بگ باس میں عمر ریاض سے نازیبا سلوک،کیا بھارت میں مسلمانوں کیلئے زمین تنگ ہورہی ہے ؟

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

Attack on Umar Riaz’s religion in Bigg Boss

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

بھارت میں مسلمانوں کیلئے تنگ نظر مزید گہری ہوتی دکھائی دیتی ہے، ابھی حال ہی میں بھارتی ٹی وی پروگرام بگ باس میں شریک عمر ریاض کو مدمقابل سمباناگپال نے آنکھوں میں کاجل لگانے کی وجہ سے دہشت گردی قرار دیدیاہے۔

بھارت میں مسلمانوں پر وحشیانہ حملے معمول بن چکے ہیں اور گزشتہ دنوں ملک میں تقریباً چھ مساجد اور مسلمانوں کے ایک درجن سے زائد مکانات اور دکانیں جلا ئی جاچکی ہیں۔انتہا پسندوں کے لیے شاید یہ کافی نہیں تھا اس لیے انہوں نے انٹرٹینمنٹ انڈسٹری میں بھی شرپسندی کو ہوا دینا شروع کردی ہے۔

عمر ریاض
پیشے کے لحاظ سے ڈاکٹر عمر ریاض بگ باس کے سب سے زیادہ پسند کئے جانیوالے عاصم ریاض کے بڑے بھائی ہیں اور اس پروگرام میں انہوں نے اپنے دھیمے انداز اور منفرد حرکات سے ناظرین کو محظوظ کررہے ہیں۔

عمر ریاض یکم جنوری 1990 کو کشمیر میں پیدا ہوئے۔ انہوں نے اپنے کیریئر کا آغاز ممبئی کے سر ایچ این ریلائنس فاؤنڈیشن ہسپتال اور ریسرچ سینٹر میں بطور ڈاکٹر کیااورطب کی مشق کے علاوہ تفریحی شعبے میں بھی کام کیا ہے۔ وہ ٹی وی اداکارہ دلجیت کور اور بگ باس 12 کی مدمقابل صبا خان کے ساتھ میوزک ویڈیوز میں نظر آئے ہیں۔

حالیہ واقعہ
یہ سب بگ باس 15 کے ایک ٹاسک کے دوران شروع ہوا بگ باس میں شریک واحد مسلمان عمر ریاض کو ساتھی سمباناگپال نے دہشت گرد قرار دیتے ہوئے انتہائی متنازعہ ریمارکس دیئے۔

بگ باس 15 کے ناظرین سمبا ناگپال کو عمر ریاض کے ساتھ متنازعہ سلوک کرنے پر حیران ہیں ، سمبا نے عمر کو پول میں دھکیلنے کی کوشش کی لیکن خوش قسمتی سے وہ پول میں گرنے سے بچ گئے ورنہ انہیں شدید چوٹ لگ سکتی تھی۔دونوں کے قریب موجود ایشان سہگل نےجلدی سے آگے بڑھ کرمداخلت کی ۔

سوشل میڈیا پر غم و غصہ
سمبا ناگپال کی جانب سے عمر کو ’آتنک وادی‘ کہنے کے بعد پاکستانی اور بھارتی ٹوئٹر پر ’جسٹس فار عمر ریاض‘، ’عمر ریاض‘ جیسے ٹرینڈز بن گئے اور صارفین نے سمبا کی شو سے بے دخلی کا مطالبہ کیا۔

ایک صارف نے لکھا، ’’اگر عمرریاض کو کہا جائے کہ وہ اپنی شکل سے ’آتنک وادی‘ لگتے ہیں، ارادہ کچھ بھی ہو، سمبا ناگپال کو سبق سکھانے کی ضرورت ہے! لڑکا معصوم نظر آ سکتا ہے لیکن اسے اپنے الفاظ پر نظر رکھنے اور اس میں شامل حساسیت کو ذہن میں رکھنے کی ضرورت ہے۔

مسلمانوں کے ساتھ امتیازی سلوک
حکومت کے نیشنل سیمپل سروے آرگنائزیشن کے 2013 کے اعداد و شمار کے مطابق تقریباً 46 فیصد مسلمان شہری بھارت میں اپنا کاروبارکرتے ہیں جو کسی بھی دوسری کمیونٹی کے مقابلے میں سب سے زیادہ ہے۔

رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ بھارت کے تمام مذہبی گروہوں میں مسلمان سب سے غریب ہیں اور غیر رسمی شعبے میں کم تنخواہ والی ملازمتوں پر توجہ مرکوز کیے ہوئے ہیں۔

مزید یہ کہ اکتوبر میں کرناٹک کے بیلگاوی ضلع میں ایک 25 سالہ مسلمان شخص کی سر قلم کی گئی لاش ریلوے ٹریک پر ملی تھی۔ستمبر میں میرٹھ میں ایک ہندو خاتون نے اپنے مسلمان بوائے فرینڈ کو اس کے منہ پر چپل سے مارا تھا۔

اگست کے دوران ہندوستان بھر میں مسلمانوں کو مارا پیٹا گیا، ہراساں کیا گیا، حملے کئے گئے ، سرعام ذلیل کیا گیا،جئے شری رام اوروندے ماترم کے نعرے لگانے پر مجبور کیا گیا۔دیکھا جائے توبھارت میں مسلمانوں کے خلاف ہندوتوا کے تشدد کی ایک زیادہ مکروہ شکل بھی پائی جاتی ہے ۔

کیا بھارتی زمین مسلمانوں کے لیے تنگ ہوتی جارہی ہے؟
اس طرح کی کارروائیاں ملکی قانون اور بین الاقوامی انسانی حقوق کے قانون کی نفی کرتی ہیں جونسل یا مذہب کی بنیاد پر امتیازی سلوک کو ممنوع قرار دیتے ہیں اور حکومتوں سے تقاضہ کرتے ہیں کہ وہ رہائشیوں کو قانون کے تحت مساوی تحفظ فراہم کریں۔

Related Posts