واپسی ناممکن ہے

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

پاکستان ڈیمو کریٹک موومنٹ کی قیادت کے رویئے میں وقت کے ساتھ ساتھ حکومت اور ریاست کے حوالے سے موقف میں سختی نمایاں ہوتی جارہی ہے۔

گزشتہ روز پی ڈی ایم قائد نے ملک میں غیر اعلانیہ مارشل لاء کی راگنی چھیڑ کر ایک بار پھر ملک میں جمہوریت کو دھچکا پہنچایا ہے اور اس سے پہلے 6 جنوری کو بھی پی ڈی ایم قیادت نے بنوں میں ریاست کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا اور اداروں پر سوال اٹھاکر سرخ لکیر عبور کرنے کی کوشش کی تھی۔

پی ڈی ایم اپنے قیام سے اب تک منفی بیانات کی وجہ سے عوام میں پذیرائی نہیں پاسکی، اگر پی ڈی ایم قیادت کے بیانات پر نظر ڈالی جائے تو ہم نے دیکھا کہ محمود خان اچکزئی نے کراچی جلسے میں اردو زبان کی توہین کی ہے اور لاہوریوں پر لاہور جلسے میں انگریزوں ، سکھوں اور ہندوؤں کے گروہوں کی معاونت کا الزام لگایا ۔

اہم بات تو یہ ہے کہ بہاولپور جلسہ میں مریم صفدر نے پنجابیوں پر کبھی بھی ظلم کے خلاف بغاوت نہ کرنے کا الزام عائد کیا ، جو سراسر جھوٹ ہے۔

میں اچکزئی اور پی ڈی ایم کی دیگر قیادت کو یاد دلاتا ہوں کہ 21 مارچ 1948 کو قائداعظم نے اردو زبان کے بارے میں کیا کہا تھا کہ پاکستان کی ریاستی زبان اردو اور کوئی دوسری زبان نہیں لہٰذا جہاں تک ریاستی زبان کا تعلق ہے ، پاکستانی زبان اردو ہوگی۔

اس سے زیادہ شرمناک بات یہ ہے کہ پی ڈی ایم کی قیادت میں کسی نے بھی جس میں پی پی پی کے شریک چیئر بلاول زرداری بھی شامل ہیں ، نے ان خوفناک نسلی ریمارکس کی مذمت نہیں کی۔ مجھے یقین نہیں ہے کہ یہ صرف زبان کا پھسلنا ہے یا پھر پی ڈی ایم کے پلیٹ فارم سے باقاعدہ نسل امتیاز کو فروغ دیا جارہا ہے یااچکزئی توہین آمیز کلمات ادا کرکے پاکستان کا “ڈان رکلس” بننے کی کوشش کر رہے ہیں۔ افسوس کے ساتھ یہ ظاہر ہوتا ہے کہ پی ڈی ایم بھارتی ایجنڈے پر پاکستان میں نسلی منافرت اور تقسیم کے لئے کام کر رہی ہے۔

بنوں میں ہونیوالے جلسے میں شرکاء نے افغان طالبان کے جھنڈوں کے ساتھ ساتھ افغان نواز نعرے بھی لگائے۔ یہ نعرے اس افسانے کو پیش کرتے ہیں کہ ڈیورنڈ لائن کے دونوں طرف کے تمام پختون افغانی ہیں اور یہ کہ بلوچستان ،کے پی کے اور قبائلی علاقوں کوحصہ افغانستان کا حصہ ہونا چاہئے۔ اگر فضل الرحمن ، محمود خان اچکزئی ، اور پی ڈی ایم کے باقی افراد خود کو افغانی سمجھتے ہیں تو پھر آپ پاکستان میں کیوں رہ رہے ہیں اوریہاں سیاست کیوں کررہے ہیں؟ افغانستان چلے جائیں اور ہم سب کو سکون سے جینے دیں۔

فضل الرحمن اور ان کے والد مفتی محمود کے پس منظر کو دیکھا جائے تویہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ تحریک پاکستان کے دوران مفتی محمود ہندوستانی نیشنل کانگریس کے اتحادی تھے ، جنھوں نے قیام پاکستان کی مخالفت کی تھی اور یہ بیان بھی ان سے منسوب ہے کہ خوشی ہے کہ پاکستان بنانے کے گناہ میں شریک نہیں تھا۔

مفتی محمود کے علاوہ عوامی نیشنل پارٹی کے قائدعبد الغفار خان انڈین نیشنل کانگریس کے حلیف بھی تھے اور انہوں نے پاکستان کی تشکیل کی مخالفت کی تھی۔ جب صوبہ سرحد میں اب کے پی کے میں یہ رائے شماری ہوئی تو لوگوں نے پاکستان کے حق میں ووٹ دیا لیکن عبد الغفار خان نے شدید مخالفت کی۔

مولانا فضل الرحمن کے بھائی عطاءالرحمن نے بنوں میں اپنے خطاب میں کہا کہ قائد اعظم نے ڈی ایچ اے کی سرزمین پر پاکستان پیدا کرکے غلطی کی تھی اور اس خطاب میں بابائے قوم اور پاک فوج کیخلاف ہرزہ سرائی کی۔ کیا مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی ان کے خیال سے متفق ہیں؟ ایک بار پھر میں پی ڈی ایم قیادت سے پوچھتا ہوں کہ اگر آپ کو موجودہ حکومت اور ریاستی اداروں سے کوئی مسئلہ ہے تو بابائے قوم کو ذاتی لڑائی اور منافرت کی سیاست میں کیوں گھسیٹ رہے ہیں۔

محب وطن پاکستانیوں اور قائداعظم کے پیروکاروں کے لئے یہ پاکستان مخالف پی ڈی ایم سرکس کافی ہے۔ اس ملک کی سڑکوں پر تشدد پھوٹ پڑنے سے پہلے ریاست کو پی ڈی ایم سے نفرت انگیز تقریر کے حوالے سے اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔

نیز سول سوسائٹی اور میڈیا کے اندر پی ڈی ایم چیئرلیڈرز کو جواب دینا ہوگا کہ جب پی ڈی ایم رہنما پاکستان کی سرزمین اور عوام سے محبت نہیں کرتے ہیں تو وہ موجودہ حکومت کے متبادل کے طور پر پی ڈی ایم کو کیوں پیش کررہے ہیں۔ اس پاکستان اور پاکستان کے عوام سے نفرت کرنیوالوں کو اقتدار کیونکر دینا چاہیے۔

Related Posts