عوام کا ایمازون کو پاکستان لانے کا مطالبہ اور آن لائن کاروبار کی تعمیر و ترقی

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

عوام کا ایمازون کو پاکستان لانے کا مطالبہ اور آن لائن کاروبار کی تعمیر و ترقی
عوام کا ایمازون کو پاکستان لانے کا مطالبہ اور آن لائن کاروبار کی تعمیر و ترقی

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

پاکستانی عوام آج آن لائن شاپنگ کی سب سے بڑی ویب سائٹ ایمازون کو پاکستان لانے کا مطالبہ کرتے دکھائی دئیے جس کا آن لائن کاروبار کی تعمیر و ترقی سے تعلق سمجھنے کی ضرورت ہے۔

سب سے پہلا سوال یہ ہے کہ ایمازون نامی یہ کمپنی انٹرنیٹ کی دنیا میں کیا کام کرتی ہے؟ اس کی مالی و معاشی حیثیت کیا ہے اور پاکستانی عوام اسے پاکستان کیوں لانا چاہتے ہیں؟ جس کے بعد آن لائن کاروبار کے بارے میں مزید حقائق پر بھی روشنی ڈالی جاسکے گی۔

معروف کمپنی ایمازون کا تعارف

ویب سائٹ ایمازون ڈاٹ کام وزٹ کریں تو آپ کو ایک آن لائن دکان نظر آئے گی۔ یہ امریکی ملٹی نیشنل ٹیکنالوجی کمپنی ایمازون کی ملکیت ہے جو امریکی دارالحکومت واشنگٹن ڈی سی میں کام کرتی ہے۔

زیادہ تر ایمازون کا کام ای کامرس، کلاؤڈ کمپیوٹنگ، ڈیجیٹل اسٹریمنگ اور آرٹیفیشل انٹیلی جنس سے متعلق ہے۔ امریکی انفارمیشن ٹیکنالوجی انڈسٹری کی بڑی 5 کمپنیوں میں شمار ہونے والی ایمازون کمپنی کاروبار کی دنیا میں ایک اہم مقام رکھتی ہے۔

گوگل، ایپل، مائیکروسافٹ اور فیس بک کے بعد اگر آن لائن کاروبار کی دنیا میں کسی اور کمپنی کا نام لیا جائے تو وہ ایمازون ہے۔ ایمازون کو دنیا کی سب سے قابلِ قدر برانڈ ہونے کا اعزاز حاصل ہے جو دنیا بھر کی اقتصادی اور ثقافتی طاقتوں پر اثر انداز ہونے کی بھرپور صلاحیت رکھتی ہے۔

ایمازون کی تاریخ 

جیف بیزوز نے واشنگٹن میں 5 جولائی 1994ء کے روز ایمازون کی بنیاد رکھی اور ابتدا میں یہ کمپنی ایک آن لائن لائبریری کے طور پر کام کرتی تھی لیکن بعد میں ایمازون نے الیکٹرانکس، سافٹ وئیر، ویڈیو گیمز، کپڑے، فرنیچر، کھانا، کھلونے اور جیولری بھی بیچنا شروع کردی۔

سن 2015ء میں ایمازون نے سرمائے کی مالیت کے اعتبار سے والمارٹ کو بھی شکست دے دی جسے امریکا میں سب سے قابلِ قدر ریٹیلر سمجھا جاتا تھا اور آگے چل کر 2017ء میں ایمازون نے 13 اعشاریہ 4 ارب ڈالرز کی خطیر رقم کے عوض خوراک کی پوری مارکیٹ اپنے نام کر لی۔

یہ کوئی چھوٹا قدم نہیں تھا کیونکہ اس ایک اقدام کی وجہ سے ایمازون کو حقیقی کاروبار سمجھا جانے لگا اور آج ایمازون دنیا کی مانی ہوئی آن لائن مارکیٹ ہے جہاں عوام کو مختلف النوع خدمات مہیا کی جاتی ہیں۔

دنیا بھر میں اپنے سرمائے کے اعتبار سے ایمازون انٹرنیٹ پر موجود سب سے بڑی کمپنی مانی جاتی ہے اور امریکا میں ملازمتیں دینے کے اعتبار سے ایمازون دوسری بڑی کمپنی ہے۔ 

آن لائن خریدوفروخت کی وسعت

یہاں ایک غلط فہمی دور کرنا ضروری ہے۔ سمجھا یہ جاتا ہے کہ آف لائن خریدوفروخت یعنی خود کہیں جا کر کچھ خریدنے کے مقابلے میں آن لائن خریدوفروخت غیر محفوظ اور قدرے کمتر ذریعۂ خریدوفروخت ہے، تاہم یہ بات ایمازون پر صادق نہیں آتی۔

ایمازون کو آن لائن ہونے کے باوجود دنیا کے بڑے بڑے کاروباروں کے مقابلے میں کہیں زیادہ محفوظ اور پر اعتماد سمجھا جاتا ہے۔ یہاں پراڈکٹس کی ورائٹی اور وسعت بھی بہت زیادہ ہے۔ کتابوں، کپڑوں، جوتوں اور کمپیوٹرز کے ساتھ ساتھ یہاں سافٹ وئیر، ویڈیوز اور آڈیوز بھی خریدی اور بیچی جاتی ہیں۔

یہی نہیں بلکہ سافٹ وئیر، کاسمیٹیکس، بیوٹی پراڈکٹس، زیورات، کچن اور باتھ روم کا سامان، حتیٰ کہ گھر کا فرنیچر بھی ایمازون پر دستیاب ہے۔ اس لیے پاکستان سمیت دنیا بھر کے لوگ ایمازون پر خریداری کو نہ صرف پسند کرتے ہیں بلکہ اسے شاپنگ کی دیگر کمپنیز پر ترجیح بھی دیتے ہیں۔

پاکستانی سوشل میڈیا صارفین کا مطالبہ

سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر ایمازون اِن پاکستان آج کا ٹاپ ٹرینڈ رہا ہے جس کے تحت 5 ہزار 700 سے زائد پیغامات ارسال کیے جاچکے ہیں جن میں عوام وزیرِ اعظم عمران خان اور حکومتِ پاکستان سے یہ مطالبہ کرتے دکھائی دیتے ہیں کہ ایمازون کو پاکستان میں لایا جائے۔

طلحہ یوسف نامی سوشل میڈیا صارف نے اپنے پیغام میں کہا کہ ہم پاکستان میں ٹیلنٹ اور مہارت پر مبنی ورک فورس کی کوئی کمی نہیں۔ پاکستانی چاہتے ہیں کہ ایمازون ہمارے ساتھ کام کرے۔ 

حیدر علی مغل نے کہا کہ ہم ایمازون سے درخواست کرتے ہیں کہ وہ پاکستان آئے، ہماری ایمازون کے مالک جیف بیزوز سے بھی درخواست ہے کہ اپنا ایک آفس پاکستان میں کھولیں۔ 

آمنہ رؤف نامی سوشل میڈیا صارف نے کہا کہ ہم چاہتے ہیں کہ ایمازون پاکستان آئے۔ ہم آن لائن دنیا میں آگے بڑھنا چاہتے ہیں۔ وزیرِ اعظم عمران خان سے ہماری درخواست ہے کہ ایمازون کو پاکستان لائیں اور ہم ایمازون کو پاکستان میں خوش آمدید کہنے کو تیار ہیں۔ 

حکومت کی ایمازون سے سرمایہ کاری کی درخواست

وفاقی وزیرِ سائنس و ٹیکنالوجی فواد چوہدری نے گزشتہ برس اپنے ایک ٹوئٹر پیغام میں کہا کہ میں نیٹ فلکس اور ایمازون کو درخواست کرنا چاہتا ہوں کہ وہ پاکستانی کونٹینٹ پر سرمایہ کاری کریں کیونکہ پاکستان میں بے پناہ ٹیلنٹ موجود ہے۔ 

پاکستانی قواعد و ضوابط اور اے آئی سی کی تشویش 

ایشیاء انٹرنیٹ کولیشن (اے آئی سی) نے رواں برس14 فروری کے روز کہا کہ حکومتِ پاکستان نے اسٹیک ہولڈرز سے کوئی مشورہ کیے بغیر سوشل میڈیا پر قوانین نافذ کردئیے ہیں، جس پر ہمیں تشویش ہے۔

واضح رہے کہ آئی سی اے سے مراد بڑی ٹیکنالوجی کمپنیوں مثلاً ٹوئٹر، فیس بک، ایمازون، گوگل، بکنگ ڈاٹ کام اور لنکڈ اِن وغیرہ پر مشتمل ہے جس کے منیجنگ ڈائریکٹر جیف پین نے حکومتِ پاکستان کے سوشل میڈیا قوانین پر گہری تشویش کا اظہار کیا۔

سب سے بڑی رکاوٹ، پیمرا 

پاکستان الیکٹرانک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی (پیمرا) ایمازون، گوگل، یو ٹیوب اور دیگر سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کیلئے ایک بڑی رکاوٹ ثابت ہوسکتی ہے کیونکہ حال ہی میں پیمرا ٹک ٹاک اور پب جی کو بین کرکے سوشل میڈیا صارفین کے ہاتھوں بری طرح تنقید کا نشانہ بن چکی ہے۔

ٹک ٹاک اور پب جی کو کالعدم قرار دینے پر پیمرا کو سوشل میڈیا صارفین نے کڑی تنقید کا نشانہ بنایا تھا جبکہ ایمازون کمپنی بھی اسٹریمنگ کی سروسز مہیا کرتی ہے جس کے پیشِ نظر ایمازون کو بھی آزادئ اظہارِ رائے پر قدغن کا سامنا ہوسکتا ہے۔

صارفینِ سوشل میڈیا تو ایک طرف رہے، خؤد وفاقی وزیرِ سائنس و ٹیکنالوجی فواد چوہدری بھی کھل کر پیمرا کے خلاف رائے دیتے ہوئے کہہ چکے ہیں کہ پب جی اور ٹک ٹاک کو بند نہیں کرنا چاہئے تھا۔ 

پاکستان آمد سے کیا ہوگا؟

فرض کیجئے کہ ایمازون پاکستان میں آجائے تو اس سے پاکستانیوں کو کیا فائدہ حاصل ہوسکتا ہے؟ دراصل پاکستانی صارفین ایمازون سے خریدوفروخت تو کر ہی رہے ہیں لیکن ایک اور سہولت جو ایمازون دیتا ہے اسے سب سے زیادہ پذیرائی حاصل ہے۔

ایمازون صارفین اپنا آن لائن اسٹور قائم کرکے ایمازون کے تاجر بن سکتے ہیں جن کا کام صرف آن لائن آرڈر حاصل کرنا ہوتا ہے جبکہ پراڈکٹ کی دستیابی، صارفین تک رسائی، شپ منٹ بھیجنا اور رقم وصول کرکے اسٹور مالک تک پہنچانا ایمازون کی ذمہ داری ہوتی ہے۔

گزشتہ برس یعنی 2019ء میں ایمازون کا مالیاتی حجم 280 اعشاریہ 5 ارب ڈالرز تھا جس سے ایمازون کے مالی قد کاٹھ کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے جبکہ جیف بیزوز ایمازون کمپنی کے مالک کی حیثیت سے دنیا کا امیر ترین شخص ہے۔

حکومتِ پاکستان کو عوامی مطالبہ کو سنجیدگی سے لیتے ہوئے ایمازون کو پاکستان لانے اور آن لائن کاروبار اور آزادئ اظہارِ رائے سے قدغنیں ہٹانے کے معاملات پر سنجیدگی سے غور کرنا ہوگا۔ 

Related Posts