بلاول بھٹو زرداری کا نواز شریف سے اختلاف، کیا پی ڈی ایم ختم ہو گئی؟

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

بلاول بھٹو زرداری کا نواز شریف سے اختلاف، کیا پی ڈی ایم ختم ہو گئی؟
بلاول بھٹو زرداری کا نواز شریف سے اختلاف، کیا پی ڈی ایم ختم ہو گئی؟

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

گزشتہ روز پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے اپنے پارٹی بیانیے سے ہٹ کر مسلم لیگ (ن) کے تاحیات قائد اور سابق وزیرِ اعظم نواز شریف کے بیان پر ایک ردِ عمل دیا جسے پی پی پی کا ن لیگ سے اختلاف قرار دیا جاسکتا ہے۔

پیپلز پارٹی، مسلم لیگ (ن)، جمعیت علمائے اسلام (ف) اور دیگر درجن بھر کے لگ بھگ سیاسی جماعتوں نے ایک پلیٹ فارم کے ذریعے حکومت کے خلاف تحریک شروع کررکھی ہے جسے پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ یا پی ڈی ایم کہا جاتا ہے۔

جب بھی پی ڈی ایم کی طرح کوئی ایسا پلیٹ فارم بنایا جاتا ہے تو عوام ایک ہی پلیٹ فارم سے الگ الگ طرح کی تقریریں سننے کی توقع نہیں رکھتے کیونکہ اگر پیپلز پارٹی عوام کو مزارِ قائد کی طرف لے جائے اور ن لیگ مینارِ پاکستان کی طرف تو پھر ایک ہی پلیٹ فارم سے وابستہ ہونے کے دعوے بے کار ثابت ہوں گے۔

یہی ہمارا آج کا سوال ہے کہ ایک طرف تو چیئرمین پیپلز پارٹی نواز شریف کے بیانیے کا پوری طرح ساتھ دینے سے گریزاں نظر آتے ہیں اور دوسری جانب ن لیگ کھل کر قومی اداروں کو تنقید کا نشانہ بنا رہی ہے تو کیا پی ڈی ایم ختم ہو گئی ہے؟ آئیے، اسی سوال کے مختلف پہلوؤں اور چند اہم حقائق کا جائزہ لیتے ہیں۔ 

بلاول بھٹو زرداری کا بیان

پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے گزشتہ روز کہا کہ گوجرانوالہ میں پی ڈی ایم کا جو پہلا جلسہ ہوا، وہاں نواز شریف نے فوجی قیادت کا نام لیا، یہ ان کا ذاتی فیصلہ تھا اور جب انہوں نے فوجی قیادت کا نام لیا تو یہ میرے لیے دھچکا ثابت ہوا۔

برطانوی میڈیا کو انٹرویو دیتے ہوئے بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ جب میں نے نواز شریف کے منہ سے براہِ راست نام سنے تو مجھے دھچکا لگا کیونکہ عموماً کوئی پارٹی رہنما اِس طریقے سے بات نہیں کرتا۔ نواز شریف الگ سیاسی جماعت کے قائد ہیں جن کے بیان پر میرا کوئی اختیار نہیں ہے۔

یہاں توجہ طلب بات یہ ہے کہ بلاول بھٹو زرداری نے قبل از جلسہ بحث و تمحیص کا بھی ذکر کیا اور بتایا کہ ہمارا اتفاق اسٹیبلشمنٹ کے خلاف بات کرنا تھا، جس میں کسی ادارے کا نام لینے کی بات نہیں ہوئی تھی۔ یہ طریقہ کار میری اپنی جماعت یعنی پیپلز پارٹی کا بھی نہیں ہے۔ پی ڈی ایم یہ مطالبہ نہیں کرتی کہ فوجی قیادت کو سبکدوش کردیا جائے۔

بیان پر سندھ حکومت کی وضاحت

غور کیا جائے تو چیئرمین کی حیثیت سے بلاول بھٹو زرداری نے ایک دانش مندانہ بیان دیا تھا جس پر سندھ حکومت کو وضاحت کی کوئی ضرورت نہیں تھی، لیکن اہم سوال تو پی ڈی ایم کے بارے میں تھا جس پر سندھ حکومت کو سامنے آنا پڑا۔

صوبائی وزیرِ اطلاعات سیّد ناصر حسین شاہ نے کہا کہ عوام کو چاہئے بلاول بھٹو زرداری کے انٹرویو کو مکمل طور پر پڑھیں، صرف ہیڈ لائنز مت دیکھیں، کیونکہ اس سے چیئرمین پیپلز پارٹی کی بات واضح نہیں ہوگی۔

وزیرِ اطلاعات سندھ نے کہا کہ پی ڈی ایم ایک متفقہ پلیٹ فارم ہے جسے ہم اتفاقِ رائے سے آگے لے کر جائیں گے۔ جو نام پی پی پی نے لیے، اس کے ہمارے پاس ثبوت موجود تھے۔ شق اور ثبوت دو الگ چیزیں ہیں۔ نام اور کردار ہم نے بھی واضح کیے لیکن ثبوتوں کے ساتھ۔

ناصر حسین شاہ نے کہا کہ ہم امید رکھتے ہیں کہ نواز شریف ثبوت کے بغیر کوئی بات نہیں کریں گے اور پی ڈی ایم کا ایجنڈا بھی متفقہ ہے، اپنی سیاسی جدوجہد جاری رکھیں گے۔ 

اسٹیبلشمنٹ سے لڑائی کس کس کی؟

وزیرِ اعظم عمران خان، وفاقی وزراء اور پی ٹی آئی کے صوبائی سیاستدانوں کے بیانات کا جائزہ لیا جائے تو سب یہی کہتے دکھائی دیتے ہیں کہ مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کے بیانیے میں چاہے کسی کو زمین آسمان کا فرق محسوس ہو، لیکن دونوں دراصل این آر او کا مطالبہ کرتے دکھائی دیتے ہیں۔

دوسری جانب ن لیگی اور پیپلز پارٹی رہنماؤں کے بیانات دیکھئے تو وہ سوال پوچھتے ہیں کہ این آر او کس نے مانگا؟ نواز شریف اپنی ایک تقریر میں کہہ چکے ہیں کہ ہمارا مقابلہ عمران خان سے نہیں بلکہ ان کو لانے والوں کے ساتھ ہے۔

نواز شریف کی صاحبزادی مریم نواز کی بات کیجئے تو وہ بھی وزیرِ اعظم عمران خان کو بچہ قرار دیتے ہوئے کہتی ہیں کہ بڑوں کی لڑائی میں بچوں کا کوئی کام نہیں ہوتا، جس سے ثابت ہوتا ہے کہ ن لیگ کی لڑائی اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ ہے۔

ن لیگی رہنما کی گرفتاری اور پی پی پی کا ردِ عمل 

بلاشبہ ن لیگی رہنما کیپٹن (ر) صفدر کی گرفتاری پی ڈی ایم سے بالکل الگ معاملہ ہے تاہم یہ گرفتاری بھی کراچی میں پی ڈی ایم کے جلسے کے موقعے پر ہی عمل میں لائی گئی جس پر ن لیگ کے ساتھ ساتھ پیپلز پارٹی نے بھی سخت ردِ عمل دیا۔

بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ  کیپٹن صفدر کے ساتھ جو ہوا، وہ انتہائی شرمناک تھا جس کی میں مذمت کرتا ہوں اور میں اس پر شرمندگی محسوس کرتا ہوں (کیونکہ سندھ حکومت پیپلز پارٹی کی ہے)۔

انہوں نے کہا کہ کیپٹن صفدر نے جو نعرہ لگایا اس پر اتنا ڈرامہ ہوا، کالعدم تنظیمیں بھی تو قائد کے مزار پر جا کر نعرے لگاتی ہیں تو ایف آئی آر ان کے خلاف کیوں نہیں کٹتی؟ پولیس پر دباؤ ڈالا جائے تو وہ اپنا کام کیسے کرے گی؟  

بیانیے میں واضح تبدیلی اور پی ڈی ایم میں دراڑیں 

پاکستان کی سیاسی تاریخ گواہ ہے کہ چھوٹے موٹے اختلافات ہی بعض اوقات بڑے بڑے سیاسی اتحاد کو ریزہ ریزہ کرنے کا باعث بنے اور پیپلز پارٹی جو پہلے کیپٹن صفدر کی گرفتاری پر سیخ پا تھی، آج نواز شریف کے بیان پر اختلافِ رائے کا اظہار کرچکی ہے۔

قومی سطح پر کوئی بھی سیاسی رہنما اپنی ہی کسی اتحادی سیاسی جماعت کے خلاف ایسا بیان نہیں دے سکتا جب تک کہ اندرونی اختلافات شدت اختیار نہ کریں۔ محسوس ایسا ہوتا ہے کہ پی ڈی ایم کے اتحاد میں دراڑیں پڑ چکی ہیں اور شاید یہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ مزید واضح ہوتی چلی جائیں۔ تحریکِ انصاف اِس کامیابی پر پہلے ہی جشن مناتی نظر آرہی ہے۔ 

Related Posts