طالبان کا 85 فیصد سے زائد افغانستان پر قبصہ، کیا حکومتی رٹ برقرار رہ پائے گی؟

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

طالبان جنگی کارروائیاں فوری روک دیں‘ امریکہ سمیت 16 ملکوں کا مطالبہ
طالبان جنگی کارروائیاں فوری روک دیں‘ امریکہ سمیت 16 ملکوں کا مطالبہ

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

پاکستان کیلئے افغانستان ہمیشہ سے ایک اہم ملک رہا ہے جہاں خانہ جنگی نے ہمارے امن پر بھی برے اثرات مرتب کیے۔ افغان طالبان نے حال ہی میں دعویٰ کیا کہ ہم نے ملک کے 85فیصد حصے پر کنٹرول حاصل کر لیا ہے۔

ترجمان افغان طالبان سہیل شاہین نے جمعے کے روز بین الاقوامی میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ افغانستان کے تمام سرحدی علاقوں پر طالبان کا قبضہ ہے۔ ملک میں نیا نظام لانے کیلئے کوششیں شروع کردی گئی ہیں۔

بے شمار لوگ طالبان کو دہشتگرد سمجھتے ہیں کیونکہ امریکا 11ہزار 925 کلومیٹر دور سے چل کر افغانستان میں دہشتگردی ختم کرنے کیلئے آیا اور اب 20 سال بعد واپس جارہا ہے۔ امریکی فوج کے انخلاء کے بعد کیا افغان حکومت کی رٹ برقرار رہ سکے گی؟ آئیے غور کرتے ہیں۔

ہمسایہ ملک افغانستان کا جغرافیہ

اسلامی جمہوریہ افغانستان بنیادی طور پر چاروں طرف سے خشکی سے گھرا ہوا ملک ہے جس کی سرحد مشرق اور جنوب میں پاکستان، مغرب میں ایران، شمال میں ترکمانستان، ازبکستان اور تاجکستان اور شمال مشرق میں چین سے ملتی ہے۔

مجموعی طو رپر 6 لاکھ 52 ہزار مربع کلومیٹر رقبے پر محیط اس ملک میں جابجا سنگلاخ پہاڑ نظر آتے ہیں۔ افغانستان کی آبادی کم و بیش 3 کروڑ 20 لاکھ نفوس پر مشتمل ہے جن میں پشتون، تاجک، ہزاروی اور ازبک قومیت کے لوگ پائے جاتے ہیں۔ 

افغانستان میں طالبان اور داعش کی صورتحال 

گزشتہ روز ملک کے 85 فیصد حصے پر قبضے کا دعویٰ سامنے آیا۔ افغان طالبان نے کہا کہ ہم اپنے ملک میں ایسا نظام لانا چاہتے ہیں جو اسلامی تعلیمات کے عین مطابق ہو اور اس میں افغان روایات کا اتحاد ہو۔

طالبان کے ترجمان سہیل شاہین نے کہا کہ ہم اپنے وعدے پر قائم ہیں۔ افغان سرزمین پڑوسی ممالک سمیت کسی کے خلاف استعمال کرنے کی اجازت نہیں دیں گے۔ روس کو طالبان سے کوئی تشویش نہیں۔ داعش کو ملک کے شمالی علاقوں سے نکال چکے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ داعش کی قیادت کابل میں موجود ہے جہاں 2 ہزار 600 جنگجوؤں نے کابل انتظامیہ کے سامنے ہتھیار ڈال دئیے۔ داعش غیر ملکی ہاتھوں میں کھیل کر سب کیلئے خطرہ بن رہی ہے۔ 

جنگجو گروہ طالبان کے زیرِ قبضہ علاقے 

افغان طالبان کے زیرِ قبضہ علاقوں میں صوبہ لوگر کے 3، صوبہ لغمان کے2، صوبہ بگلان کے 10، صوبہ بادغیس کے 3، صوبہ ہلمند کے 2، صوبہ ڈائی کنڈی کے 2، صوبہ قندھار کے 8،  صوبہ ہرات کے 3اور صوبہ میدان ورک کے 5علاقے شامل ہیں۔ 

اس کے علاوہ صوبہ غزنی کے 7، صوبہ فریاب کے 10، صوبہ سریئے پل کے 4،  صوبہ فراہ کے 4، صوبہ غورکے 4، صوبہ ارزگان کے 4، صوبہ جوزجان کے 7، صوبہ تخارکے 16، صوبہ سمنگان کے 4، صوبہ بلخ کے 9 اور صوبہ قندوزکے 5 علاقے شامل ہیں۔ 

مزید برآں صوبہ زابل کے 5، صوبہ پکتیا کے 10، صوبہ بدخشاں کے 23، صوبہ نورستان کے 2، صوبہ پروان کے 2، صوبہ نمروز کے 1، صوبہ پکتیکا کے 3، صوبہ کپیسا کے 2 اور صوبہ ننگرہار کے 1 علاقے پر بھی طالبان کا قضہ ہے۔ 

انتظامی اعتبار سے افغانستان میں 34 صوبے ہیں اور افغان فورسز طالبان کی پیش قدمی روکنے میں ناکام نظر آتی ہیں، اس کے باوجود افغان حکومت نے طالبان کا 85فیصد علاقے پر کنٹرول کا دعویٰ مسترد کردیا ہے۔ 

امریکا کا انخلاء اور طالبان کی معاملہ فہمی 

امریکا کی جانب سے گزشتہ روز یہ اعلان سامنے آیا کہ ہم ستمبر تک نہیں بلکہ 31 اگست تک مکمل طور پر افغانستان چھوڑ دیں گے۔امریکا کے سہارے کھڑی افغان فوج نے ہتھیاروں سمیت طالبان میں شمولیت اختیار کرنا شروع کردی ہے۔ ہزاروں فوجی تاجکستان بھاگ گئے۔

چند روز قبل بگرام ائیربیس رات کی تاریکی میں امریکا نے خالی کردیا جو امریکی طاقت کا اہم مرکز سمجھاجاتا تھا۔ افغان طالبان اگر بگرام ائیر بیس پر قابض ہو گئے تو کابل کو فتح کرنا چٹکیوں کا کھیل ثابت ہوگا۔

بعض تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ افغان طالبان 1996ء کے مقابلے میں بڑے معاملہ فہم، سوجھ بوجھ رکھنے والے اور سیاسی صلاحیتوں کے حامل ہیں۔ سراج حقانی کے صاحبزادے طالبان میں فعال ہیں اور تعلیم یافتہ نوجوان ان کی فیصلہ سازی کرتے ہیں۔

حکومتی رِٹ کا مسئلہ 

اشرف غنی حکومت کا کہنا ہے کہ ہم جنگجوؤں کو دھکیلنے کی کوشش کر رہے ہیں تاہم حکومتی رٹ کی صورتحال بے حد تشویشناک ہے کیونکہ طالبان نے مغربی افغانستان میں ایران اور ترکمانستان سرحدوں کے ساتھ دونوں اہم راستوں پر قبضہ کر لیا، اس سے ایران سے لے کر چین تک افغانستان کے مغربی سرحدی علاقے غیر محفوظ ہوچکے ہیں۔

ماسکو میں دئیے گئے طالبان عہدیداران کے ایک وفد کے بیان کے مطابق طالبان نے افغانستان کے 400 میں سے 250 اضلاع پر مکمل کنٹرول حاصل کر لیا ہے۔ ترجمان افغان وزارتِ داخلہ طارق آریان نے کہا کہ ہم طالبان کو تازہ ترین پوزیشنز سے پیچھے ہٹانے کی کوشش کر رہے ہیں۔

حکومتی رٹ کا برقرار رہنا بے حد مشکل نظر آتا ہے اور جس تیزی سے افغان طالبان ملک کے مختلف علاقوں پر قبضہ کرتے جارہے ہیں، افغانستان میں طالبان کی نئی حکومت کا اعلان نوشتۂ دیوار نظر آتا ہے۔ 

Related Posts