پاک ایران گیس منصوبے پر عملدرآمد کا خوش آئند اقدام

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

عرصے بعد ایک حوصلہ افزا خبر یہ سامنے آئی ہے کہ پاکستان نے بالآخر 15 سال بعد ایران کے ساتھ گیس پائپ لائن منصوبے پر عمل در آمد کی ٹھان لی ہے۔

ذرائع ابلاغ پر آنے والی تفصیلات کے مطابق پاکستان نے فائنلی فیصلہ کرلیا ہے کہ وہ اس منصوبے کے حوالے سے اپنے حصے کی ذمے داری پوری کرتے ہوئے ایرانی بارڈر سے لیکر گوادر تک 81 کلومیٹر کی پائپ لائن بچھانے پر جلد کام کا آغاز کرے گا۔

یہ اہم فیصلہ نگران وفاقی کابینہ کی توانائی کمیٹی نے کیا ہے، بتایا گیا ہے کہ ایرانی بارڈر سے گوادر تک پائپ لائن کی تعمیر کے اس منصوبے پر تقریباً 45 ارب روپے لاگت آئے گی۔

یہ بات واضح ہے کہ پاکستان کو اپنی قومی ضرورت کی تکمیل کیلئے گیس کی بہت بڑی مقدار درکار ہے، وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس حوالے سے طلب اور رسد میں خلیج بڑھتی جا رہی ہے، جس کے نتیجے میں ملک کے طول و عرض میں گھریلو اور کمرشل دونوں طرح کے صارفین کو گوناگوں مسائل اور مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔

پاکستان اپنی ضرورت کی گیس کی خاصی مقدار مقامی ذرائع اور وسائل سے حاصل کرتا ہے، تاہم مقامی وسائل اور ذخائر پہلے ہی قومی ضروریات کیلئے ناکافی ہونے کے باعث پاکستان کو طلب کا خلا پر کرنے کیلئے مختلف ذرائع سے گیس درآمد کرنا پڑ رہی تھی، مگر اب کچھ برسوں سے گیس کی مقامی پیداوار میں بھی مسلسل کمی واقع ہونا شروع ہوگئی ہے، جس کے نتیجے میں گیس بحران پیچیدہ رخ اختیار کرتا جا رہا ہے۔

پاکستان کو اپنی بڑھتی ہوئی آبادی کی گیس کی گھریلو اور صنعتی (کمرشل) ضرورت پوری کرنے کیلئے سخت چیلنج درپیش ہے، اس چیلنج سے نمٹنے کیلئے پاکستان کے پاس قطر، آزربائیجان اور سینٹرل ایشیا سے گیس درآمد کا آپشن بھی ہے اور پڑوسی ملک ایران سے گیس کی درآمد کی بھی گنجائش ہے۔

ان دونوں آپشنز میں ایران سے گیس کی درآمد نسبتاً پاکستان کو کم اخراجات میں پڑ سکتی ہے، تاہم پاکستان مغربی دباؤ کے زیر اثر اس سستے آپشن کو اختیار کرنے سے گریز کرتا آرہا تھا، جس کا نقصان بہرحال پاکستان کو ہی ہو رہا تھا۔

اس پس منظر میں ایران کے ساتھ معطل شدہ اس منصوبے پر دوبارہ عملدرآمد کا فیصلہ خوش آئند ہے۔ اس سے جہاں ملکی ضرورت کے مطابق گیس بہت کم خرچے پر دستیاب ہوگی، وہاں اس سے گیس بحران کے باعث رکا ہوا صنعتی پہیہ بھی دوبارہ چل پڑے گا۔

اس کے ساتھ ہی پاکستان ایران کی طرف سے اب تک اس منصوبے کو معرض تعطل میں ڈالنے پر 18 ارب ڈالر کے بھاری جرمانے کی ادائی سے بھی بچ جائے گا اور ایل این جی کے مقابلے میں ایران سے 750 ملین کیوبک فٹ گیس انتہائی سستے داموں حاصل کر پائے گا۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ پاکستان سی پیک منصوبوں کے ساتھ ساتھ ایران سے جڑے اس منصوبے کو بھی تمام بیرونی دباؤ کو مسترد کرکے پورے عزم کے ساتھ پایہ تکمیل کو پہنچائے اور مغرب کی طرف دیکھتے رہنے کی پالیسی ختم کرکے ریجنل کو آپریشن کی آزادانہ راہ اختیار کرے، اسی میں قوم کی معاشی فلاح و بہبود کا راز مضمر ہے۔

Related Posts