دعاؤں اور اعمال کا باہمی تعلق

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

اسلام میں ایسی دعاؤں کے متلعق متعدد روایات ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ بد اعمالی کے باعث مسترد کردیتا ہے تاہم کچھ روایات ایسی بھی ہیں جو ہمیں بتاتی ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اچھے اعمال کے باعث دعاؤں کو شرفِ قبولیت عطا کیا۔ 

خاتم النبیین، حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ کی ایک بے حد مشہور حدیث ہے جو ہمیں بتاتی ہے کہ برے اعمال کی بنیاد پر دعائیں مسترد ہوجانا اس وقت عمل میں آتا ہے جب ایک شخص مایوسی کے عالم میں بھاگتا ہوا اللہ تعالیٰ کو پکارتا ہے اور کہتا ہے کہ اے میرے رب، اے میرے رب، لیکن اس شخص کا  کھانا، پینا، کپڑا اور تمام رزق حرام کا ہوتا ہے۔

مذکورہ حدیث میں رسول اللہ ﷺ سوال کرتے ہیں کہ اس شخص کو کس بنیاد پر اللہ کی طرف سے (مثبت) جواب دیا جائے؟ یہ حدیث ہمیں ایک بنیادی سبق دیتی ہے کہ اگر ہم یہ خواہش رکھتے ہیں کہ اللہ ہماری پکار کا جواب دے تو پھر ہمیں اس کے احکامات کی تعمیل کرنا ہوگی۔

حدیث کا ایک دورا رخ بھی ہے کہ وہ کون سے نیک کام ہیں جن کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ ہماری دعاؤں کا جواب دیتا ہے۔ ہمیں ان تین افراد کی حدیث سے جواب مل سکتا ہے جو کسی غار میں داخل ہوئے اور اچانک دروازے کے سامنے ایک بڑا پتھر آجاتا ہے اور وہ تینوں غار میں پھنس جاتے ہیں۔

حضور نبی کریم ﷺ بیان فرماتے ہیں کہ تینوں اشخاص نے مل کر فیصلہ کیا کہ ان میں سے ہر ایک اللہ تعالیٰ کو اپنے عمل کا واسطہ دے کر پکارے گا کہ انہوں نے صرف اللہ کیلئے وہ عمل سرانجام دیا، تاکہ اللہ تعالیٰ انہیں اس مصیبت سے نجات عطا فرمائے۔

پہلا شخص بیان کرتا ہے کہ وہ کیسے اپنی گائے کا دودھ دوہتا تھا اور وہ دودھ لے جا کر اپنے گھر والوں سے قبل اپنے والدین کو ہر رات پیش کرتا تھا۔ اس کے والدین روز اس کا دودھ کی فراہمی کیلئے انتظار کرتے تھے لیکن ایک بار جب وہ اپنے والدین کے گھر گیا تو انہیں سویا ہوا پایا۔

گھر واپس جانے کی بجائے اس شخص نے ساری رات اپنے والدین کے پلنگ پر ہاتھوں میں دودھ لے کر انتظار کیا تاکہ وہ جب اٹھیں تو دودھ لے سکیں۔ اس عمل کو بیان کرنے کے بعد اس شخص نے اللہ تعالیٰ کو پکارا کہ اے میرے رب، اگر تو جانتا ہے کہ یہ میں نے تیرے لیے کیا ہے تو براہِ کرم ہمیں اس مشکل سے نکال۔ اس التجا کے بعد اللہ تعالیٰ پتھر کو ہلادیتا ہے۔

دوسرا شخص بیان کرتا ہے کہ کس طرح اس کی ایک کزن اس کے پاس آئی تھی۔ قحط کا دور تھا اور وہ کزن اس کے پاس 100 دینار لینے کیلئے چلی آئی جس کے بدلے میں وہ اس کے ساتھ بدفعلی کا مرتکب ہوسکتا تھا۔

اس شخص نے 100دینار اپنی کزن کو دے دئیے اور اس کے ساتھ زنا کا مرتکب ہونے ہی والا تھا کہ اس کی کزن نے اسے اللہ سے ڈرایا اور کہا کہ اللہ کی حدود نہ توڑو۔ وہ شخص اس عمل سے باز آگیا اور خاتون کو چھوڑ دیا۔ اس واقعے کے انکشاف کے بعد اس نے اللہ کو پکارا اور کہا کہ اے میرے رب، اگر تو جانتا ہے کہ میں نے یہ صرف تیری خوشنودی کیلئے کیا تو پھر ہمیں اس مصیبت سے نجات دلا۔ اس طرح پتھر ایک بار پھر سرکا، تاہم تینوں افراد کو غار سے نکالنے کیلئے یہ کافی نہیں تھا، ابھی مزید دعاؤں اور التجاؤں کی ضرورت تھی۔

تیسرے اور آخری شخص نے یہ کہتے ہوئے اللہ تبارک وتعالیٰ کو یاد کیا کہ اس نے اپنے فارم میں کام کرنے کیلئے مزدوروں کو ملازم رکھا تھا۔ ایک دن وہ اپنے مزدوروں کو تنخواہ دینے کیلئے اپنے فارم پر گیا، اس نے ایک غیر حاضر رکن کے علاوہ سب کو ادائیگی کردی۔ اس کا کہنا تھا کہ میں نے غیر حاضر مزدور کی اجرت پر سرمایہ کاری کی کیونکہ وہ دستیاب نہیں تھا جس کے نتیجے میں بہت منافع حاصل ہوا جس سے فارم کے کاروبار میں بے حد توسیع کی گئی۔

طویل عرصے کے بعد جب غیر حاضر کارکن اپنی اجرت واپس لینے کیلئے آیا تو اس نے کوئی بھی اجرت دینے سے انکار کی بجائے کارکن کو فارم میں سرمایہ کاری سے حاصل ہونے والا تمام تر نفع پیش کردیا کہ یہ سب تمہاری اجرت سے کمایا گیا مال ہے۔ مزدور نے اس شخص سے پوچھا کہ کیا آپ مجھے بے وقوف بنا رہے ہیں؟ اس نے اللہ کے خوف سے مذاق اڑانے کی بجائے کارکن کو یقین دلایا کہ میں تمہیں بے وقوف نہیں بنا رہا اور کہا کہ اپنی مزدوری اور کمائی سب کچھ لے جائے۔

قصہ بیان کرنے کے بعد تیسرے شخص نے بھی اللہ سے دعا کی کہ اے میرے رب، اگر تو جانتا ہے کہ میں نے یہ تیری رضا کیلئے کیا، تو کرم فرما اور ہمیں اِس آزمائش سے آزاد کردے۔ حضور ﷺ نے فرمایا کہ تیسرے شخص کے یہ کہنے کے بعد پتھر مکمل طور پر ہٹ گیا اور آخر کار تینوں انسان غار سے باہر نکلنے میں کامیاب ہوگئے۔

یہاں اس خوبصورت حدیث کی بہت سی وضاحتیں کی جاسکتی ہیں کیونکہ تینوں افراد کی کہانیاں انوکھی تھیں۔ ایک والدین کے حقوق سے متعلق، دوسری زنا اور جنسی زیادتی کے بارے میں جبکہ تیسری کاروباری اخلاقیات کے موضوع پر تھی۔ آئیے ہم ان تینوں افراد کے درمیان مشترکہ خصوصیات کا جائزہ لیتے ہیں جن کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے ان کی دعا کا جواب دیا۔

سب سے پہلی بات خلوص ہے کہ کوئی بھی عمل خالصتاً اللہ تعالیٰ کیلئے کیا جائے۔ ہم اللہ تعالیٰ سے دعا کرتے ہیں اور اسے اپنے اعمال کا واسطہ دیتے ہیں۔ عمل میں خلوص بے حد ضروری اور کلیدی اہمیت کا حامل ہے اور دعا کرتے ہوئے بھی اللہ سے گفتگو خلوص سے کی جانی چاہئے۔

ان خصوصیات میں سے دوسری اہم خصوصیت یہ ہے کہ تینوں افراد متعلقہ حالات سے فائدہ اٹھانے کی پوزیشن میں تھے۔ وہ فراخدل اور رحمدل ہونے کی بجائے نافرمانی کرسکتے تھے لیکن انہوں نے اللہ کے خوف سے ایسا نہیں کیا۔

نیز یہ کہ تینوں افراد نے جنہیں فائدہ پہنچایا یا رحم کیا، وہ بے اختیار اور کمزور لوگ تھے، لہٰذا انہیں شفقت اور نرم مزاجی کی ضرورت تھی۔

جب ہم دعا کے ذریعے اللہ تعالیٰ کو پکارتے ہیں تو ہم اس کے سامنے عاجزی ظاہر کرتے ہیں کیونکہ اللہ ہم پر اقتدار رکھتا ہے اور ہمیں ہمیشہ اسی پر انحصار کرنا ہوتا ہے۔ بہت ساری احادیث نیک اعمال کی تشریحات بیان کرتی ہیں جن میں بتایا گیا ہے کہ بہت سے لوگوں کو اقتدار ملا جہاں وہ لاپرواہی دکھا سکتے ہیں اور دنیاوی دھوکہ کھا سکتے ہیں تاہم وہ اس کا انتخاب نہیں کرتے۔

سوچئے گا ضرور کہ اگر ہم غار میں وہ تیسرا شخص ہوتے اور ماضی میں کسی اچھے کام کے ذکر کے ساتھ اللہ کو پکارنا پڑتا کہ وہ ہم نے صرف اللہ کی ذات کیلئے کیا تاکہ غار کے دہانے پر موجود پتھر سرک جائے تو کیا ہمارے پاس ایسا کوئی ایک بھی عمل ہے؟ اگر ہم ماضی کے لوگوں کے بارے میں سوچ نہیں سکتے تو ہم ان اعمال کے بارے میں تو ضرور سوچ سکتے ہیں جو ہم صرف اور صرف اللہ کی خوشنودی حاصل کرنے کیلئے کرتے ہیں۔ یہ وہ اعمال ہیں جو ہماری دعاؤں کا مثبت جواب عطا ہونے میں ہماری مدد کرسکتے ہیں۔

مضمون میں جو کچھ بھی اچھا لکھا گیا، وہ اللہ کے کرم اور عطا سے ممکن ہوسکا جبکہ جو خامیاں اور کوتاہیاں ہوئیں، وہ سراسر میری ذاتی غلطی اور انسانی لغزش کے باعث تھیں۔

Related Posts