چین کے خلاف ایک اور مہم

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

 بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو (بی آر آئی) کے تحت چین کے معاشی پھیلاؤ اور بڑھتی ہوئی سیاسی خیر سگالی اور تعاون کو روکنے کے لئے چین کو دنیا بھر میں بدنام کرنے کے لئے مستقل کوششیں کی جارہی ہیں۔

چین پاکستان اقتصادی راہداری (سی پی ای سی) کو پورے بی آر آئی فریم ورک کی ایک ریڑھ کی ہڈی سمجھا جاتا ہے اور چین کی مستقبل کی عالمی تجارت اور معاشی رفتار اور اس کی یورپ اور دوسری طرف وسط ایشیائی ریاستوں کے ساتھ رابطےچین اور پاکستان کے دو طرفہ تعاون میں اضافہ پاکستان اور امریکا سے نفرت کرنے والوں کے لئے کسی بھی وجہ یا بغیر کسی وجوہ کی بناء پر امریکہ سے محبت کرنے والوں کے لئے تنازعہ کی مستقل ہڈی ہے۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ امریکہ نے پاکستان کی سماجی و معاشی ترقی میں بہت بڑا کردار ادا کیا ہے۔ یہ حوالہ دیا جاتا ہے کہ امریکہ نے کئی دہائیوں میں خطے میں اسٹریٹجک شراکت داری کے علاوہ تقریباً 7.7 بلین امریکی ڈالر کی گرانٹ دی ہے اور اب ہ بحث بھی جاری ہے کہ اصل میں پاکستان میں کیا خرچ ہوا ہے۔ ہم ابھی تک اس بارے میں اندھیرے میں ہیں کہ پاکستان اور خطے میں امریکی مفادات اور مقاصد کے تحفظ کے لئے کتنے پیسے خرچ ہوئے۔ یقینی طور پر ہمارے پاس کوئی جواب نہیں ۔

چونکہ پاکستان چین کے ساتھ قریب تر ہوتا جارہا ہے اسی طرح پاکستان میں بدنیتی پر مبنی مہمات ابھر رہی ہیں۔ مفکرین کا خیال ہے کہ پاکستان کو معاشی اور تذویراتی تنازعات سے بچنے کے لئے چین کے ساتھ زیادہ ہم آہنگی اورتوازن قائم کرنا ہوگا لیکن خوش قسمتی سے یا بدقسمتی سے عوام کی اکثریت چین کے بارے میں زیادہ جذباتی ہے اور بدقسمتی سے امریکہ کو پاکستان میں بنیادی طور پر خطے میں اپنے مفادات کے لئے یہاں وسائل کے استحصال کرنے والے کے طور پر سمجھا جاتا ہے۔

امریکہ کو پاکستان میں معدوم ہوتے ہوئے عوامی حالات کا عقلی طور پر ادراک ہوچکا ہے جبکہ چین مزید جگہ حاصل کررہا ہے۔ شاید اسی لئے پاکستان کو ہر دوسرے دن یہ واضح کرنا پڑتا ہے کہ وہ بلاک کو تبدیل نہیں کررہا ہے،چونکہ کوکورونا وائرس کی تیسری لہر دنیا کو تیزی سے اپنی گرفت میں لے رہی ہے اس لئے کوروناوائرس کے سلسلے میں چین کے خلاف پاکستان میں پرانی بدنیتی پر مبنی مہم دوبارہ شروع کی گئی ،

کورونا کے کیسز کی بڑھتی ہوئی شرح اور یومیہ بڑھتی اموات نے پاکستان میں انتشار اور خوف و ہراس پھیلادیا ہے۔ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن نے حال ہی میں کم سے کم کورونا ٹیسٹ کرنیوالے ممالک کی فہرست جاری کی ہے اور پاکستان اس میں سرفہرست ہے او اگر روزانہ ٹیسٹوں کی تعداد ضرورت کے مطابق وسیع پیمانے پر کی جاتی ہے تو ان کیسزمیں تیزی سے اضافہ ہوگا۔ اس سے عوامی مایوسی میں مزید اضافہ اورخوف اور انتشار پھیل جائے گا اور منفی پروپیگنڈا کرنیوالوں کو افواہوں کیلئے مزید مواقع مل جائینگے۔

ایک پوسٹ سوشل میڈیا پلیٹ فارم اور واٹس ایپ کے ذریعے پھیلائی جارہی ہے کہ “نوبل انعام یافتہ جاپانی معالج ، سائنسدان اور امیونولوجسٹ ڈاکٹر تسوکو هونجو نے یہ کہتے ہوئے میڈیا میں سنسنی پیدا کردی کہ وائرس قدرتی نہیں ہے اگر یہ قدرتی ہے تو اس نے اس طرح پوری دنیا کو متاثر نہیں کیا ہوگا کیونکہ یہ نوعیت پر منحصر ہے ، مختلف ممالک میں درجہ حرارت مختلف ہے۔ اگر یہ قدرتی ہوتا تو اس کا اثر صرف ایک ہی درجہ حرارت والے ممالک پر ہوتا۔ اگر یہ قدرتی ہوتا تو سرد جگہوں پر پھیل جاتا لیکن گرم مقامات پر مر جاتا۔ میں نے جانوروں اور وائرس سے متعلق 40 سال کی تحقیق کی ہے،یہ قدرتی نہیں ہے

یہ خودتیار کیا گیا ہے اور یہ وائرس مکمل طور پر مصنوعی ہے۔ میں اسرائیل میں 4 سال سے کام کر رہا ہوں۔ میں اس لیبارٹری کے تمام عملے کو بخوبی جانتا ہوں۔ میں نے ان سب کو کورونا حادثے کے بعد فون کیا تھا لیکن ان کے فون بندہوچکے ہیں۔ اب یہ سمجھ گیا ہوں کہ یہ تمام لیبارٹری ٹیکنیشن زیرزمین ہیں یا ان کو ماردیاگیاہے۔ آج تک کے اپنے سارے علم اور تحقیق کی بنیاد پر میں یہ 100٪ فیصداعتماد کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ کورونا قدرتی نہیں ہے۔ یہ چمگادڑ سے نہیں آیا تھا۔ اسرائیل نے اسے بنایا”۔

یہ پیغام اصل میں فروری 2020 میں شروع کیا گیا تھا لیکن ڈاکٹر تسوکو هونجو نے عالمی سطح پر معروف خبر رساں ایجنسی رائٹرز کے ذریعے اس کی واضح تردید کی ہے۔ اسرائیل سے چین کا نام تبدیل کرنے کے بعد اب یہ پاکستان میں پھیلایا جارہا ہے جو ایک دیرینہ دوست کیخلاف سازش قراردی جاسکتی ہے۔

اس وقت ہر مخلص پاکستانی کو پاکستان میں چین کے خلاف ہونے والی اس طرح کی بدنیتی پر مبنی مہمات سے محتاط رہنا ہوگا اور اس طرح کی بد عنوانی کو روکنے کے لئے فعال کردار ادا کرنا ہوگا۔

Related Posts