سانحہ ساہیوال

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

لاہور کی انسداد دہشت گردی کی خصوصی عدالت نے سانحہ ساہیوال میں ملوث چھ ملزمان کو شک کا فائدہ دیتے ہوئے بری کردیا، جنوری 2019پیش آنیوالے اس واقعہ نے پنجاب پولیس کی کارکردگی پر ایک با ر پھر سوال اٹھادیا تھا ، واقعہ کی فوٹیج میں صاف دیکھا گیا کہ جب ایک خاندان ، جس میں تین بچے اور ان کے والدین ڈرائیور کے ساتھ سفر کر رہے تھے کہ پولیس نے مسافروں کو دہشت گرد ہونے کا شبہ کرتے ہوئے روک لیا اور فائرنگ کردی۔

حملے میں دو بچے زندہ بچ گئے جبکہ چار دیگر دن کی روشنی میں ہلاک ہوگئے۔ نابالغوں نے عدالت میں ملزمان کی شناخت نہیں کی لیکن ان کے والدین کے قتل ہوتے دیکھ کر ان کی زندگی ہمیشہ کے لئے صدمے سے دوچار ہوگئی، متاثرہ افراد کے اہل خانہ یہ مقدمہ لڑنے کے لئے تیار نہیں نظر آئےجس سے یہ شبہ پیدا ہواکہ شائد کوئی پس پردہ معاہدے طے پاگیا ہے۔

فریقین کے درمیان عدالت کے باہر کیا ڈیل ہوئی اس سے قطع نظر یہ کیس ہمارے عدالتی نظام اور پراسیکیوشن میں ہونے والی خامیوں کو اجاگر کرتا ہے جس کی وجہ سے اکثر مقدمات میں تاخیر یا بری ہونے کا خدشہ ہوتا ہے۔ ملزمان کو سزا دلوانے کے لئے کافی ویڈیو شواہد موجود تھے لیکن عدالت نزدیک شواہد کافی نہیں تھے مزید یہ کہ یہ فیصلہ حکومت کے لئے بھی باعث شرمندگی ہے جو متاثرین کو انصاف فراہم کرنے میں ناکام رہی۔

حکومت نے اپنی ساکھ بچانے کیلئے عدالتی فیصلے کو چیلنج کرنے کا فیصلہ کیا ہے تاہم متاثرہ خاندان نے کیس کی مزید پیروی کرنے سے معذرت کرلی ہے کہ وہ جانتے ہیں کہ اگر انہوں نے ملزمان کیخلاف مزید قانونی چارہ جوئی کی تو وہ خود بھی گولیوں کا نشانہ بن سکتے ہیں اس لئے حکومت نے عندیہ دیا ہے کہ اگر متاثرہ خاندان کیس نہیں لڑے گا تو حکومت فریق بنے گی اور اگر اس کیس میں واقعی انصاف ہوا تو حکومت کی بڑی کامیابی ہوگی۔

بنگلہ دیش کی عدالت کا ایک فیصلہ بھی میڈیا کی زینت بنا، جس میں انیس سالہ طالبہ کو ہراساں کرنے اور زندہ جلانے جیسے اقدام میں ملوث تمام 16 افراد کو پھانسی کی سزا سنادی گئی ہے،19 سالہ طالبہ نصرت جہاں، جو چٹاگانگ صوبے کے ضلع فینی کے ایک ڈگری مدرسہ میں زیر تعلیم تھی، جنہیں پرنسپل کی جانب سے ہراسانی کا سامنا تھا۔ بہادر طالبہ نے خاموش رہنے کے بجائے حصول انصاف کےلیے کیس دائر کروایا۔

مقامی پولیس نے پرنسپل کو گرفتار بھی کیا، جس کے بعد پرنسپل کے ساتھیوں نے متاثرہ طالبہ کو مصالحت کے بہانے بلاکر مدرسہ کی چھت پر تیل چھڑک کر زندہ جلادیا تھا۔ اس واقعے کے بعد طالبہ نصرت جہاں جھلس کر شدید زخمی ہوگئی تھی اور چند دن بعد اسپتال میں اس کا انتقال ہوگیا۔ اپنی موت سے قبل طالبہ نے تمام ملزمان نے نام وڈیو بیان میں بتادیے تھے۔ لہٰذا پولیس نے نصرت جہاں کے بیان کی روشنی میں تمام ملزمان کو گرفتار کیا۔ چارج شیٹ عدالت میں پیش کی اور صرف باسٹھ دن کی قلیل مدت میں عدالت نے تمام سولہ ملزمان کو پھانسی کا حکم دیا۔

اس مقدمے کی سماعت ملک میں تیزترین مقدمات میں سے ایک تھی جسے باسٹھ دن میں مکمل کیا گیا۔ پراسیکیوٹر نے بتایا کہ بنگلہ دیش میں کوئی بھی قتل سے فرار نہیں ہوسکتا ہے تاہم ساہیوال میں ہونیوالے اندوہناک سانحہ پر فیصلے نے ایک بار پھر پاکستان کے عدالتی نظام کو بے نقاب کردیا۔

وزیر اعظم عمران خان نے پنجاب پولیس میں اصلاحات کا عزم کیا تھا لیکن ایسا لگتا ہے کہ وہ تمام کوششیں رائیگاں گئیں، انہوں نے ان ہلاکتوں پر غم اور غصے کا اظہار کیا تھا اور یقین دہانی کرائی تھی کہ ملزمان کو مثالی سزا دی جائے گی، سانحہ ساہیوال حکومت کیلئے ایک اور ٹیسٹ کیس ہے ، وزیراعظم عمران خان مجرموں کو سزادلانے اور پولیس نظام میں اصلاحات میں کامیاب ہوگئے تو تاریخ ان کو ہمیشہ یاد رکھے گی۔

Related Posts