دنیا کو دیکھنے کی نئی عینک

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

دنیا کو دیکھنے کی نئی عینک
دنیا کو دیکھنے کی نئی عینک

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

بہت سال پہلے یہ اخبارنویس لاہورکے ایک ماہانہ جریدے میں کام کرتا تھا،بلکہ صاف لفظوں میں ایک ڈائجسٹ میں کام کرتا تھا۔ چھوٹے رسالوں میں سٹاف کم ہوتا ہے تو سب ایڈیٹر کو کئی کام کرنا پڑتے ہیں، تراجم سے پروف ریڈنگ اورکاپی جڑوانے سے پورے پرچے کی ایڈیٹنگ تک۔ فائدہ یہ کہ آدمی خاصا کچھ سیکھ جاتا ہے۔ تب کی پروف ریڈنگ کی عادت آج تک کام آ رہی ہے۔ میرے میگزین سیکشن کے نوجوان پوچھتے ہیں کہ فل پیج کلر ایڈیشن دیکھتے ہوئے آپ کی نظر فوراً پروف کی غلطی کیسے ڈھونڈ لیتی ہے۔ سوچتا ہوں کیا جواب دوں۔ شائد گرمیوں کی جھلستی دوپہروں میں پسینے بہاتے اور سردیوں کے یخ بستہ دنوں میں ٹھٹھرتے کانپتے ہاتھوں سے ڈھائی تین سو صفحات کے ڈائجسٹ کی ایک ایک سطر پڑھتے اور پینسل سے نشان لگاتے نظر تیز ہوگئی۔

جہاں یہ ڈر کہ رسالے کے قارئین املا کی معمولی سی غلطی نکل آنے پر فٹ سے شکایتی خط لکھ بھیجیں گے، وہاں کارکنوں کو ہمہ وقت ہوشیار، مستعد رہنا پڑتا ہے۔ ہمارے بعض رسالے اور اخبار ایسے رہے ہیں کہ ان کے بزرگ قاری اشتہارات کا مطالعہ بھی ذوق شوق سے فرماتے ہیں اور وہاں املا کی غلطی تک پکڑ کر فاخرانہ خط لکھتے یا فون کر ڈالتے ہیں۔

خیرا سی پرچے میں ایک بار معروف انگریزی جریدے ریڈرز ڈائجسٹ کا ایک مضمون ترجمہ کر کے لگایا۔ آج کے حساب سے یوں سمجھ لیجئے موٹیویشنل آرٹیکل تھا، عارف انیس ملک جیسے کسی گورے موٹیویشنل سپیکر کی تحریر۔ موصوف نے ایک نئی شادی شدہ خاتون کا قصہ لکھا کہ وہ بی بی جب مرغ مسلم پکانے لگتی تو چھری سے اس کا اوپر کا ایک ٹکڑا کاٹ کر الگ کر ڈالتی۔ ایک روز خاوند نے دیکھ لیا، پہلے تو وہ چپکا کھڑا رہا کہ کہیں ٹوک دینے سے ہوم منسٹری ناراض ہی نہ ہوجائے۔ پھر جیسا کہ کچھ مردوں کو بہادر بننے کا ایویں ہی شوق ہوتا ہے، اس نے ہمت کر کے وجہ پوچھ ڈالی۔ عفیفہ پہلے تو ناخوش ہوئی کہ یہ مردوا آج میرے کام میں کیوں ٹانگ اڑا رہا ہے،اِتنا ہی شوق ہے تو خود آ کر پکا لے۔ خیر پھر اس کی محبت عود آئی، مہربان بیویوں کی طرح مسکرا کر اس نے دیکھا اور بولی، ممی ایسا کرتی تھی۔

خاوند یہ سن کر چکرا گیا کہ ممی جی یعنی ساسو ماں ایسا کیوں کرتی تھیں، اس میں کیا سائنسی فارمولا پوشیدہ ہے۔ اس نے اپنے سوالات جاری رکھے۔ تس پر بیوی چڑ گئی اورلگی کھری کھری سنانے۔ بات مگر ختم نہ ہوئی اور آخر کار ممی جی کو فون کیا گیا۔ انہوں نے یہ مسئلہ سنا توترنت جواب دیا، ویری سمپل کیونکہ میری ماں ایسا کرتی تھی۔ اب بات نانی جی کی کورٹ میں چلی گئی۔ نوجوان جوڑے کو خیال آیا کہ اس عقدے کو حل کر ہی لیا جائے۔ نانی جی بڈھی پھونس، اسی نوے سال عمر، مگر حواس خمسہ درست اور اعصاب ایسے کہ فارغ وقت ملتا تو ایک اور شادی کا سوچنے لگتیں۔ان کے سامنے یہ مسئلہ بیان کیا تو ایک آدھ منٹ سوچنے میں لگایا اور پھر فرمانے لگیں، دراصل تب میرے پاس برتن چھوٹا تھا اور اس میں مکمل مرغی پکانا مشکل تھا، اس لئے اس کا اوپر کا ٹکڑا کاٹ دیتی تاکہ ڈھکنا بند ہوسکے۔

ریڈرز ڈائجسٹ کے گھاگ موٹیویشنل سپیکر نے قصہ سنا کر پہلے تو ہم پڑھنے والوں کو یہ نصیحت کی کہ بھائی لوگ سچ کا کھوج لگانے میں کوئی حرج نہیں (خاص کر اگر معاملہ حساس اداروں اور مسنگ پرسنز وغیرہ کانہ ہو)۔ دیکھا کس طرح اس خاوند نے سوال اٹھایا اور پھر تحقیق کی تواس خاندان میں تین نسلوں سے ہونے والی ایک غلطی کی اصلاح ہوگئی۔ پھر مشورہ دیا گیا کہ زندگی کو دیکھنے کی عینک تبدیل کر لو، ضروری نہیں کہ آپ بھی وہی سب کچھ کریں جو آپ کی ماں، نانی دادی کرتی رہی ہیں۔ آپ کی اپنی زندگی، اپنا مزاج، اپنا دور ہے، اسے اپنے ہی حساب سے گزاریں۔ چیزوں کو الگ زاویے سے دیکھیں اور نیا لطف اٹھائیں، وغیرہ وغیرہ۔

یہ بات مجھے ایک دوست لکھاری کا کالم پڑھ کر یاد آئی۔ ہمارے دوست ہیں، نام تو خیر لکھنے کی ضرورت نہیں کہ اب ان کی شہرت ان کی ڈاڑھی بن چکی ہے۔ فیس بک پر کون سوختہ نصیب ہے جو ڈاڑھی والا سے واقف نہیں۔ اسی نام سے کتاب آئی اور ہاٹ کیک کی طرح نکل گئی، دوسراایڈیشن بھی شائد ختم ہونے کوہے۔ اسی ڈاڑھی والے پیارے حسنین کی ایک بڑی اچھی عادت ہے کہ وہ اپنی عینک بدلتا رہتا ہے۔عام آدمی ہے، ہم آپ جیسا۔ وہی رہنا سہنا، کھانا پینا، لکھنا پڑھنا، کبھی بلاگ، کبھی وی لاگ وغیرہ وغیرہ۔

اس کی خوبی یہ ہے کہ وہ دنیا اور اپنی زندگی کو دیکھنے کی عینک بدلتا رہتا ہے۔ ایک یکسر مختلف اینگل سے ہر چیز کو دیکھنے اور دکھانے کی کوشش کرتا ہے۔ آئیڈیاز اس کے منفرد اور اچھوتے ہوتے ہیں۔ کچھ آئیڈیا ز کو فالو کر سکتے ہیں، بہت سے ناقابل عمل لگتے، مگر سب دل کو چھوتے ہیں۔ سیدھے کلیجے میں جا کر پیوست ہوجائیں۔ آدمی ایک لمحے کو ٹھٹھک کر سوچے کہ کم بخت کہتا تو سچ ہے، مگر ہم نے کبھی ایسا کیا ہی نہیں۔

ان کے مختلف بلاگز پڑھ کر خیال آیا کہ واقعی ہم لوگ اپنی نئی چیزوں سے مزا لینے کے بجائے انہیں سینت سینت کر رکھتے اور ذائقہ خراب کر دیتے ہیں۔ نیا موبائل لیا، فوری اس کا پچھلا کور اتار کر رکھ دیا کہ جب بیچیں گے تو ریٹ اچھا لگے گا۔ یار موبائل استعمال کے لئے لیا ہے یا بیچنے کے لئے۔اسی طرح نئی گاڑی لی اور فوراً ہی جا کر پرکشش اوریجنل سیٹ کورز پر الگ سے پوشش کرا لی کہ سیٹیں خراب نہ ہوں۔ نیا کٹلری سیٹ لے رکھا ہے مگر برسوں استعمال نہیں ہوگا، صرف کسی خاص مہمان کے آنے پر نکالا جائے گا وغیرہ وغیرہ۔

یہ شائد ہم مڈل کلاس لوگوں کا عدم تحفظ ہے جو ایسی حرکتیں کراتا ہے۔ پڑھنے کے بعد سوچا کہ یہ سب کام میں نے بھی کئے ہیں۔ کیوں؟ شائد اس لئے کہ میں نے اپنے اردگرد ایسا ہی ہوتے دیکھا ہے، ہمارے بڑے چونکہ ایسی احتیاطیں کرتے آئے ہیں، اس لئے بلا سوچے سمجھے ہم بھی اس کی تقلید کرتے ہیں۔ اگلے روز حسنین کا ایک پرانا بلاگ پڑھا اور ہل کر رہ گیا۔ اس نے ایک زیر تعمیر مکان کا نقشہ کھینچا اور سمجھایا کہ کس طرح ہم گھسے پٹے برسوں پرانے طریقے کے مطابق گھربنواتے ہیں۔ جن چیزوں کو اہمیت دینی چاہیے، وہ نہیں دیتے اور ٹپیکل سا ڈرائنگ روم بنانے پر سارا فوکس رہتا ہے۔

پڑھ کر یہی خیال آیا کہ واقعی گھر ہم اپنے لئے بناتے ہیں یا سال چھ ماہ میں کبھی ایک آدھ بار آنے والے فارمل مہمان کے لئے؟کئی چیزیں ایسی ہیں جو ہم سوچتے ہی نہیں۔ اپنے سوچنے، اپنے ذہن کے پرندے کی اڑان کے لئے جو بڑا پنجرہ ہم نے بنایا ہے، اس کی سلاخیں تک مخصوص ڈیزائن کی ہیں۔ سوچ کا پرندہ غریب اڑ کر دور تک جا ہی نہیں سکتا۔ یوں ہم ایک ہی پیٹرن کے قیدی بن گئے ہیں۔

میں ان آئیڈیاز کو پڑھتا، عش عش کرتا اور پھر یہ سوچتا ہوں کہ کاش اس پر عمل پیرا بھی ہوسکوں۔ شائد یہ آدمی کی اپنی افتاد طبع، اپنا مزاج بھی ہے۔ زندگی صرف خیالات اور تصورات سے نہیں بسر ہوتی، کچھ آپ کے اندر سے بھی پھوٹتا ہے۔کسی خاص موسیقی، خاص انداز کی فلموں،
کتابوں، سیاحت، کھابے وغیرہ کے بارے میں ہر ایک کا اپنا رویہ، اپنا ردعمل ہے۔ البتہ اس میں بہت کچھ گروم کیا جا سکتا ہے۔گاڑی چلانے، ٹائپنگ اور دیگر پروفیشنل سکلز کی طرح میرا ماننا ہے کہ زندگی گزارنے کے نئے طریقے اور نئے ذائقے بھی سیکھے جاسکتے ہیں۔

ہم دو بھائی ہیں۔ایک گھر میں پہلے، ایک خون، موروثی عادات وغیرہ، مگر یکسر مختلف۔ میرا مزاج نئی چیزوں کو اپنانے، ان کا تجربہ کرنے کا ہے۔ نئے کھانے، نئی ڈشز،نئی فلمیں، نئے موضوعات پر کتابیں، کسی خاص جگہ جاتے ہوئے نیا راستہ مجھے اٹریکٹ کرتا ہے۔ مجھے مکئی کی روٹی ساگ مکھن وغیرہ بہت پسند ہیں،دنبہ کڑاہی وغیرہ بھی اور ساتھ ہی سب وے کا ٹیونابرگر،ان کا باربی کیو سلاد، نت نئے سٹائل کے برگر، سینڈوچ، رائس بال کے رائس، مختلف انداز کی بریانی، پلاؤ وغیرہ، یہ سب بھی مرغوب ہیں۔ اگلے روز ہم میاں بیوی شام کو باہر نکلے، گھومتے ہوئے کہیں پر میکسیکن فوڈ کا بورڈ نظر آئے، وہاں چلے گئے۔ زندگی میں پہلی بار میکسیکن ٹاکوز،سزلر کھائیں۔ سپائسی کھانا کھا کر بہت لطف آیا۔ مینیو کی تصاویر بنائیں اور عہد کیا کہ جو بچ گیا ہے وہ اگلی بار ٹرائی کریں گے۔ کئی روز ہوئے، اس تجربے کی سرشاری طاری ہے۔

میرے بھائی صاحب البتہ مٹن، دنبہ کڑاہی وغیرہ ہی پر نظرکرم فرماتے ہیں۔ ان کا قول مبارکہ ہے کہ گوشت (ریڈمیٹ)ہو، اچھا پکا ہو اور سیروں کے حساب سے ہو۔ برگر، سینڈوچ، پیزا اور اس انداز کی کسی نازک، ناتواں چیزکو وہ درخوراعتنا نہیں سمجھتے۔ انہیں بطور سٹارٹر کھانے میں ممکن ہے حرج نہ سمجھیں، اگر معلوم ہوکہ اس کے بعد الیاس ٹرک اڈہ کی دنبہ کڑاہی یا شنواری کی سلیمانی کڑھائی آ ئے گی، یاسری پائے کا بڑا پیالہ مع گرما گرم خمیری روٹیوں کے ان کے لئے محفوظ رکھا ہے۔

مجھے ان سب میں کوئی مسئلہ نہیں۔ مزا لینے کا ہر ایک کا اپنا حق ہے، اس کا احترام کرتا ہوں۔ میرا اصرار یہ ہے کہ زندگی میں، رہن سہن، کھانے پینے، سوچنے میں کچھ کر لینے میں حرج نہیں۔ وہ بھی آزما لیا جائے جو آج تک نہیں کیا۔ ممکن ہے پسند نہ آئے، ممکن ہے بہت پسند آجائے۔ ہم نئی چیزوں کی طرف مائل تو ہوں، اپنے ذہنی بیرئرز کو توڑ نے کی جرات تو پیدا کریں۔ اور کچھ نہیں تو اپنی مرضی کا ڈاڑھی والا ہی ڈھونڈ لیں۔ اپنا بابا خود تراش لو،مگر ہمت تو کرو یارو۔ دنیا کو دیکھنے کی پرانی عینک ایک دن کے لئے تو بدل کر دیکھیں۔

Related Posts