سیاست اور توہم پرستی

مقبول خبریں

کالمز

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

بعض اوقات ایسا بھی ہوتا ہے جب سیاست میں پستائی کی انتہائی کو چھو لیا جاتا ہے، اپوزیشن اور حکومتی ناقدین کی جانب سے حالیہ انکشافات جن کا براہ راست ٹارگٹ وزیر اعظم عمران خان ہیں، ناقدین کے کا کہنا ہے کہ وزیر اعظم ریاستی امور کے حوالے سے اہم فیصلے کرنے کے لیے جادو ٹونے پر انحصار کرتے ہیں۔

پاکستان مسلم لیگ (ن) کی نائب صدر مریم نواز نے وزیر اعظم کی جانب سے پاک فوج میں تقرریوں کو سنبھالنے پر تنقید کرتے ہوئے عجیب اور بے بنیاد دعوے کیے کہ وہ فیصلے کرنے کے لیے جادو منتروں اور مافوق الفطرت مخلوقات پر انحصار کرتے ہیں۔ اُن کی جانب سے یہ الزام عائد کرنے کے بعد جادو ٹونے والا مسئلہ بڑے پیمانے پر طنز کا موضوع بن چکا ہے، ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اس ساری صورتحال میں وزیراعظم کی اہلیہ کو نشانہ بنایا گیا ہے جو ایک روحانی شخصیت ہیں۔

یہ الزامات سوشل میڈیا پرتاحال جاری ہیں اور سیاسی حامی ایک دوسرے پر تنقید کرنے پر مصروف ہیں، زیادہ شرمناک بات یہ ہے کہ یہ بے بنیاد دعوے مختلف صحافیوں کی جانب سے اٹھائے جنہوں نے ان موضوعات پر کالم لکھنے کے لیے صحافت کے غیر اخلاقی معیار کا سہارا لیا۔ سیاستدانوں نے وزیر اعظم کے خاندان کے خلاف توہین آمیز ریمارکس پر ہنگامہ برپا کیا۔

مسلم لیگ ن کی جانب سے اس قسم کے تنازعات نئے نہیں ہیں، نواز شریف کی وزارت عظمیٰ سے برطرفی کے بعد، پارٹی قیادت نے خلائی مخلوق کو ذمہ دار قرار دیا۔ عمران خان کے بطور وزیر اعظم منتخب ہونے کے بعد، یہ تاثر استعمال کیا گیا کہ اس عہدے تک پہنچنے میں خلائی مخلوق کا خفیہ ہاتھ ہے۔ پی ٹی آئی نے اس کے بجائے یہ الزام لگایا ہے کہ شریف خاندان نے جادو اور توہم پرستی کا استعمال کرتے ہوئے پیسہ بنایا اور جائیدادیں بنائیں۔

ان بیانات سے قطع نظر، اس کی شدید مذمت کی جانی چاہیے۔ مثبت سیاست کرنی چاہئے، اس طرح کے تبصرے بہت زیادہ نقصان دہ ہیں، ہم پہلے ہی ایک انتہائی توہم پرست قوم ہیں جہاں روحانی پیشواؤں (پیروں) کو بہت عزت سے نوازا جاتا ہے، اس طرح کے بیانات رائے دہندگان پر گہرے اثرات مرتب کر سکتے ہیں،ان کی انتہائی حوصلہ شکنی ہونی چاہیے۔

میڈیا کی ایک مضبوط ذمہ داری ہے کہ وہ غیر جانبدار رہے اور کسی بھی شخصیت پر کیچڑ اُچھالنے سے گریز کرے، دونوں فریقوں کے لیے ضروری ہے کہ وہ سیاست کی دنیا کو آلودہ کرنے سے گریز کریں کیونکہ اس سے کسی کی خدمت نہیں ہوگی، اس کے بجائے اس سے قوم کا نقصان ہوگا۔

Related Posts