وزارتِ تعلیم سندھ کی اسٹئیرنگ کمیٹی کے اہم اجلاس میں کالج ایجوکیشن ڈپارٹمنٹ پھرنظرانداز

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

وزارتِ تعلیم سندھ کی اسٹئیرنگ کمیٹی کے اہم اجلاس میں کالج ایجوکیشن ڈپارٹمنٹ پھرنظرانداز

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

کراچی : وزیر تعلیم سندھ سعید غنی کی جانب سے 16 جون 2021 کو صبح 10 بجے ، محکمہ تعلیم کی “اسٹئیرنگ کمیٹی” کا اجلاس طلب کیا گیا ہے جس کا باقاعدہ دعوت نامہ بھی جاری کر دیا گیا ہے تاہم کالج ایجوکیشن ڈپارٹمنٹ کو ایک بار پھر نظر انداز کردیا گیا۔

تفصیلات کے مطابق حکومت سندھ کی جانب سے جاری کردہ اس دعوت نامے میں اسکول ایجوکیشن کے تمام 6 ڈویژنز کے ڈائریکٹرز جن میں ڈائریکٹرز ایلیمنٹری ایجوکیشن، ڈائریکٹرز سیکنڈری ایجوکیشن ،ڈائریکٹرز ہائر سیکینڈری ایجوکیشن کے علاوہ دیگر 32 اراکین کمیٹی کو مدعو کیا گیا ہے۔

محکمہ تعلیم کی اسٹئیرنگ کمیٹی سندھ کے تعلیمی معاملات پر فیصلوں کے حوالے سے ایک مضبوط اور بااختیار باڈی کی حیثیت رکھتی ہے۔صوبے بھر کے تعلیمی اداروں میں داخلوں کی تاریخوں کا تعیّن، چھٹیوں کا شیڈول طے کرنا یا امتحانات سے متعلق لائحہ عمل طے کرنے کے اختیارات اسٹیرنگ کمیٹی کے پاس ہیں جو اہم فیصلے کرتی ہے۔

ایم ایم نیوز کو موصول ہونے والے نوٹیفکیشن کے مطابق کمیٹی کے اراکین کی فہرست میں 3 بنیادی غلطیاں کی گئی ہیں۔کمیٹی میں اسکول ایجوکیشن ڈپارٹمنٹ کے افسران کی بھرمار ہے جن کے متعدّد افسران کے ساتھ ڈیڑھ درجن ڈائریکٹرز بھی کمیٹی کے اراکین ہیں۔

دوسرے نمبر پر اس کمیٹی میں کالج ایجوکیشن ڈپارٹمنٹ کو ماضی کی طرح اس مرتبہ پھر نظر انداز کر دیا گیا ہے۔ اور تیسرے نمبر پر اس کمیٹی میں غیر سرکاری اراکین کی نمائندگی ضرورت سے زیادہ رکھی گئی ہے ۔

تعلیمی حوالے سے اس اہم کمیٹی میں ایڈیشنل ڈائریکٹر ٹیچرز ٹریننگ انسٹیٹیوشنز، حیدرآباد کو بھی نمائندگی دی گئی ہے جس کا نہ تعلیمی اداروں کے داخلوں سے کوئی تعلق ہے اور نہ ہی تعلیمی اداروں کی تعطیلات اور امتحانی تاریخوں سے کوئی واسطہ ہے۔

کسی نوعیت کا تعلق نہ ہونے کے باوجود انہیں محض اس لئے اسٹئیرنگ کمیٹی میں نمائندگی دی گئی ہے کہ ان کا تعلق اسکول ایجوکیشن ڈپارٹمنٹ سے ہے ۔ دوسری جانب 150 سرکاری کالجوں کا انتظامی سربراہ یعنی ڈائریکٹر کالجز کراچی جس کا تعلق ان تمام امور سے ہوتا ہے جو اسٹئیرنگ کمیٹی کے دائرہ اختیار میں آتے ہیں ، کمیٹی میں نمائندگی سے محروم ہے۔

کالج ایجوکیشن کی اہمیت کسی سے ڈھکی چھپی نہیں، صوبے بھر کے تقریباً 4 لاکھ طلباء و طالبات 300 سے زائد سرکاری اور 30 ہزار سے زیادہ نجی کالجز میں زیر تعلیم ہیں ، اس حوالے سے محکمہ تعلیم کالجز سندھ میں شعبہ تعلیم کا بڑا اسٹیک ہولڈر ہے۔

محکمہ کالج ایجوکیشن اور محکمہ اسکول ایجوکیشن کو علیحدہ علیحدہ محکموں کا درجہ دئیے ہوئے 5 سال ہو چکے ہیں مگر محکمہ کالج ایجوکیشن کی اب تک نہ تو علیحدہ اسٹئیرنگ کمیٹی کا قیام عمل میں لایا جا سکا ہے اور نہ ہی موجودہ اسٹئیرنگ کمیٹی میں کالج ایجوکیشن کو جائز نمائندگی دی گئی ہے۔

حیرت انگیز طور پر اسٹئیرنگ کمیٹی میں کالج ایجوکیشن کو نظر انداز کرنے کے حوالے سے محکمہ کالج ایجوکیشن کے افسران بھی خاموش ہیں اور کالج اساتذہ تنظیمیں بھی معنی خیز خاموشی اختیار کیئے ہوئے ہیں۔حکومتِ سندھ کے اقدامات کے خلاف صدائے احتجاج بلند نہیں کی جارہی۔

اس حوالے سے ماہرین تعلیم کا کہنا ہے کہ کالج ایجوکیشن کی اہمیت اور افادیت کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے۔ اعلیٰ تعلیم کے دروازے کالجوں سے ہی کھلتے ہیں ۔ یونیورسٹیز اور پیشہ ورانہ  اداروں سمیت اعلیٰ تعلیمی اداروں میں داخلوں کیلئے طلباء وطالبات کو کالجوں میں ہی تیار کیا جاتا ہے۔

ماہر تعلیم زاہد احمد کا کہنا ہے کہ کالج کی سطح پر تعلیم کی اہمیت وافادیت مسلّمہ ہے مگر جب کالجوں سے متعلقہ امور پر فیصلہ سازی کی بات ہوتی ہے تو شعبہ تعلیم کے اس اہم ترین اسٹیک ہولڈر کو نظر انداز کر دیا جاتا ہے ۔میں نے ڈھائی سال قبل محکمہ تعلیم کالجز کیلئے علیحدہ اسٹئیرنگ کمیٹی تشکیل دینے کی تجویز دی تھی۔ 

زاہد احمد نے کہا کہ یہ تجویز اس وقت کے سیکریٹری کالج ایجوکیشن کو دی گئی جس سے انہوں نے اتفاق بھی کیا۔ تاہم اس تجویز کو عملی جامہ نہیں پہنایا جاسکا۔ کالجز میں داخلے کب ہونگے، چھٹیاں کب ہونگی ، امتحانات کب ہونگے اور کیسے ہونگے؟ اس میں صوبے بھر کے 7 کالج ڈائریکٹرز کی رائے اور مشورے شامل نہیں ہوں گے۔

انہوں نے کہا کہ کالج سائیڈ کے بیسویں گریڈ کے 6 ریجنل ڈائریکٹرز میں سے ایک بھی اسٹیرنگ کمیٹی میں شامل نہیں۔جبکہ اسکول سائیڈ کے تمام ڈائریکٹرز اس اسٹئیرنگ کمیٹی کے اراکین ہیں۔

غالب امکان یہ ہے کہ کالج سائیڈ کے یہ 6 ڈائریکٹرز اور ڈائریکٹر پرائیوٹ کالج ، اسٹئیرنگ کمیٹی میں اپنی نمائندگی اور کالجوں سے متعلق اہم فیصلوں میں اپنی شمولیت کیلئے آواز اس لیئے بھی بلند نہیں کرتے کیونکہ انہیں اپنے منصب سے محرومی کا خوف لاحق ہے۔

اس معاملے پر کالج اساتذہ تنظیمیں بھی اسی خوف کا شکار ہیں جبکہ تنظیمیں اس سلسلے میں اہم کردار ادا کرسکتی ہیں۔کالجز کے اساتدہ کا خیال ہے کہ کالج ایجوکیشن کے معروضی حالات ، مسائل اور انکے حل کیلئے کالج ایجوکیشن کے جملہ اسٹیک ہولڈرز پر مشتمل علیحدہ اسٹئیرنگ کمیٹی برائے کالج ایجوکیشن تشکیل دی جانی چاہئے۔

اگر سندھ حکومت کو علیحدہ اسٹیرنگ کمیٹی کے قیام میں قباحت اور مشکل درپیش ہو تو موجودہ کمیٹی میں سندھ کے 6 ریجنل ڈائریکٹرز کالجز ، ڈائریکٹر پرائیویٹ کالجز اور کالج اساتذہ کے کم از کم 3 نمائندوں کو بھی موجودہ اسٹئیرنگ کمیٹی کا حصّہ بنایا جائے تاکہ کالج ایجوکیشن سے متعلق اسٹئیرنگ کمیٹی کے فیصلوں میں کالج ایجوکیشن کے اسٹیک ہولڈرز بھی شریک ہوسکیں۔

یہ بھی پڑھیں: آج سندھ کے اصل وزیراعلیٰ کا نام بھی سامنے آچکا ہے حلیم عادل شیخ

Related Posts