براہ راست تصادم

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

سابق وزیراعظم عمران خان کے بیانات کہ اگر اسٹیبلشمنٹ نے ”صحیح فیصلہ“ نہ لیا قوم تقسیم ہوسکتی ہے، یقیناً ریاستی اداروں، سیاسی جماعتوں اور یہاں تک کہ عام شہریوں کو بھی نہیں بھایا۔

پی ٹی آئی چیئرمین نے کہا کہ موجودہ سیاسی صورتحال ملک کے ساتھ ساتھ اسٹیبلشمنٹ کے لیے بھی مسئلہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ اگر ملک دیوالیہ ہو گیا تو فوج سب سے زیادہ متاثر ہو گی اور قوم نیوکلیئر ڈیٹرنس سے محروم ہو جائے گی جس سے یہ تین حصوں میں بٹ جائے گی۔

جیسا کہ توقع کی جا رہی تھی، بیانات نے تنقید کی ایک لہر کو بھڑکا دیا ہے۔ وزیر اعظم شہباز شریف نے انہیں ”حد پار کرنے” اور ملک کو دھمکی دینے پر خبردار کیا۔ انہوں نے کہا کہ عمران خان اپنی برطرفی کے بعد مایوس ہو کر افراتفری پھیلا رہے ہیں اور ان کے بیان پاکستان کے دشمنوں جیسے ہیں۔ جبکہ آصف زرداری نے کہا کہ عمران خان کی زبان مودی سے ملتی جلتی ہے،کسی میں ہمت نہیں کہ پاکستان کے ٹکڑے کرسکے۔

اگرچہ عمران خان نے سیاسی صورتحال پر تقریریں کی ہوں گی، لیکن عوام اسے آسانی سے نہیں سمجھ سکیں گے۔ پی ٹی آئی کو کوئی ایسی کوشش نہیں کرنی چاہیے جس سے اس کا عوامی امیج خراب ہو اور پارٹی بدنام ہو، اسے یہ سمجھ لینا چاہیے کہ اگر پارٹی دوبارہ اقتدار میں آنا چاہتی ہے تو اس قسم کے تبصروں اور ریاستی اداروں کے ساتھ تصادم کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔

عمران خان برطرف ہونے کے بعد سے زیادہ آواز اٹھا رہے ہیں۔ انہوں نے اعتراف کیا ہے کہ ان کے پاس بطور وزیراعظم مطلق طاقت نہیں تھی، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ طاقت کے اصل مراکز کہیں اور ہیں۔ یہ کوئی حیران کن بات نہیں ہے کیونکہ یہ معلوم ہے کہ ان کا ریاستی اداروں کے ساتھ تصادم تھا، جس کی وجہ سے ان کی بے دخلی ہوئی۔ لیکن عمران خان کو یہ سمجھ لینا چاہیے کہ ان کا سامنا کرنے سے تعلقات مزید خراب ہوں گے۔

عمران خان نے کہا کہ ان کی حکومت جب اقتدار میں آئی تو کمزور تھی اور اسے ایسے اتحادی ملیجنہوں نے بلیک میل کیا اور بالآخر انہیں چھوڑ دیا۔ تاہم اس بات کا امکان نہیں ہے کہ کثیر الجماعتی نظام کے پیش نظر کوئی بھی پارٹی اکثریتی حکومت بنا سکے۔ کوئی بھی جماعت حتیٰ کہ پی ٹی آئی بھی اقتدار میں آنے کی صورت میں اتحادیوں کی تلاش کرنی پڑے گی۔

عمران خان قبل از وقت انتخابات کے انعقاد پر زور دیتے رہے ہیں۔ انہیں ماضی کا جائزہ لینا چاہیے کہ آیا وہ اقتدار میں واپس آنے کی پوزیشن میں ہیں؟۔ اگر یہ ریاستی اداروں کے ساتھ براہ راست ٹکراؤ کے راستے پر ہیں تو اس کا امکان نہیں ہے۔ وہ کونسا ‘صحیح فیصلہ’ ہے جس کا مطالبہ عمران کر رہے ہیں؟

Related Posts