نئے وزیر خزانہ کیلئے بڑے چیلنجز

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

پاکستان کے نئے تعینات ہونے والے وزیر خزانہ محمد اورنگزیب کو ایک سنگین چیلنج کا سامنا ہے  جبکہ پاکستان سنگین معاشی صورتحال کا سامنا کررہا ہے، سود در سود بڑھنے والا قرض ملک کے گلے کا پھندا بنتا جارہا ہے۔

ایک تجربہ کار بینکر اور حبیب بینک لمیٹڈ کے سابق سی ای او کے طور پر وسیع تجربہ رکھنے والے نئے وزیر خزانہ اپنی نئی پوزیشن پر مہارت کا خزانہ لے کر آئے ہیں۔ ان کی فوری ترجیحات میں معیشت کو مستحکم کرنا، مہنگائی کی بڑھتی ہوئی شرحوں سے نمٹنا، گرتے ہوئے زرِ مبادلہ کا انتظام کرنا اور خاطر خواہ بیرونی قرضوں سے نمٹنا شامل ہیں۔

بطور وزیر خزانہ اورنگ زیب کا دور ایک اہم لمحے پر شروع ہوا ہے، ملک موجودہ ”اسٹینڈ بائی ایگریمنٹ“ کے تحت قرض کی ادائیگی کیلئے بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) پر انحصار کرنے پر مجبور ہے۔ وزیر خزانہ کی گفت و شنید کی مہارت بہت اہمیت کی حامل ہے کیونکہ ان کا مقصد پائیدار معاشی استحکام کی قیام کی کوشش کرنا ہے۔

منگل کو میڈیا نمائندگان سے اپنی پہلی باضابطہ گفتگو کے دوران نئے وزیر خزانہ نے اپنی مطلوبہ مالیاتی پالیسیوں کے بارے میں آگہی فراہم کی۔ انہوں نے پاکستان کے لیے ایک اور توسیعی آئی ایم ایف پروگرام کے حصول کی ناگزیریت اور حکومت کی جانب سے دیرپا معاشی توازن حاصل کرنے کے عزم پر زور دیا۔

اگرچہ ملک کی معاشی ترقی کیلئے نئے وزیر خزانہ کے منصوبے واضح ہیں، لیکن اہم سوال باقی ہے کہ کیا وزیر خزانہ اپنی حکمتِ عملی کو مؤثر طریقے سے نافذ کرنے کیلئے درکار اختیارات حاصل کرسکیں گے؟ کیونکہ وزیر خزانہ کو آئینی مینڈیٹ کی وجہ سے اضافی پیچیدگیوں کا سامنا ہوسکتا ہے۔

اضافی پیچیدگیوں میں شامل ایک اہم نکتے کے تحت نئے وزیر خزانہ کو 6 ماہ کے اندر پارلیمانی نشست حاصل کرنے کی ضرورت ہوتی ہے، جس سے ان کی معاشی ذمہ داریوں میں سیاسی دباؤ کی ایک تہہ شامل ہوجائے گی۔ نئے وزیر خزانہ کی ان پیچیدہ چیلنجز سے نمٹنے کی صلاحیت ملک کو پائیدار اقتصادی ترقی کی طرف لے جانے میں ان کی کامیابی کا تعین کرے گی۔

ضروری ہے کہ ملک جن سنگین مسائل سے نبرد آزما ہے، ان کا حقیقی ادراک کرتے ہوئے نئے وزیر خزانہ اپنی معاشی صلاحیتوں کا استعمال کرتے ہوئے کامیابی کی وہ منازل حاصل کریں جن کا خواب ایک عام شہری نے دیکھ رکھا ہے کہ پاکستان قرض کی دلدل سے باہر نکلے اور نئے معاشی معاہدوں کے تحت دوست ممالک اور دیگر اسٹیک ہولڈرز سے مذاکرات کرے۔

مذکورہ مذاکرات کے نتیجے میں پاکستان چین سمیت دیگر ممالک سے معاشی امداد کی بجائے باہمی تجارت کے ذریعے بھاری بھرکم زرِ مبادلہ کے حصول کی راہ ہموار کرسکتا ہے۔ ایسے میں سی پیک اور ریکوڈک جیسے منصوبے بھی انتہائی اہمیت کے حامل ہیں جن سے فائدہ اٹھایا جاسکتا ہے اور آئی ٹی انڈسٹری کے فروغ سے فری لانسنگ کی مارکیٹ میں بھی داخل ہوا جاسکتا ہے۔

ایسے میں نئے وزیر خزانہ کو بہت احتیاط کے ساتھ آئی ایم ایف کے ساتھ مذاکرات کرتے ہوئے طویل المدت پروگرام کے حصول پر توجہ مرکوز کرنا ہوگی جس کی ایک جھلک چشمِ فلک نے اس وقت بھی دیکھی جب وزیرخزانہ کے عہدہ سنبھالنے کے تیسرے ہی روز آئی ایم ایف کا وفد پاکستان آپہنچا اور اب عوام کو امید ہوچلی ہے کہ شاید مہنگائی کا یہ طوفان تھمنے کی راہ ہموار ہوسکے۔

Related Posts