رکن اسمبلی کو کیسے اکاموڈیٹ کرے؟

اسی فیکٹرکی بنا پر کئی ارکان اسمبلی تذبذب کا شکار ہیں۔ ریاض فتیانہ کمالیہ سے تحریک انصاف کے رکن اسمبلی ہیں، وہ بھی نظرانداز ہونے پر دو ڈھائی برسوں سے ناراض ہیں۔ وہ آج اعلانیہ منحرف ہوجائیں گے، لیکن ان کے مقابلے میں ن لیگ کے پاس جو امیدوار ہے، میاں صاحب اسے نظرانداز نہیں کر سکتے، ویسے ممکن ہے فتیانہ پھر بھی منحرف ہو جائیں۔ راجہ ریاض کو البتہ ن لیگ کی جانب سے گرین سگنل مل گیا ہے۔ عاصم نذیر بھی طاقتور گھرانے کے ہیں اور انہیں پچھلی بار ن لیگ نے ٹکٹ نہیں دیا تھا، مگر وہ آزاد لڑ کر ایم این اے بن گئے۔ ن لیگ انہیں اس بار ٹکٹ دے سکتی ہے۔

جھنگ کے صاحبزادگان اپنی وفاداریاں بدلنے کی پرانی شہرت رکھتے ہیں، اس بار بھی وہ منحرفین میں شمار سمجھے جا رہے ہیں۔ انہیں ن لیگ بھی اکاموڈیٹ کر سکتی ہے۔ ان کے علاوہ غلام بی بی بھروانہ کا نام بھی لیا جاتا ہے۔سرگودھا کے غلام محمد لالی کا نام بھی لیا گیا، وہ تردید کرتے ہیں، مگر تردید تو ہمارے ہاں ہمیشہ ہوتی رہتی ہے، اس لئے اسے کوئی سنجیدہ نہیں لیتا۔ دراصل ان میں سے کئی ارکان اسمبلی وہ تھے جنہوں نے ”اشارے“ پر تحریک انصاف میں شمولیت اختیار کی تھی، اب جبکہ حکومت کو ”ان“ کی حمایت حاصل نہیں تو پھر انہیں کیا پڑی ہے مشکل وقت میں وفاداری نبھائیں جبکہ دوسری طرف جانے میں بہت سے پرکشش فوائد موجود ہیں۔

Related Posts