ناانصافی کی بھی حد ہوتی ہے

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

الیکشن کمیشن آف پاکستان کی طرف سے پی ٹی آئی کی حمایت یافتہ سنی اتحاد کونسل کو خواتین اور اقلیتوں کے لیے مخصوص نشستوں میں حصہ نہ دینے کے حالیہ فیصلے نے نئی بحث کو جنم دیا ہے۔

4-1 کی اکثریت کے ساتھ ای سی پی نے فیصلہ دیا کہ سنی اتحاد کونسل مخصوص نشستوں کے لیے نااہل ہے، اس فیصلے کو اکثریت نے غیر منصفانہ قرار دیا، سنی اتحاد کونسل کا استدلال معقول تھا کہ پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ آزاد ارکان کو خود ان کے اپنے فیصلے کے مطابق کونسل کے ممبران کے طور پر تسلیم کیا جانا چاہیے اور پھر اس بنیاد پر وہ مخصوص نشستوں کے اہل ہیں۔

میڈیا رپورٹس کے مطابق اس فیصلے سے سنی اتحاد کونسل کو قومی اور صوبائی اسمبلیوں کی 100 سے زائد نشستوں کا نقصان ہوا ہے۔ مزید برآں بہت سے لوگوں کے خیال میں کونسل کی مخصوص نشستوں کو دوسری سیاسی جماعتوں کے لیے مختص کرنے کے فیصلے نے ایک نئے تنازع کا در کھولا ہے۔

ای سی پی یہ تسلیم کرتے ہوئے کہ “قومی اسمبلی کی نشستیں خالی نہیں رہنی چاہئیں” اعتراف کرتا ہے کہ قومی اسمبلی اور بلوچستان کے علاوہ تین صوبائی اسمبلیوں میں وزیراعظم، وزیراعلیٰ اور اسپیکر کے انتخاب کے وقت مناسب تعداد کی کمی تھی، یعنی جب یہ انتخاب ہو رہے تھے تب مخصوص نشستوں کا فیصلہ نہیں ہوا تھا اور ڈیزرونگ ارکان اسمبلیوں میں موجود نہ تھے۔
یہ صورتحال انتخابی قوانین کی پیچیدگیوں اور اہلیت کے معیار کی تشریح کے ساتھ ساتھ جمہوری نمائندگی کے عمل میں قانونی فریم ورک اور سیاسی حرکیات کے درمیان عدم توازن کی نشاندہی کرتی ہے۔ مخصوص نشستوں سے سنی اتحاد کونسل کو محروم کرنا معاشرے کے تمام طبقات کے لیے منصفانہ نمائندگی کو یقینی بنانے کے آئینی تقاضے کی نفی کرتا ہے اور یہ بہرحال ایک غیر منصفانہ اقدام ہے۔
اس اقدام سے ملک کے اندر پہلے سے موجود اضطراب میں اضافہ ہوجائے گا اور یہ غیر منصفانہ اور غیر دانشمندانہ فیصلہ ملک میں جمہوری استحکام کی راہ میں رکاوٹ بنے گا اور اس کے سیاسی منظر نامے اور ملکی سیاست پر دیرپا اثرات مرتب ہوں گے۔

Related Posts