مگر بات ہے رسوائی کی

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

پاکستان میں ان دنوں سیاسی ماحول انتہائی گرم ہے جبکہ موسم کے تیور بھی کچھ بدلے بدلے سے ہیں اور کورونا سے تقریباً صحت یابی کے بعد ہمارے محبوب کپتان کے مزاج بھی کچھ بدلے دکھائی دیتے ہیں اس لئے انہوں نے انقلاب کی راہ ہموار کرتے ہوئے پہلے ندیم بابر کو معاون خصوصی کے عہدے سے رن آؤٹ کیا اور پھر خزانے پر کنڈلی مار کر بیٹھے حفیظ شیخ کو کلین بولڈ کرکے میدان بدر کردیا ہے۔

ٹیکس چوری سکھانے کے ماہر جناب شبر زیدی کو کپتان کے یوٹرنز سے لگتا ہے کہ ٹیسٹ میچ کی دوسری اننگ کی طرح شائد دوبارہ ان کی باری آجائیگی اور اسی انتظار میں انہوں نے ایک بار پھر خوشامدی لب و لہجہ اختیار کرلیا ہے اور حفیظ شیخ کی رخصتی پر انہوں نے ٹوئٹ میں وزیر اعظم عمران خان کو پاکستان کے اصل ڈاکوؤں یعنی ٹریڈرز کے سٹہ مافیا کو پکڑنے پر مبارک باد دی ہے۔

شبر زیدی نے کہا ہے کہ وہ مسلسل کہتے آئے ہیں کہ یہ افراد ،انفارمل بینکنگ ،کیش اکانومی،سود پر غلط فتوے، کرپشن ،خورد ونوش کی اشیاء کی مہنگائی اور آڑھتی مافیا مہنگائی کے اصل ذمہ دار ہیں۔اب سمجھ نہیں آرہا کہ وہ کس کو کیا پیغام دے رہے ہیں لیکن ان کی باتوں سے تو ایسا لگتا ہے کہ شائد تمام برائیوں کی جڑحفیظ شیخ ہی تھے۔

کپتان نے 22 سال تک سیاسی جدوجہد کی اور دھرنے کے دوران ایسے ایسے فتوے دیئے کہ ان باتوں کو یاد کرکے مرحوم کیلئے دل سے دعا نکلتی ہے جو یہ کہتے تھے کہ مہنگائی ہو تو اس کا ذمہ دار وزیراعظم ہوتا ہے، کفایت شعاری اور قانون کی حکمرانی کا میرے اُس کپتان کو بہت اشتیاق تھا لیکن شومئی قسمت کہ میرے قائد کو وزیر اعظم بنادیا گیا اور پھر مرتا کیا نہ کرتا کے مصداق میرے کپتان نے سابقہ حکمرانوں کی تمام روایات کو توڑتے ہوئے ان سے بڑی کابینہ بنائی اور ایسے ایسے کارہائے نمایاں انجام دیئے کے عقل دنگ رہ جاتی ہے۔

چاہے بجٹ میں سرکاری ملازمین کی تنخواہیں نہ بڑھائی گئی ہوں لیکن ایک بیوی اور دوکتوں کے ساتھ 2 لاکھ میں گزارہ نہیں ہوا تو لاکھوں کا اضافہ کرلیا، بھلے ہی زندگی بھر سرکار کا دم بھرنے والے غریبوں کی پنشن میں اضافہ نہ کیا ہو لیکن اپنے رفقاء کو زندگی بھر کیلئے مالا مال ضرور کردیا۔اب کیا جان لیں گے؟

معاف کیجئے گا! بات کہاں سے کہاں نکل گئی، ہم بات کررہے تھے کپتان کے موڈ کی، تو میرے کپتان ہمیشہ سے جارحانہ کھلاڑی رہے ہیں، سری کانت کو دوبارہ بیٹنگ دینے کے فیصلے سے شروع ہونے والا سفر تاحال جاری ہے۔ شاید میرے کپتان کو ہمیشہ تکا لگنے کا یقین ہوتا ہے جیسے شاہد آفریدی کو بلاگھماتے ہی چھکے کا گمان ہوتاتھا وہ الگ بات ہے کہ وہ ہمیشہ چائے کا آرڈر دیکر آتے تھے کہ تو چل میں آیا۔

اووہ ہ سوری۔ بات ہورہی تھی کپتان کے فیصلوں کی تو کپتان نے سری کانت کو دوسرا موقع دیا اور وقار یونس کی قسمت اچھی تھی کہ انہوں نے دوبارہ آؤٹ کردیا لیکن میرے کپتان کو دوبارہ وقار یونس نہیں مل سکا۔

وہ الگ بات ہے کہ وقار یونس نے اپنے ناکامی کا بدلہ لینے کیلئے پاکستان کرکٹ ٹیم کی تباہی میں بھرپور کردار کیا بلکہ گروپ بندی سمیت قومی ٹیم کے بہترین کھلاڑیوں کاکیریئر تباہ کرنے میں جتنا زور وقار یونس نے لگایا ہے شائد اتنا زوراگر وہ باؤلنگ میں لگاتے تو اور کچھ نہیں تو وسیم اکرم سے تو آگے نکل جاتے۔

کاش اُس دن سری کانت دوبارہ آؤٹ نہ ہوتا تو شاید ہمیں یہ دن دیکھنا نا پڑتا، اسی طرح میرے کپتان ملک میں شوگر کا مرض ختم کرنے کیلئے ایک بار پھر پرویز مشرف کی نرسری میں اگنے والے جہانگیر ترین کوآؤٹ کرکے دوبارہ لانے کی کوشش کررہے ہیں، وہ الگ بات ہے کہ وقار یونس کی طوفانی باؤلنگ کی طرح جہانگیر ترین نے اپنے تیز رفتار جہاز سے کسی آزاد رکن کو نہیں بخشا لیکن اب انہیں کسی رکن اسمبلی کی آزادی ختم کرنا مقصود نہیں ہے اس لئے انہیں بارہواں کھلاڑی بناکر باہر بٹھایا ہوا ہے کہ بوقت ضرورت کام آئے گا۔

میرا کپتان کیا کرے اس کو ٹیم کی ٹھیک نہیں ملی، وہ الگ بات ہے کہ میرے قائد نے پی ٹی آئی کے چند دیرینہ ساتھیوں کے علاوہ تمام وزارتیں کئی بار کے آزمائے لوگوں کو دے رکھی ہیں لیکن کپتان کیا کرے کہ یہ وہی لوگ ہیں جن کی وجہ سے ماضی میں ملک کی تباہی ہوئی تو اب کپتان ان کھلاڑیوں سے کیسے اچھے نتائج لے سکتا ہے، ہاں یہ الگ بات ہے کہ ماضی میں میرا قائد کہتا تھا کہ اگر اوپر والا بندہ ٹھیک ہو تو نیچے والے کوئی غلط کام نہیں کرسکتے لیکن بھلے انہوں نے کرکے نہ دیکھایا ہو لیکن کہا تو ہے ناں؟ کیا یہ کم ہے، کمال کرتے ہو پانڈے جی۔

یہ کمال میرے کپتان کا ہی ہے کہ انہوں نے مخالفوں کے سارے کھلاڑی اپنی ٹیم میں شامل کرلئے۔ مانا کہ کپتان کے اپنے اوپنر اسد عمر بری طرح ناکام رہے اور اپنے 22 سال تیاری کرنیوالے سورما میدان میں جاتے ہیں چت ہوگئے لیکن انہوں نے ہار نہیں مانی اور ماضی میں چپڑاسی کیلئے بھی نااہل شیخ رشید کو بھی اپنی ٹیم میں شامل کرکے ایسا قابل بنایا کہ ان کے دور میں ٹرینوں کے حادثات کا نیاریکارڈ بنایا اور میرے کپتان نے انہیں گھر نہیں بھیجا بلکہ داخلہ امور کی اہم ترین وزارت سونپ کر انہیں مزید کارکردگی دکھانے کا موقع دیا جو صرف میرے کپتان کا ہی ظرف ہوسکتا ہے۔

پھر معافی چاہوں گا۔۔۔بات ہورہی تھی موقع دینے کی تو میرے کپتان کہتے تھے کہ ایم کیوایم دہشت گرد جماعت ہے لیکن انہوں نے سب سے پہلے ایم کیوایم کو پورا موقع دیا کہ وہ سیدھی راہ پر آجائیں اور وہ آبھی گئے؟۔ پرویزالٰہی کو پنجاب کا سب سے بڑا ڈاکو کہتے تھے اور ان کو ایسا قابو کیا کہ اسپیکر بناکر بٹھا دیا اب کروکوئی ڈکیتی۔

میرے کپتان کے فیصلے ہمیشہ دوسروں کو چونکا دیتے ہیں، ہمیں لگتا تھا کہ کپتان پیپلزپارٹی اور ن لیگ کی جگہ پرُ کریگا اور کپتان نے ایسا داؤ کھیلا کہ عمرایوب،فردوس عاشق اعوان، فواد چوہدری، غلام سرور، پرویزخٹک، شفقت محمود، فخرامام، بابراعوان اورحفیظ شیخ سمیت کوئی بڑانام نہیں چھوڑا جن کی بدولت پی پی اور ن لیگ دوبارہ حکومت بناسکیں۔

جہانگیر ترین ، خسروبختیار، فردوس عاشق اعوان،عامر کیانی اور فواد چوہدری کو خراب کارکردگی اور کرپشن کے الزامات پر وزارتوں سے ہٹانا بھی میرے کپتان کاہی کارنامہ تھا۔وہ الگ بات ہے کہ دوبارہ ضرور انہیں اپنے نقصان کے ازالے کا نہ صرف موقع دیا بلکہ لمبی اننگز کیلئے ماحول بھی فراہم کیا جوصرف میرا کپتان ہی کرسکتا ہے ورنہ اتنے واضح جرائم اگر کسی اور ملک میں ہوتے تو شاید وہ لوگ پھانسی لگ چکے ہوتے کیونکہ میرے محبوب کپتان ماضی میں چینی طرز پر کرپٹ وزراء کو سزائے موت دینے کے قائل تھے لیکن لوگوں کو سدھرنے کا موقع دینا میرے کپتان کا ہی کارنامہ ہے۔

میرے کپتان کے کارنامے تو اتنے ہیں کہ لکھتے لکھتے قلم تھک جائے لیکن میرے کپتان کے کارنامے ختم نہ ہوں۔اب حالیہ کارنامہ ہی دیکھ لیں یہ کوئی آسان تھا کہ پہلے پرویز مشرف پھر پیپلزپارٹی کے آزمودہ وزیرخزانہ حفیظ شیخ کو بیرون ملک سے بطور خاص درآمد کیا اور انہیں سینیٹر بنوانے کیلئے ایڑی چوٹی کا زور لگایا اورپھر مہنگائی کا سارا الزام ان پر ڈال کر چلتا کرنا بھی میرے کپتان کے علاوہ اور کسی کے بس کی بات نہیں۔

یہ وہ کارنامے ہیں جن کو دیکھ کر آج کپتان کو ووٹ دینے والا ہر شخص شرمندہ ہے اور کیوں نہ ہو؟ میرے کپتان نے سیاست کو نیا رخ دے دیا ہے اور کرپشن کے معنی و مفہوم ہی بدل دیئے ہیں اور کرپشن کرنے والوں کو گرفتارکرکے قوم کا وقت اور پیسہ برباد کرنے کے بجائے یہ روایت قائم کی کہ بس کرپٹ افراد کو وزارت سے ہٹائیں اور دوبارہ نئی کوئی وزارت سونپ دیں، ظاہر ہے کہ انہیں دوبارہ بیٹنگ کا موقع بھی تو دینا ہے۔ ان تمام باتوں پر پروین شاکر سے معذرت کے ساتھ  بس اتنا کہا جاسکتا ہے کہ: بات تو سچ ہے مگر بات ہے رسوائی کی۔

Related Posts