خطے میں استحکام کیلئے ایران کوجوبائیڈن کا اعتماد حاصل کرناہوگا

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

امریکی صد ر ڈونلڈ ٹرمپ کے جاتے ہوئے مشرق وسطیٰ کی صورتحال تیزی سے تبدیل ہونے کا امکان ہے، ٹرمپ انتظامیہ کی ایک سب سے بڑی ناکامی ایران بحران سے نمٹنے کی تھی۔ امریکی صدر نے جوہری معاہدے سے دستبرداری اختیار کرلی اور دونوں فریق جنگ کے دہانے پر پہنچ گئے تھے۔

امریکا کے نومنتخب صدر جو بائیڈن نے اس بات کا اعادہ کیا ہے کہ اگر ایران معاہدے کی تعمیل کرنے پر راضی ہوتا ہے تو امریکا جوہری معاہدے میں دوبارہ شامل ہوجائے گا۔

انہوں نے کہا کہ معاہدے میں واپسی خطے میں جوہری ہتھیاروں کی دوڑ سے بچنے کا ایک بہترین طریقہ ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوگا کہ ٹرمپ کے یکطرفہ طور پر اس معاہدے سے دستبردار ہونے اور ’زیادہ سے زیادہ دباؤ‘ مہم کو مسلط کرنے کے بعد ٹرمپ کی عائد پابندیاں ختم ہوجائینگی۔

اگر جوبائیڈن پابندیاں ہٹاتے ہیں تو ایران نے معاہدے میں واپسی پر آمادگی ظاہر کی ہے تاہم ایران کے اعلیٰ سائنسدان محسن فخری زادے کے حالیہ قتل سے صورتحال کافی مختلف ہے۔

ایران نے اس قتل کے لئے اسرائیل کو مورد الزام قرار دیا ہے جوبائیڈن انتظامیہ کے ساتھ تعلقات کو بھی پیچیدہ بنا سکتا ہے۔ بائیڈن یہ بھی چاہتے ہیں کہ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کو جوہری معاہدے پردستخط کرنے والوں میں شامل کیا جائے تاہم عرب ممالک کو ایران کو پابندیوں سے نجات دلانے کے لئے قائل کرنا یہ ایک مشکل کام ہوگا۔

بظاہر بائیڈن کو پابندیاں اٹھانے سے روکنے کے لئے ٹرمپ انتظامیہ نے اپنے آخری دنوں میں ایران کے خلاف جارحانہ مؤقف اپنایا ہے۔ ایران کے وزیر خارجہ نے جوہری سائنسدان کی موت پر ایک ’نفسیاتی قتل‘ حربہ قرار دیا ہے۔

امریکا و اسرائیل کو محسن فخری زادے پرطویل عرصے سے ملک کے فوجی جوہری پروگرام کی رہنمائی کرنے کا شبہ تھا اور انہیں اسرائیلی وزیر اعظم نے خطرہ قرار دیا تھا۔

ایران نے اس قتل کاسخت انتقام لینے کا عزم ظاہر کیا ہے لیکن اس نے فوجی حل کےبجائے سفارتی جواب دینے کا انتخاب کیا ہے۔ ایران جانتا ہے کہ بائیڈن کے لئے مذاکرات کو مزید مشکل بنانے کے لئے اسرائیل ٹرمپ کے آخری دنوں میں تناؤ بڑھانے کاخواہاں ہے۔ ایرانی صدر نے عوامی طور پر کہا ہے کہ ایران لاپرواہی سے جواب دے کر اسرائیل کے جال میں نہیں پڑے گا۔

اس سال کے شروع میں بغداد میں امریکی ڈرون حملے میں جنرل قاسم سلیمانی کے قتل کے بعد ایران میں ردعمل کی بازگشت تاحال سنائی دیتی ہے۔ اس کے جواب میں ایران نے امریکی فوجیوں پر میزائل داغے لیکن کوئی جانی نقصان نہیں ہوا۔ ہوسکتا ہے کہ ایران جوہری سائنسدان کے قتل پر ردعمل نہ دے کیونکہ صورتحال اس سے کہیں زیادہ مختلف ہے اور ٹرمپ کے اقتدار چھوڑنے تک انتظار کریں گے۔

اگر علاقائی تسلط کے لئے تمام اسٹیک ہولڈر اپنی بیان بازی کو روکیں گے نہیں تو خطے کو اور بھی عدم استحکام کا خطرہ ہے۔

بائیڈن کے سامنے بہت بڑی ذمہ داری ہے اور یہ بہت بڑا کام ہے کہ اس بات کو یقینی بنائے کہ ایران اپنے جوہری پروگرام کو روک کرخلیجی ممالک کوبھی مطمئن کرے۔

Related Posts