یہ رمضان اور عید غزہ کے نام کردیں

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

غزہ میں پوری دنیا کی نگاہوں کے سامنے اسرائیل یک طرفہ طور پر انتہائی بے دردی اور بے رحمی سے فلسطینیوں کا قتل عام جاری رکھے ہوئے ہے، جس کے نتیجے میں معصوم بچوں اور خواتین سمیت اب تک 32 ہزار سے زائد فلسطینی شہید ہوچکے ہیں۔

دنیا کا ہر انسان کھلی آنکھوں دیکھ رہا ہے کہ غزہ کی صورتحال لمحہ بہ لمحہ بد سے بد تر ہوتی جا رہی ہے، اسرائیل کی جانب سے مسلسل تباہ کن حملوں کو پانچ مہینے سے زائد گزر چکے ہیں، غزہ مکمل طور پر کھنڈر میں تبدیل ہوچکا ہے اور وہاں ہر سانس لینے والی مخلوق کی زندگی پر موت منڈلا رہی ہے مگر اسرائیل کی آتش انتقام ہے کہ ٹھنڈی ہونے کا نام ہی نہیں لے رہی ہے۔

  غزہ ایک چھوٹا سا شہر ہے، اس کو ٹوٹل رقبہ صرف 45 کلومیٹر ہے، اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ 5 مہینے سے بلاتعطل طیاروں، ڈرونز، ٹینکوں، توپوں اور بندوقوں سے جاری وحشیانہ حملوں کے نتیجے میں یہاں کس قدر تباہی پھیلی ہوگی اور انسانی ہلاکتیں اور اموات کہاں تک جا پہنجی ہوں گی۔

اسرائیل جس انداز میں یک طرفہ طور پر فلسطینیوں کے قتل عام پر کاربند ہے، اس سے یہی لگ رہا ہے کہ وہ غزہ کو فلسطینیوں سے مکمل طور پر خالی کرنے اور اس شہر کو بھی ہتھیانے کا تہیہ کرچکا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ صہیونی وزیر اعظم نیتن یاہو کا کہنا ہے کہ وہ غزہ پر فلسطینی مقتدرہ کی حکومت بھی تسلیم نہیں کریں گے۔

غزہ کو اسرائیل کیسے ضم کرنا اور ہتھیانا چاہتا ہے، اس حوالے سے رپورٹس مظہر ہیں کہ اس کے سامنے اس مقصد کو پانے کیلئے دو منصوبے ہیں، اول یہ کہ غزہ کی بائیس لاکھ سے زائد کی فلسطینی آبادی کو مار مار کر غزہ بدر کرکے مصر کے سرحدی صحرائی علاقے سَینا کی طرف اجتماعی ہجرت پر مجبور کردیا جائے۔

دوسرا منصوبہ یہ ہے کہ اگر فلسطینی تمام تر ظلم و وحشیت کے باوجود اپنی سرزمین چھوڑنے پر تیار نہیں ہیں تو ان کی بائیس لاکھ سے زائد کی آبادی کو مکمل طور پر تہ تیغ کردیا جائے یہاں تک کہ غزہ میں ایک فلسطینی کا وجود بھی باقی نہ رہے۔

اسرائیل اپنے ان انتہائی وحشیانہ عزائم کی تکمیل کیلئے مسلسل حملے جاری رکھے ہوئے ہے، فلسطینی بھی ڈٹے ہوے ہیں اور کسی صورت اپنی سرزمین چھوڑنے پر آمادہ نہیں ہیں مگر وہ نہتے، بھوک، پیاس اور بے گھری کی اذیتوں کے مارے آخر کب تک مزاحمت جاری رکھ سکتے ہیں۔

یہ مسلم دنیا کا مشترکہ فرض ہے کہ وہ اب کھل کر سامنے آئے، تاہم مقام افسوس ہے کہ دور تک اس کے آثار دکھائی نہیں دے رہے، البتہ مسلم حکومتوں کے برعکس دنیا بھر کے مسلمانوں کے دل اب بھی خلوص کے ساتھ مظلوم فلسطینیوں کے ساتھ دھڑکتے ہیں۔

مسلمان مزاحمت میں شریک تو نہیں ہوسکتے، تاہم اس بار رمضان اور عید کو اہل غزہ کے نام کرکے عام حالات کے دوران رمضان اور عید پر جتنے اخراجات کیے جاتے ہیں، ان کا نصف اس دفعہ اہل غزہ کی امداد کیلئے بھیج کر ان کی ہمت بندھا سکتے ہیں۔ اس مقصد کیلئے الخدمت فاؤنڈیشن سمیت بہت سے ادارے موجود ہیں، جن کےذریعے امداد غزہ پہنچائی جا سکتی ہے۔

Related Posts