فلسطین اور گمراہ کن پروپیگنڈے

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

ہمارے حلقہ احباب میں بالعموم جو لوگ شامل ہوتے ہیں، ان کی بڑی تعداد ایسی ہوتی ہے جن کی طاقت اور فیصلوں کے مراکز تک رسائی نہیں ہوتی۔ سو یہ ہمارے سامنے کسی قومی یا عالمی صورتحال پر جو بھی تبصرے کر رہے ہوتے ہیں یہ بنیادی طور پر ”لاعلمی“ پر مشتمل محض فرضی تخمینے ہوتے ہیں۔

ہمارا شارہ مجالس میں موجود ان تکے بازوں کی جانب ہے جن کی مسلسل تکے بازی بڑی شخصیات کو بھی کسی غلط رائے تک پہنچا کر گمراہ کردیتی ہے۔ مسئلہ فلسطین کے حوالے سے مسلسل یہی دیکھنے کو مل رہا ہے۔

جو اپنی گلی کے بھی تمام افراد کو نہیں جانتا، وہ ہمیں یہ باور کرانے کی کوشش کر رہا ہوتا ہے کہ وہ فلسطین کے مسئلے پر مسلم ممالک کا سب کچھ جانتا ہے۔اور یوں پہلا پروپیگنڈہ تو یہ شروع ہوجاتا ہے کہ کوئی بھی مسلم ملک کچھ بھی نہیں کر رہا۔ ابھی آپ یہ سن ہی رہے ہوتے ہیں کہ ایک اور جانب سے شور شروع ہوجاتا ہے۔ آپ ان کی طرف متوجہ ہوتے ہیں تو وہاں دو گروہ ہوتے ہیں۔ ان میں سے ایک گروہ اس حد تک مبالغہ کر تا ملتا ہے کہ پورا مسئلہ فلسطین ہی ایران کی گود میں رکھ دیتا ہے۔ اور دوسرا گروہ تفریط اس درجے کی کررہا ہوتا ہے کہ ایران کو گویا پورے منظر نامے سے ہی خارج کر دیتا ہے۔ سو آئیے اس مسئلے کی حالیہ سرگرمیوں کو تلخ حقائق کی روشنی میں سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔

بدنام زمانہ عرب نیشنلزم ردِعمل ہے صدیوں کے ترک نیشنلزم کا۔ یہ ایک ناقابلِ تردید حقیقت ہے کہ اسلام میں گورے کو کالے پر کوئی فضیلت حاصل نہیں مگر ہمارے سیاسی نظام میں یہ ”فضیلتیں“ ہمیشہ موجود رہی ہیں۔ مثلاً خلافت پر قریش کا حق اور پھر اموی و عباسی تفریق نسبی ترجیحات ہی تھیں۔ اگر آپ حالیہ تاریخ میں اس کی نظیر دیکھنا چاہتے ہیں تو افغانستان میں 90 کی دہائی والی ”خلافت“ کا حال ہی دیکھ لیجئے۔ جس میں قندھاری خلیفہ نے ملک کے ہر صوبے پر قندھاری مسلط کر دیئے تھے۔ بالکل اسی طرح خلافتِ عثمانیہ کو آپ جتنا بھی ”اسلامی خلافت“ کہہ لیں مگر عملاً یہ تھی ”ترک خلافت“  ہی۔ چنانچہ صورتحال یہ تھی کہ حرمین میں ائمہ، مؤذنین، اور دیگر امور انجام دینے والے جملہ اہلکار تک ترک تھے۔ جب علاقہ عرب ہو اور ہر سرکاری شاخ پر ترک بیٹھا ہو تو ایک نہ ایک دن ری ایکشن تو آنا تھا، سو آیا۔ لہٰذا سب سے پہلے یہ بات اچھی طرح سمجھ لینی چاہئے کہ عرب نیشنلزم وقتی نہیں، دائمی ہے۔ یہ عرب دنیا کے مزاج میں اب رچ بس چکا۔ اور یوں مسلم دنیا اب عرب اور عجم کی دائمی تقسیم کا شکار ہوچکی۔ عربوں میں کم از کم یہ ہے کہ وہ عربیت کے پرچم تلے متحد ہیں۔ جبکہ عالمِ عجم مکمل انتشار کا شکار ہے، کیونکہ عجم کوئی ایک قومیت نہیں۔

چنانچہ عرب اپنے معاملات میں عجم کی دخل اندازی بالکل قبول نہیں کرتے۔ اگر آپ نے نوٹ کیا ہو تو عجم میں سے سعودی عرب صرف پاک و ہند کے مسلمانوں سے ہی گزشتہ  70 برس سے اظہارِ ہمدردی کرتا آرہا ہے۔ خواہ وہ مفت تیل کی صورت ہو یا مالی امداد کی شکل میں، باقی عجمی دنیا سے وہ لاتعلق ہے۔ ہم سے ان کی اس کی ہمدردی کی وجہ یہ ہے کہ وہ ہندی مسلمانوں کا وہ احسان نہیں بھولتے جب تیل کے دور سے قبل متحدہ ہندوستان کے نواب اپنی پوری زکوٰۃ مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ بھیجا کرتے تھے اور وہی وہاں کے باشندوں کے گزر بسر کا ذریعہ ہوتی۔

مسئلہ فلسطین ان کے نزدیک عربوں کا داخلی مسئلہ ہے۔ کسی عجمی ملک کو اس میں قائدانہ یا فیصلہ کن رول اختیار کرنے کی اجازت نہیں۔ یہ ہم محض ہوائی بات نہیں کر رہے بلکہ مولانا فضل الرحمٰن نے جب قومی اسمبلی کی خارجہ امور کمیٹی کے چیئرمین کے طور پر مصر کا دورہ کیا اور حسنی مبارک سے کہا

”ہم مسئلہ فلسطین پر آپ کی حمایت کرتے ہیں، آپ بھی مسئلہ کشمیر پر ہماری حمایت کیجئے“

تو حسنی مبارک نے صاف کہہ دیا

”ہم نے تو مسئلہ فلسطین پر آپ سے کبھی بھی حمایت نہیں مانگی۔ آپ یہ احسان کیوں جتا رہے ہیں ؟“

مسئلہ فلسطین پر عرب عجمی ممالک سے یہ کہتے ہیں کہ اگر ہمیں ضرورت پڑی تو ہم آپ کی مدد مانگیں گے۔ اور یہ مدد صرف اور صرف ریاست کا ریاست سے معاملہ ہوگا۔ آپ ہمارے سویلینز سے کسی بھی طرح کا تعلق نہیں رکھیں گے۔ یعنی آپ کا عرب تنظیموں سے کوئی تعلق نہ ہوگا۔ اس کی مثال دیکھئے، سوویت یونین کے خلاف لڑی گئی جنگ کے ڈونر کے طور پر سعودی عرب پیش پیش تھا۔ تب عرب ممالک کی ہی اجازت سے عرب سوویلین یہاں لڑنے آئے تو باقاعدہ تنظیمی ڈھانچہ بنا لیا۔ دو تین بڑے نامی گرامی نام تھے ان میں۔ جوں ہی جنگ ختم ہوئی اور عرب ممالک نے ان سویلینز کی سرپرستی سے ہاتھ اٹھا لیا تو پاکستان کو بھی ہاتھ اٹھانا پڑا۔ ہمارے انٹیلی جنس اداروں نے ان عربوں سے مکمل قطع تعلق کرلیا۔ ان میں سے کچھ پاکستان میں مستقل رہائش پذیر ضرور ہوئے مگر آئی ایس آئی ان سے لاتعلق رہی۔

سو آج بھی پاکستان اور ترکی جیسے سنی مملک تک کو اس بات کی اجازت نہیں کہ وہ کسی فلسطینی تنظیم سے تعلق رکھے تو وہ ایران کیا بیچتا ہے جس کے ساتھ ان کا رشتہ ہی منافرت کا ہے؟ لہٰذا یہ بات اچھی طرح سمجھ لینی چاہئے کہ حماس ایران سے کوئی بھی مدد نہیں لے رہی نہ ہی ایران دے رہا ہے۔ ایک واجبی سا تعلق ہے، وہ بھی صرف اس لئے کہ لبنان کی حزب اللہ بھی اسرائیل کے خلاف اسٹیک ہولڈر ہے، سو کوآرڈی نیشن کی ضرورت درپیش رہتی ہے۔ ہاں حزب اللہ ضرور ایران کے زیر اثر ہے اور اسے وہاں سے ہر طرح کے وسائل بھی ملتے رہتے ہیں۔

ایک اہم حقیقت یہ بھی سمجھ لینی چاہئے کہ ایران کی مسئلہ فلسطین میں دلچسپی کا سبب کیا ہے؟ یہ دلچسپی فلسطینی شہریوں یعنی مسلمانوں کی وجہ سے ہرگز ہرگز نہیں۔ آپ ان کی پوری تاریخ میں نہیں دکھا سکتے کہ انہوں نے کسی سنی ملک یا گروہ کی کوئی مدد کی ہو۔ افغانستان سے شام تک وہ آپ کو ہمیشہ صرف شیعہ مکتب فکر کا مددگار ملے گا۔ ایران کی مسئلہ فلسطین میں واحد دلچسپی بیت المقدس کی وجہ سے ہے۔ بیت المقدس تین بڑے مقدس مراکز میں سے واحد مرکز ہے جو ایران کو قابلِ حصول لگتا ہے۔ اور ایرانیوں کو اس بات کا شدت سے احساس ہے کہ امام تو ان کے پاس 12 ہیں مگر قبلہ ایک بھی نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ فلسطین میں ان کی دلچسپی کا عنوان ہی ہمیشہ سے ”القدس“ رہا ہے۔ جبکہ حماس کے نزدیک اصل مسئلہ مسلمان اور اس کی زمین کا ہے۔ فلسطینیوں کی ترجیح میں بیت المقدس کا نمبر دوسرا ہے۔ اور شرعاً بالکل ٹھیک بھی ہے۔

یہ تصور بالکل غلط ہے کہ عالمِ اسلام مسئلہ فلسطین سے لاتعلق ہے۔ خود عرب اس مسئلے پر اسرائیل سے تین ناکام جنگیں لڑچکے۔ ہوا بس یہ ہے کہ ان تین بڑی عسکری شکستوں سے عرب اس نتیجے پر پہنچے کہ اس مسئلے میں کامیابی اب دو ہی صورتوں میں ممکن ہے۔ ایک یہ کہ مسلمان ہی ترقی کرکے عالمی طاقت بن جائیں۔ یا پھر یہ کہ کوئی اور عالمی طاقت ابھر کر مغرب کی جگہ لے لے۔ کیونکہ پورا مغرب اسرائیل کی بقا کا ضامن ہے۔

پہلی صورت تو نہ ہوسکی لیکن دوسری صورت روبعمل ہونی شروع ہوگئی ہے۔ یہ دنیا عملاً 2017ء سے ملٹی پولر ورلڈ بن چکی۔ جس کا اظہار اب بہت کھل کر ہونا شروع ہوچکا اور اب امریکہ بھی مان چکا کہ ہم اس دنیا کی واحد سپر پاور نہیں رہے۔ چنانچہ حماس کے حملے سے قبل عربوں کا ایران سے بیجنگ میں تصفیہ ہوجانا واضح کرتا ہے کہ عرب مسئلہ فلسطین کے حوالے سے دوسری آپشن کی جانب پیش رفت کرچکے۔

اس نکتے پر غور کیجئے کہ سعودی عرب اور ایران کے معاملات طے پانے کے چند ہی ماہ بعد اچانک سعودی ولی عہد انکشاف کرتے ہیں کہ سعودی عرب اور اسرائیل کے مابین خفیہ مذاکرات جاری ہیں، جس کے نتیجے میں دونوں ممالک امن معاہدے کے قریب ہیں۔ کیا سعودی عرب نے ایسا ہی کوئی انکشاف اس وقت بھی کیا تھا جب بیجنگ میں ایران سے مذاکرات جاری تھے؟ وہاں سے تو سیدھی دستخط کی خبر ہی پہلی خبر بنی تھی۔ ہمارے نزدیک سعودی ولی عہد کا اسرائیل سے امن معاہدے کا انکشاف اور حماس کا حملہ باہم مربوط کڑیاں ہیں۔ اور اس باب میں سعودیوں نے اسرائیل کو سیاسی و عسکری دونوں لحاظ سے چت کرکے دکھایا ہے۔ کیونکہ سعودی ولی عہد کے انکشاف پر اسرائیل نے پریشان ہونے کی بجائے خوشی سے بغلیں بجائی تھیں۔ نیتن یاہو نے انٹرویو دے کر مسرت کا اظہار کیا تھا۔ اور اس انٹرویو کے صرف ایک ہفتے بعد حماس نے حملہ کرکے ان کے ہوش اڑا دیئے۔

ایک اور نکتہ دیکھئے۔ ایک رسمی سی او آئی سی کانفرنس ہوئی جہاں یہ تجویز آئی کہ بحیرہ احمر سے ایران کی سپلائی لائن کاٹ دی جائے۔ او آئی سی دنیا کی نظر میں اچھی بچی بن کر اس مؤقف کے ساتھ سامنے آگئی کہ سپلائی لائن نہیں کاٹی جائے گی۔ اور ہوتا یہ ہے کہ کانفرنس ختم ہوتے ہی حوثی سپلائی لائن کاٹنے کے مشن پر ”نان سٹیٹ ایکٹر“  کے طور پر لگ جاتے ہیں۔ بحیرہ احمر کا دوسرا کنارہ طویل سعودی ساحل ہے۔ سعودی نیوی حوثیوں کے اس مشن میں کوئی دخل نہیں دیتی۔ صرف یہی نہیں، بلکہ حوثی اسرائیل پر حملوں کے لئے سعودی فضائی حدود استعمال کرتے ہیں جس پر سعودی کوئی رسمی احتجاج بھی نہیں کرتے۔

یہ معمولی بات نہیں۔ اس کی حساسیت ایک اور پہلو سے بخوبی سمجھی جا سکتی ہے۔ جب کوئی ملک بیلسٹک میزائل تجربے کے لئے صرف ایک میزائل ہی داغتا ہے تو اس سے تین دن قبل تمام پڑوسی ممالک کو آگاہ کردیتا ہے۔ اور ساتھ ہی تجربے والے دن فضائی حدود ہر طرح کے طیاروں کی آمد ورفت کے لئے بند کردی جاتی ہیں تاکہ کوئی حادثہ نہ ہو جائے۔ اب تک سعودی فضائی حدود سے سینکڑوں حوثی میزائل اسرائیل گئے ہیں۔ اکثر ایک ہی وقت میں درجن بھر میزائل داغے گئے ہیں۔ سعودی فضائی حدود میں کوئی طیارہ نشانہ نہیں بنا۔ کیوں؟ کیونکہ ان حملوں کے دوران سعودی فضائی حدود خالی تھی۔

سب سے اہم یہ کہ بحیرہ احمر میں حوثیوں نے کئی اسرائیلی بحری جہازوں کو نشانہ بنایا ہے۔ یہ جہاز اسرائیلی شناخت استعمال کر ہی نہیں رہے تھے۔ آ بھی دور دراز ممالک سے رہے تھے۔ یہ انٹیلی جنس اطلاع حوثیوں کو کیسے مل جاتی تھی کہ کونسا جہاز درحقیقت اسرائیلی ہے؟ یہ تنہا ایرانی انٹیلی جنس کا کام نہیں ہوسکتا۔ کیونکہ ہم جانتے ہیں وہ کتنے پانی میں ہے۔ان کا تو کاؤنٹر انٹیلی جنس نظام ہی اتنا گھٹیا ہے کہ اسرائیل اب تک ان کے درجن بھر سائنسدان قتل کرچکا۔ ایٹمی پروگرام ہم نے بھی چلایا ہے۔ کوئی مائی کا لعل کبھی ہمارا ایک بھی سائنسدان ہٹ کرسکا؟

ایسا پہلی بار ہے کہ مسلمان مسئلہ فلسطین پر زبردست قسم کی مربوط حکمت عملی کے ساتھ آگے بڑھ رہے ہیں۔ قائدانہ رول عرب ممالک بالخصوص سعودی عرب کے پاس ہی ہے۔ جبکہ پاکستان، ایران اور ترکی سورٹنگ رول میں بس ایک قدم پیچھے کھڑے ہیں۔

اگر آپ غور کیجئے تو عالمی سطح پر خلیج میں جس بڑی جنگ کا امکان ظاہر کیا جا رہا ہے اس میں کلیدی نام ایران، پاکستان اور ترکی کے ہی لئے جا رہے ہیں۔ اس کا مطلب کیا ہوا؟ یہ کہ یہ تقسیم کار بھی ہوچکی کہ کسی ممکنہ بڑی جنگ میں فرنٹ پر کون ہوگا؟ اب یہ بتانے کی تو ضرورت ہی نہیں کہ باقاعدہ بڑی افواج عالم اسلام میں انہی تین ممالک کے پاس ہیں۔ سو گزارش یہ ہے کہ اپنی حکومتوں کے خلاف لغو پروپیگنڈے بند کیجئے۔ اگر آپ کچھ جانتے نہیں تو یہ آپ کا قصور ہے، مسلم حکمرانوں کا نہیں۔

Related Posts