جامعہ باچا خان چارسدہ میں اسسٹنٹ پروفیسر کو دوسری بار براہ راست پروفیسر اورڈین بنا نا غیر قانونی قرار

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

کراچی : خیبر پختونخوا کے ضلع چارسدہ میں خان عبدالغفار خان کے نام پر قائم باچا خان یونیورسٹی میں خلاف قانون اور متعدد اہل اساتذہ کی حق تلفی کرتے ہوئے اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر منظور احمد خان مشوانی کو براہ راست پروفیسر بھرتی کیا گیا جس کے بعد پروفیسر کی موجودگی میں فیکلٹی کا ڈین بھی مقرر کیا گیا، 14 سے زائد انکوائریوں، معاہداتی اساتدہ کی تقرریوں سمیت مستقل بھرتیوں کی اسکروٹنی  کمیٹیوں کا کنوینئر بنایا گیا، ہائرایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ پشاور کی جانب سے سنڈیکیٹ اجلاس بلا کر منظور مشوانی کو واپس اسسٹنٹ پروفیسر بنانے کاحکم دیدیا گیا۔

ایم ایم نیوز کو موصول ہونے والی دستاویزات کے مطابق ہائر ایجوکیشن آرکائیو اینڈ لائبریریز ڈیپارٹمنٹ  پشاور کے سیکشن افسرIII  شاہ نواز خان کی جانب سے جاری کردہ لیٹر نمبر SO-III/6-17(6)M/GS/26-21/25153 میں وائس چانسلر ڈاکٹر بشیر احمد کو کہا گیا ہے کہ آپ کو پرنسپل سیکریٹری برائے گورنر کی جانب سے 4مارچ کو جاری ہونے والے لیٹر کے بعد یہ دوسرا لیٹر جاری کیا جارہا ہے۔

لیٹر میں مزید لکھا گیا ہےآپ کو دیئے گئے حوالہ شدہ نوٹ کے پیرا 6 میں شامل تجویز گورنر خیبر پختونخواکی جانب سے منظور شدہ ہے جس کے مطابق وائس چانسلر ایک ہفتے یعنی 18مارچ تک سنڈیکیٹ کا اجلاس بلا کر  اسسٹنٹ پروفیسر سے پروفیسر بنانے کے معاملے کو رکھا جائے اور منظور مشوانی کو واپس اسسٹنٹ پروفیسرتعینات کیا جائے تاکہ کسی کی حق تلفی نہ ہو۔

سیکریٹری برائے گورنر کی جانب سے دی گئی ہدایات میں لکھا گیا ہے کہ وائس چانسلر باچا خان یونیورسٹی کو واضح طو رپر بتایا جائے کہ ہائر ایجوکیشن کمیشن کی ہدایات کے مطابق کسی بھی صورت پلانٹ پروٹیکشن کے اسسٹنٹ پروفیسر کو Entomologyکا پروفیسر نہیں بنایا جاسکتا اس لئے سختی سے عمل درآمد کیا جائے، ہائر ایجوکیشن کمیشن کے4ستمبر 2019کو جاری کردہ لیٹر نمبر No.5/170/HEC/LAW/PHC/2019/2741 کا حوالہ بھی دیا گیا ہے ۔

ہائر ایجوکیشن کمیشن کی جانب سے جاری کردہ ہدایات کے مطابق پلانٹ پروٹیکشن میں پی ایچ ڈی  ہولڈر کو کسی بھی صورتEntomology کا پروفیسر نہیں بنایا جاسکتا کیوں کہ یہ مضمون بنیادی طو رپر کیڑے مکوڑوں، حشرات الارض سے متعلق ہے جبکہ ان کی بنیادی تعلیم، شجر، درختوں اور ان کی ادویات سے متعلق ہے لہٰذا ایسا شخص دوسرا مضمون پڑھاسکتا ہے نہ بہتری لاسکتا ہے نہ اس میں کوئی ترقی کے کورسز کراسکتا ہے اور نہ ہی ایم ایس و پی ایچ ڈی کے اسکالربنا سکتا ہےجس کی وجہ سے ان کی اس بنیا دپر ترقی ہی غلط ہے۔ اس لئے ایک ہفتے کے اندر سنڈیکیٹ کا مخصوص اجلاس کر اس پر عمل درآمد کرکے رپورٹ پیش کی جائے۔

معلوم ہوا ہے کہ ڈاکٹر منظور احمد مشوانی کا 2016 کے سلیکشن بورڈمیں گریڈ 19 کے اسسٹنٹ پروفیسر کا کل تجربہ 3 سال 4 ماہ اور 22 روز تھا جس کے باوجود ان کو گریڈ 21 پر ترقی دیکر پروفیسر بنایا گیا تھا جس کی وجہ سے 12 اسسٹنٹ پروفیسر جو ان سےپہلے پی ایچ ڈی کر چکے تھےان کی حق تلفی ہوئی جبکہ اس وقت دو ایسوسی ایٹ پروفیسرز کی بھی حق تلفی کی گئی تھی۔

بعد ازاں 2017 میں اساتذہ کی جانب سے اس پر اعتراضات اٹھائے گئے جس کی وجہ سے ڈاکٹر منظور احمد مشوانی کو واپس اسسٹنٹ پروفیسر بنا دیا گیا تھا جس کے بعد اب ایک بار پھر 2021میں معاملے کو سنڈیکیٹ کے ایجنڈے میں لایا گیا اور وائس چانسلر نے ڈاکٹر منظور احمد مشوانی کو تمام رولز کو بالائے طاق رکھتے ہوئے 19گریڈ اسسٹنٹ پروفیسر سے 21گریڈ میں پروفیسر بنا دیاتھا۔

جس کے بعد یونیورسٹی کے وائس چانسلر ڈاکٹر بشیر احمد کی ہدایات پر رجسٹرار ڈاکٹر خالد سعید کی جانب سے پروفیسر ڈاکٹر سلیم شاہ اور ڈاکٹر منظور احمد مشوانی کے ناموں پر مشتمل ڈین برائے سائنسز کی سفارشی سمری ہائر ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ کو بھیجی ، جہاں سے سمری وزیر اعلیٰ کے پی کو ارسال کی گئی ،جہاں منظوری کے بعد گورنر ہاؤس کو بھیجی گئی اورمنظوری کے بعد ڈاکٹر منظور سلیم شاہ کے بجائے ڈاکٹر منظوراحمد مشوانی کو فیکلٹی آف سائنسز کا ڈین بنانے کی منظوری بھی دے دی گئی تھی۔

ڈاکٹر منظور احمد مشوانی کوڈین بنائے جانے کے بعد یونیورسٹی میں مختلف اساتذہ و ملازمین کے خلاف قائم 14مختلف کمیٹیوں کا کنوینئر بنایا گیا جہاں سے مخالف اساتذہ کے خلاف انکوائری رپورٹس بنائی گئی تاکہ ان کو مبینہ طو ر پر بلیک میل کیا جاسکے ، اس کے بعد معاہداتی مدت کےلئے بھرتی ہونے والے اساتذہ کی کمیٹی کے ساتھ ساتھ ریگولر بھرتی ہونے والوں کی اسکروٹنی کمیٹی کا کنوئینر بھی بنایا گیا جبکہ ڈین بننے کے ساتھ ہی ڈاکٹر منظور احمد مشوانی سلیکشن بورڈ، سنڈیکیٹ اور سینیٹ کے از خود ممبر بھی بن گئے تھے۔

مزید پڑھیں:جامعہ ہری پورمیں ڈاکٹر ایوب خان کی قائمقام وائس چانسلر تعیناتی کا فیصلہ

ڈین کی تعیناتی کے بعد معاملہ مزید کھلا جس کے بعد اساتذہ تنظیموں کی جانب سے بھی اعتراض سامنے آیا جس کے بعد سیکریٹری برائے ہائر ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ پشاور کو شکایت کی گئی جس کے بعد اب ان کو واپس اسسٹنٹ پروفیسر بنانے کا لیٹر جاری ہوا ہے ۔

واضح رہے کہ اگر ڈاکٹر منظور احمد مشوانی کو ہٹایا گیا تو اس صورت پروفیسر ڈاکٹر وقار ، پروفیسر ڈاکٹر خالد سعید اور پروفیسر سلیم شاہ کے ناموں پر مشتمل3 نام ہائر ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ کے ذریعے وزیر اعلیٰ ہاؤس و گورنر ہائوس بھیجے جائیں گے جہاں سے دوبارہ ڈین کی تعیناتی ہو گی ۔

تاہم یہاں یہ سوال اٹھایا جارہا ہے کہ ڈاکٹر منظور احمدمشوانی کی بطور ڈین تعیناتی کے بعد ان کی جانب سے بورڈ آف ایڈوانس اسڈیز اینڈ ریسرچ میں کئے فیصلوں اوربورڈ آف فیکلٹی میں طلبہ کے ریسرچ پروپوزل سمیت نئے کورسز سے متعلق فیصلوں کے بارے میں کیا فیصلہ کیا جائے گا ؟۔

اس حوالے سے باچا خان یونیورسٹی کے وائس چانسلر میری ٹوریس پروفیسر ڈاکٹر بشیر احمد نے رابطہ کرنے پر بتایا کہ ہمیں لیٹر ضرور ملا ہے مگر سنڈیکیٹ کا اجلاس نہیں ہو گا کیوں کہ 2014 میں بھی ایک بار ڈاکٹر منظور احمد مشوانی کے ساتھ ایسا ہوا، 2016میں ان کے ساتھ ایسا ہوا، 2019 میں ان کے ساتھ پھر ایسا ہوا اور اب جب ان کو گورنر نے ڈین مقرر کیا ہے تو ہم کیسے ان کی بات کو مان لیں ، ویسے بھی جامعہ میں صرف دو اساتذہ ہیں جن کو ترقی نہیں ملی وہ اس طرح کے لیٹر نکلواتے رہے ہیں۔

Related Posts