عالمی طاقتیں پاکستان، افغانستان کو لڑوانا چاہتی ہیں، افغان قونصلر جنرل

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

عالمی طاقتیں پاکستان اور افغانستان کے درمیان غلط فہمیاں پیدا کرکے دونوں برادر ملکوں کو لڑوانا چاہتی ہیں، ہمیں محتاط رہنا ہوگا، مغربی میڈیا طالبان حکومت کے خلاف مسلسل یک طرفہ پروپیگنڈا کر رہا ہے۔

ان خیالات کا اظہار کراچی میں افغان ایکٹنگ قونصل جنرل سید عبد الجبار تخاری نے مختلف اخبارات اور چینلز سے وابستہ صحافیوں کے ساتھ قونصل خانے میں ہونے والی ایک نشست کے دوران گفتگو کرتے ہوئے کیا۔

یہ بھی پڑھیں:

سعودی حکومت کا اہم اقدام، جدہ ایئرپورٹ سے حرم شریف تک زائرین کو مفت شٹل سروس ملے گی

عبد الجبار تخاری نے کہا کہ افغانستان اور پاکستان آپس میں بہت گہرے رشتوں میں منسلک ہیں، پاکستان نے ہمیشہ ہماری معاونت کی ہے، ہماری حکومت آنے کے بعد افغانستان سے پاکستان مخالف بہت سے کیمپ بند ہوگئے، چند ایک جو متنازع مسائل ہیں، اس پر ہمیں مسلسل بات چیت اور ایک دوسرے کے موقف کو سمجھنے کی ضرورت ہے تاکہ مل بیٹھنے سے وہ غلط فہمیاں ختم ہوں جو تعلقات میں تلخی اور تناؤ کا باعث بنتی ہیں۔

عبد الجبار تخاری نے کہا کہ کچھ عرصے سے پاکستان بالخصوص سندھ میں بچوں، بزرگوں اور خواتین سمیت افغان مہاجرین کے ساتھ نا مناسب سلوک روا رکھا جا رہا ہے، ایسا سلوک خود پاکستان کے اپنے مفاد میں نہیں، اس سے افغان عوام کے دلوں میں پاکستان کا امیج متاثر ہوجاتا ہے۔ ہماری درخواست ہے کہ جہاں کہیں مسئلہ ہو، اسے باہم گفت و شنید اور ہم آہنگی سے پر امن انداز میں حل کرنے کی کوشش کی جائے۔

انہوں نے کہا کہ طالبان کی آمد سے افغانستان میں امن آیا، روڈ انفرا اسٹرکچر بن رہا ہے، تعلیمی ادارے اور شفا خانے بن رہے ہیں، فیکٹری لگ رہی رہی ہیں، عوام کو آہستہ آہستہ روزگار مل رہا ہے، مائننگ کے منصوبے شروع ہیں، اتنے سارے اچھے اور مثبت کاموں کے باوجود میڈیا پر ہمارے بارے میں منفی باتیں ہی پھیلائی جا رہی ہیں، جیسے ہم کوئی ایک بھی اچھا کام نہ کر رہے ہوں۔

انہوں نے میڈیا سے شکوہ کیا کہ جہاں ہم پر بہت زیادہ تنقید کی جاتی ہے وہاں ہمارے اچھے کاموں کو بھی اجاگر کرنا ہمارا حق ہے، میڈیا کو انصاف اور ذمے داری کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔

انہوں نے بتایا کہ خواتین کی تعلیم کے متعلق بہت کچھ کہا جا رہا ہے جو زیادہ تر منفی پروپیگنڈے پر مشتمل ہے، ہم نے کبھی خواتین کی تعلیم کی مخالفت نہیں کی، در اصل دوحہ معاہدے میں ہم دنیا سے یہ منوا چکے ہیں کہ افغانستان میں اسلامی نظام نافذ ہوگا، اب ہم اسلامی نظام کے دائرے میں خواتین کی تعلیم کیلئے مناسب ماحول بنانے کے انتظام میں لگے ہوئے ہیں، اس کا مطلب یہ نہیں کہ ہم خواتین کی تعلیم کے ہی مخالف ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ پرائیویٹ سیکٹر میں جہاں مناسب، علیحدہ اور با پردہ انتظام موجود ہے وہاں خواتین بلا روک ٹوک تعلیم حاصل کر رہی ہیں، سرکاری سطح پر البتہ ہمیں فی الوقت مسائل کا سامنا ہے، ان مسائل سے نمٹتے ہی خواتین کی تعلیم بھی شروع کر دی جائے گی۔

Related Posts