‘مہمان’ اور اس کا نائب

مقبول خبریں

کالمز

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

آیئے اس شخص کے “قلعے” کا دورہ کرتے ہیں، جو دنیا کا سب سے بڑا مطلوب فرد تھا، جس کے بارے میں اطلاع دینے والے کیلئے دس ملین ڈالر کا انعام مقرر تھا۔

یہ وہ “محل” ہے، جس کا صہیونی قابض ریاست کی گلی گلی میں چرچا تھا۔ دجالی میڈیا کے زیر اثر مسلمان بھی کہتے نہیں تھکتے تھے کہ خود عیاشی کر رہے ہیں، بیوی بچوں سمیت سرنگوں میں محفوظ ہیں اور فلسطینیوں کو مروا رہے ہیں۔ یہ دیکھئے ایک کمرے پر مشتمل “لگژری محل” ہے۔ جس کی چوکھٹ پر لکڑی کا دروازہ بھی نہیں، پردے کے لیے بس بینر لٹکا ہوا ہے۔ گھر ہمہ اقسام کے سامان تعیش سے مکمل خالی۔ دو ٹوٹی ہوئی کرسیاں، ساتھ میں ایک میز پر کچھ کتابیں۔ اسی کمرے کے کونے میں کچن۔ ایک طرف دیوار گری ہوئی، جس پر پردے کے لیے بینر لگا ہوا۔ بینر پر رمضان المبارک میں قرآن کریم سنانے والے حفاظ کے نام درج ہیں۔ اس گھر نما کے اندر ان کی اہلیہ ام خالد اپنے دو بیٹوں اور ایک بیٹی کے ساتھ مطمئن بیٹھی ہیں۔ سرتاج کی جدائی پر نہ ماتم، نہ رونا نہ پیٹنا۔ صبر کو اگر انسانی صورت میں دیکھنا ہے تو ام خالد کو دیکھ لیجئے۔ یتیم بچوں کے چہروں پر بھی اطمینان۔ ام خالد کہتی ہیں کہ “ہمارے گھر میں ایک چٹائی اور چار گدے ہیں، جنگ سے پہلے بھی اور بعد میں بھی۔ الحمدللہ رب العالمین” بچوں کی زبان پر بھی الحمدللہ، الحمدللہ!!

امریکی منصوبہ مسترد، عرب ممالک غزہ کو فلسطینیوں سے خالی کرانے کیخلاف متحد ہوگئے

الجزیرہ کا نمائندہ محمد، بڑے بیٹے سے سوال کرتا ہے: خالد! تم اپنے والد کے بڑے بیٹے ہو، ابو سے آخری ملاقات کب ہوئی تھی؟ خالد کہتا ہے: “7 اکتوبر کو جمعے کے روز آخری ملاقات ہوئی تھی۔ ہمیں الوداع کرتے ہوئے وصیت کی تھی کہ قرآن کریم حفظ کرلینا اور اس کی تفسیر اور دینی علوم حاصل کرنا۔ اگر میں شہید ہوگیا تو تمہیں آزادی مل جائے گی اور اگر تم بھی شہید ہوگئے تو تمہاری اولاد آزادی کی دولت سے ہمکنار ہوگی۔”

ایسے ہی جذبات صاحبزادی حلیمہ کے ہیں۔ اس کا کہنا ہے کہ ہمیں اس بات پر فخر ہے کہ حق تعالیٰ نے ہمارے والد کو شہادت جیسے اعزاز کے لیے چنا۔ ہم ان کے مشن کو پورا کرکے دم لیں گے۔ گھر میں شہید کی ساس (پہلی شہید بیوی کی ماں) بھی موجود ہیں۔ وہ اپنے عظیم داماد کے بارے میں کہتی ہیں: “وہ گویا صحابہ کرام کے زمانے کا آدمی تھا۔ میرے لیے سگے بیٹے سے بھی بڑھ کر تھا۔ میری خواہش تھی کہ میری بیٹی تو شہید ہو جائے، لیکن داماد کو زندگی ملے۔ ایسا ہی ہوا۔ بیٹی شہید، لیکن وہ زندہ رہا۔ میرے ساتھ برتاؤ اس کا ایسا تھا جیسے کہ اس کی سگی ماں ہوں۔ میں نے زندگی میں ایسا شخص کبھی نہیں دیکھا۔ ہمیں دس بار بھی زندگی ملے تو اس کی طرح نہیں ہو سکتے۔ بیٹی کے بعد اب داماد بھی شہید ہوگیا۔ اس کے بچے میری پرورش میں ہیں۔ میں انہیں کبھی خود سے جدا نہیں کر سکتی۔”
جس پراسرار شخصیت کی ہم بات کر رہے ہیں، وہ فلسطینی مجاہدین کی سب سے بڑی بریگیڈ القسام کے کماندار اعلیٰ محمد ضیف ہیں۔ وہ جولائی میں شہید ہوگئے تھے۔ لیکن جنگ بندی کے بعد ان کے اور ان کے ساتھیوں کی لاشوں کو ملبے سے نکالا گیا۔ پھر جمعرات کی شام قسام ترجمان ابوعبیدہ نے کمانڈر انچیف سمیت 7 قائدین کی شہادت کا اعلان کیا۔ نماز جمعہ کے بعد خان یونس میں ان شہداء کا جنازہ پڑھا گیا۔ جس میں غزہ کے ہزاروں لوگوں نے شرکت کی۔ بعد ازاں اعزاز و اکرام کے ساتھ شہداء کے اجساد کی تدفین کی گئی۔
آیئے شہید ہونے والے قائد اعلیٰ اور ان کے نائب کی حیات و خدمات پر روشنی ڈالتے ہیں۔ قسام کے چیف آف اسٹاف محمد ضیف شہید کا اصل نام محمد دیاب ابراہیم المصری تھا۔ وہ 36 قبل اسرائیلی فوجی کو اغوا کرکے پہلی بار دنیا کے سامنے آئے۔ اس کے بعد وہ اسرائیل کے سب سے مطلوب شخص بن گئے۔ 1965ء میں خان یونس کے ایک مہاجر کیمپ میں پیدا ہوئے۔ تب خان یونس مصر کے زیر نگیں تھا۔ اس لئے محمد ضیف “المصری” کہلاتے تھے۔ غزہ ہی میں تعلیم حاصل کی۔ غزہ مصر کے پاس ہونے کی وجہ سے تب یہاں الاخوان المسلمون بے حد مقبول تھی، اس لئے دورانِ طالب علمی محمد ضیف بھی اخوان سے وابستہ رہے۔ جب شیخ احمد یاسین شہید نے حماس کی بنیاد رکھی تو ضیف ابتدا ہی میں اس کا حصہ بنے۔ 1989ء میں اسرائیل نے انہیں گرفتار کیا، بعد میں انہیں رہا کرنا پڑا۔

یورپ میں تیار پاک بحریہ کا نیا جنگی جہاز کراچی پہنچ گیا

 

رہائی کے کچھ عرصہ بعد وہ غزہ سے مغربی کنارہ چلے گئے، جہاں انہوں القسام کی شاخ کو منظم کیا۔ 1993ء میں مغربی کنارے کے سربراہ عماد عقل کی شہادت کے بعد ضیف القسام بریگیڈ کی مغربی کنارے کی شاخ کے سربراہ مقرر کیے گئے۔ 2000ء میں فلسطینی اتھارٹی نے انہیں گرفتار کر لیا۔ کچھ ہی عرصے میں ضیف قید سے فرار ہونے میں کامیاب ہوگئے۔ 2002ء میں القسام بریگیڈ کے سپہ سالار صلاح شحادہ کی شہادت کے بعد قیادت کا عَلم انہیں تھما دیا گیا۔ تب سے شہادت تک وہ سپہ سالاری کے منصب پہ فائز رہے اور حریف کے سینے پہ مونگ دلتے رہے۔ محمد ضیف جولائی 2024ء کو خان یونس کے المواصی کیمپ پر ہونے والے ایک تباہ کن حملے میں رتبہ شہادت پہ فائز ہوئے تھے۔ اس حملے میں 90 فلسطینی شہید اور 300 زخمی ہوئے تھے۔ اگست میں اسرائیل نے ان کی شہادت کا اعلان کیا تھا۔ ان کے نائب مروان عیسیٰ بھی اسی حملے میں شہید ہوئے تھے۔ چونکہ سپاہیوں کے حوصلے توانا رکھنے کے لئے دورانِ جنگ اتنے بڑے نقصانات تسلیم نہیں کیے جاتے، اس لئے ان کی شہادت کو پردئہ اخفا میں رکھا گیا۔ القسام کی تاریخ میں دو شخصیات نے بے پناہ شہرت حاصل کی۔ ایک انجینئر یحییٰ عیاش اور دوسرے محمد ضیف۔

یحییٰ 90ء کی دہائی کا معروف ترین نام تھا۔ الیکٹریکل انجینئر، نہایت ذہین، فطین اور روشن دماغ، چھلاوے کی طرح کبھی ہاتھ نہ آنے والے، بم سازی میں ماہر۔ ضیف نے بم سازی کا ہنر یحییٰ سے سیکھا۔ استاد شاگرد میں یہ وصف مشترک تھا کہ دونوں ہی نہایت پراسرار اور افسانوی طرح کی شخصیت کے مالک تھے۔ ضیف عربی میں مہمان کو کہتے ہیں۔ اس عرفیت سے اس لئے معروف ہوئے کہ وہ دشمن کی ٹارگٹ کلنگ سے بچنے کے لئے کہیں مستقل قیام نہیں کرتے تھے۔ زندگی بھر مستقل حرکت میں رہے۔ چنانچہ لوگ اصل نام دیاب ابراہیم بھول کر انہیں ضیف (مہمان) کی عرفیت سے پہچاننے لگے۔ ضیف اس قدر پوشیدہ شخصیت رکھتے تھے کہ ان کے بارے میں معروف تھا کہ اگر وہ غزہ کے کسی محلے میں نکل آئیں تو لوگ انہیں پہچان نہ پائیں گے۔ اسی پراسراریت کی وجہ سے اسرائیلی افواج نے چھلاوا یا بھوت نام دے رکھا تھا۔ 7 بار نشانہ بنانے کی کوشش کی گئی، مگر رب نے اس چراغ کو جلائے رکھنا تھا، سو ہر بار بچ نکلے۔ اس پہ دشمن انہیں نو زندگیوں والا کہا کرتا۔ 2014ء کی 50 روزہ جنگ میں ان کی رہائش گاہ کو نشانہ بنایا گیا۔ بیگم، ننھی بیٹی اور سات ماہا بیٹا شہید ہوگئے۔ ضیف اس جاں لیوا حملے میں بھی بچ نکلے۔ عام تاثر یہی تھا کہ محمد ضیف اپنی فیملی کے ساتھ کسی سرنگ میں رہتے ہیں۔ یہی بات دجالی میڈیا نے بھی مشہور کر رکھی تھی۔ مگر شہادت کے بعد معلوم ہوا کہ ان کی فیملی عام فلسطینی خاندانوں کی طرح پناہ گزین کیمپوں میں نقل مکانی کرتی پھرتی رہی تھی۔ الجزیرہ نے شہید کی بیوہ اور بچوں کے انٹرویو اور ٹوٹا پھوٹا گھر ایک پروگرام میں دکھایا ہے۔ جس سے صحابہ کرام کی یاد تازہ ہو جاتی ہے۔

شعیب ملک آؤٹ، ثانیہ مرزا نے گھر کے نیم پلیٹ پر کس کا نام لکھوا دیا؟

مہمان کا نائب:
قدسیوں کے “مہمان” محمد ضیف پر بہت کچھ لکھا جا چکا ہے۔ یہاں تک کہ ایکس (سابق ٹیوٹر) پر انہی کا نام ٹرینڈ کر رہا ہے۔ مگر ان کے نائب کو بہت کم لوگ ہی جاتے ہیں۔ نائب بھی مہمان کی طرح نہایت پراسرار شخصیت تھے۔ آیئے “قدسیوں کے کمانڈو” اور “دماغی جنگ کے کمانڈر” کا کچھ تعارف کراتے ہیں۔ ابوالبرا مروان عیسیٰ بھی ابوخالد محمد ضیف کے ساتھ ہی شہید ہوگئے۔ یہ ان کے نائب تھے۔ ابو البراء عسکری ونگ کے ساتھ حماس کی سیاسی قیادت کے بھی رکن رکین تھے۔ 1965ء میں پیدا ہوئے اور ان کی انتھک کوششوں نے قسام کو اسرائیل کے لیے ایک حقیقی خطرہ بنا دیا اور اسرائیل نے انہیں اپنی سب سے زیادہ مطلوب شخصیات کی فہرست میں شامل کر لیا۔ اسرائیلی فورسز نے انہیں پہلے انتفاضہ کے دوران پانچ سال (1987-1993) تک قید رکھا، کیونکہ وہ حماس کی صفوں میں تنظیمی سرگرمیوں کے نگران تھے، جس میں وہ نوجوانی ہی میں شامل ہو گئے تھے۔ 87ء میں شروع ہونے والا کانٹوں کا یہ سفر 2024ء میں منزل مقصود سے ہمکنار ہوا۔ اسرائیل نے مروان کے قتل کی کئی بار کوشش کی، اس کا کہنا تھا کہ جب تک وہ زندہ ہے، حماس اور اسرائیل کے درمیان “دماغی جنگ” جاری رہے گی۔ اسرائیل نے اسے “الفاظ نہیں، بلکہ افعال کا آدمی” قرار دیا اور کہا کہ وہ اتنا ذہین ہے کہ “پلاسٹک کو دھات میں تبدیل کر سکتا ہے”۔
پیدائش اور پرورش:
ابوالبراء مروان عبد الکریم عیسیٰ غزہ کے وسطی علاقے میں واقع مہاجر کیمپ “مخیم البریج” میں پیدا ہوئے۔ وہ اپنے والدین کے ساتھ 1948 کے نکبے کے دوران “بیت طیما” گاؤں سے بے دخل ہونے کے بعد اس گاؤں کی واپسی کا خواب لیے ہوئے جوان ہوئے۔ مروان عیسیٰ نے اپنے نوجوانی کے دوران جماعتِ اسلامی سے تعلق قائم کیا اور اس کی دعوتی، سماجی اور تنظیمی سرگرمیوں میں حصہ لیا۔ وہ اپنے ساتھیوں میں جسمانی طور پر مضبوط تھے اور کھیلوں میں بھی نمایاں تھے۔ وہ باسکٹ بال کے کھلاڑی کے طور پر بھی مشہور تھے اور “کمانڈوز فلسطین” کے لقب سے جانے جاتے تھے اور “خدمات البریج کلب” کی ٹیم میں اپنے شاندار کھیل کی بدولت مشہور ہوئے۔ اس کے باوجود ابو البراء کی کھیلوں کی زندگی کا سفر ناتمام رہ گیا، 1987ء میں اس نے ایک دوسرے راستے کا سفر اختیار کرلیا۔ جس کی منزل جنت ہے۔ وہ حماس کا حصہ بن گیا اور اسرائیلی فوج نے اسے اسی الزام میں گرفتار کر لیا۔ اس کے بعد فلسطینی اتھارٹی نے 1997ء میں بھی اسے گرفتار کر لیا اور وہ 2000ء میں انتفاضہ الاقصیٰ کے آغاز کے بعد ہی رہا ہوا۔ جب اسے رہا کیا گیا تو اس نے کھیلوں کو چھوڑ دیا اور اپنی تقدیر کا نیا راستہ اپنایا، جس کا مقصد مقدس سرزمین کے دفاع کے فرض کو پورا کرنا تھا۔ اسی جذبے کے تحت اس نے قسام میں شمولیت اختیار کی اور اس وقت اس کی عمر 19 سال تھی۔ حماس میں شمولیت کی طرف رہنمائی اس وقت کے رہنما ابراہیم المقادمة نے کی تھی، جو ابو البراء کو ہر ہفتے مسجد میں درس دیتے تھے اور انہوں نے اس میں ایسی بصیرت اور ذہانت دیکھی جو اسے اپنے ہم عمر ساتھیوں سے ممتاز کرتی تھی۔
تجربہ فوجی:
مروان عیسیٰ کا جیل میں گزارا وقت ان کی فکری نشوونما کا حصہ بن گیا، جہاں انہوں نے قسامی فکر کو اپنا لیا اور جیل سے باہر آنے کے بعد فوراً اس میں شامل ہو گئے۔ اس کے بعد سے وہ بتدریج قسام کے مختلف عہدوں پر فائز ہوتا گیا، یہاں تک کہ وہ ان رہنماؤں میں شامل ہو گئے جو آپریشنز اور جنگوں کے فیصلے کرنے میں آزادانہ طور پر فیصلے کرتے تھے یا یحییٰ سنوار، جو اُس وقت غزہ میں حماس کے قائد تھے، کے ساتھ مشاورت کرتے تھے۔ ابو البراء 1996ء کی فدائی کارروائیوں کی اس ٹیم کا حصہ تھے، جو انجینئر یحییٰ عیاش کے قتل کا بدلہ لینے کے لیے کی گئی تھیں اور اس کے ساتھ دیگر اہم شخصیات جیسے “مہمان” اور حسن سلامہ بھی شامل تھے۔ اس کارروائی کے بعد انہیں 4 سال تک قید رکھا گیا اور پھر انتفاضہ الاقصیٰ کے آغاز کے بعد 2000ء میں رہا کیا گیا۔ رہائی کے بعد، ابوالبراء کا کردار قسام میں انتہائی اہم تھا، جہاں انہوں نے تنظیم کو نیم فوجی دستے سے ایک مکمل فوجی ڈھانچے میں تبدیل کردیا، جس میں مختلف یونٹس، بریگیڈز اور شعبے شامل تھے اور باقاعدہ ایک فوج کی بنیاد پر کام کرنے کا آغاز کیا۔ وہ اس وقت تک عوامی سطح بہت کم مشہور رہے، یہاں تک کہ ستمبر 2005ء میں قسام نے ایک بیان میں ان کے نام کو صف اول کے قائدین میں شامل کیا، یہ بیان اسرائیل کے غزہ سے انخلاء سے دس دن پہلے جاری کیا گیا تھا۔ غزہ سے اسرائیلی انخلا کے دوران قسام نے “فجر الانتصار” کے نام سے ایک خصوصی نشریہ جاری کیا، جس میں بریگیڈ کے کئی قائدین کے ساتھ انٹرویوز شامل تھے۔ اس نشریئے میں ابو البراء کو “مستوطنات کے آپریشنز کے ذمہ دار” کے طور پر متعارف کرایا گیا اور انہوں نے نشریئے میں ان آپریشنز کی نوعیت کو واضح کیا، جن کی بنیاد صلاح شحادة، جو بریگیڈ کے سابق کمانڈر تھے، نے رکھی تھی۔ ابوالبراء نے کہا: “ہم نے فیصلہ کیا کہ جنگ کو قابضین کے گھروں تک لے جائیں۔” انہوں نے وضاحت کی کہ یہ آپریشنز کیسے کیے جاتے ہیں، جن میں “مقابلہ کرنے والوں کو شدید محنت، تربیت اور مسلسل تیاری کی ضرورت ہوتی ہے”۔

امشا رحمان نے وائرل ہونے والی لیک ویڈیو پر خاموشی توڑ دی

 

وہ اس کا آغاز مشاہدات اور نگرانی کے آپریشنز سے کرتے ہیں، جو کئی ہفتوں تک جاری رہتے ہیں، پھر جو معلومات جمع کی جاتی ہیں انہیں قیادت کو بھیجا جاتا ہے، جہاں تفصیلات پر بحث کی جاتی ہے اور ایک کمیٹی تشکیل دی جاتی ہے تاکہ یہ جائزہ لیا جا سکے کہ آپریشن کو عملی جامہ پہنانا ممکن ہے یا نہیں اور اس میں “زیادہ سے زیادہ کامیابی اور کم سے کم نقصان” کو کیسے یقینی بنایا جا سکتا ہے۔ اسرائیلی رپورٹوں کے مطابق، ابو البراء کی کوششیں انتفاضہ الاقصیٰ کے دوران دو سمتوں میں مرکوز تھیں: پہلی یہ کہ بریگیڈ کو منظم کرنا اور اس کے فوجی ڈھانچے کو مختلف چھوٹی بریگیڈز، یونٹس اور گروپوں میں ترتیب دینا اور دوسری یہ کہ 2004ء میں انجینئر عدنان الغول کے شہید ہونے کے بعد خلا کو پر کرنا اور اسلحے کی مقامی پیداوار کے منصوبے پر کام کرنا تاکہ مزاحمت کے لیے زمینی، سمندری اور فضائی طور پر مدد فراہم کی جا سکے۔ دوسرے انتفاضہ کے بعد ابو البراء کے اہم کردار کے باعث، اسرائیل نے ان کا پیچھا شروع کر دیا اور انہیں نشانہ بنانے کے لیے سب سے زیادہ مطلوب شخصیات کی فہرست میں شامل کر لیا۔ 2006ء میں جب وہ محمد ضیف اور دیگر قیادت کے ارکان ایک اجلاس میں تھے، اسرائیل نے انہیں نشانہ بنانے کی کوشش کی، مگر وہ زخمی ہو کر اس اجلاس سے باہر نکلنے میں کامیاب ہوگئے اور اسرائیل کا مقصد پورا نہ ہوسکا۔ اس کے بعد اسرائیلی جنگی طیاروں نے 2014ء اور 2021ء میں غزہ پر حملوں کے دوران ان کا گھر دو بار تباہ کیا اور 2021ء کے حملے میں اس کے بھائی وائل شہید ہو گئے۔ 2009ء میں غزہ کے محاصرے کے دوران، ان کے 9 سالہ بیٹے براء کو گردے کی ناکامی کا سامنا تھا اور اس کے باوجود اسے علاج کے لیے غزہ سے باہر جانے کی اجازت نہیں دی گئی۔ بالآخر، براء شہید ہوگیا اور وہ غزہ پر عائد محاصرے کی وجہ سے شہید ہونے والا 359 واں شخص بن گیا۔ اسی بچے کے نام پر مروان کی کنیت “ابوالبراء” ہے۔ ابو البراء کا چہرہ 2011ء سے پہلے زیادہ معروف نہیں تھا۔ تاہم وہ “وفاء الاحرار” معاہدے کے تحت اسیران کی رہائی کے دوران ایک اجتماعی تصویر میں نظر آئے، جو اسرائیلی فوجی گیلاد شالیط کے بدلے میں فلسطینی قیدیوں کی رہائی کے موقع پر لی گئی تھی۔ اس تصویر میں خالد مشعل، صالح العاروری اور احمد الجعبری بھی موجود تھے اور اسرائیل نے دعویٰ کیا کہ تصویر میں ان کے ساتھ موجود شخص مروان عیسیٰ ہیں۔ “مستوطنات کے آپریشنز کے ذمہ دار” ابو البراء کی حکمت عملی اور کوششیں غزہ کی جنگوں میں واضح طور پر سامنے آئیں، جن میں “حجارۃ السجيل” 2012ء سے لے کر “طوفان الأقصی” 2023ء تک مختلف تباہ کن کارروائیاں شامل ہیں۔ ان جنگوں میں زمینی، انٹیلی جنس اور ٹیکنیکی فورسز کی طاقت اور آپریشنز کی منظم اور تفصیلی منصوبہ بندی دکھائی دی، خاص طور پر مستوطنات (آبادگاروں کے مقبوضہ رہائشی علاقے) اور سیکورٹی مراکز پر حملوں میں ان کی خصوصی توجہ نمایاں رہی۔ “طوفان الأقصی” جنگ میں ابوالبراء کی حکمت عملی اور طریقہ کار خاص طور پر واضح ہوا، جہاں انہوں نے خصوصی فورسز اور “کمانڈوز” کے زمینی اور سمندری آپریشنز کی قیادت کی۔ انہوں نے خود غزہ کی سرحدی باڑ کو عبور کیا اور غزہ کے آس پاس کے مستوطنات میں 40 کلومیٹر تک اندر داخل ہو کر دشمن پر حملہ کیا۔ اس کے علاوہ، ابو البراء نے اسلحہ سازی میں بھی اہم کردار ادا کیا، جس کے نتیجے میں راکٹوں کی رینج اور تباہ کن طاقت میں زبردست اضافہ ہوا اور قسام بریگیڈ دفاعی پوزیشن سے اٹیکنگ پوزیشن پر آگئی۔ ابو البراء کی فوجی ترقی کی جانب خاص توجہ نے مزاحمت کاروں کو ڈرون طیارے حاصل کرنے میں مدد دی، انہوں نے ایلیٹ فورسز تشکیل دیں اور حملے کے لیے سرنگیں کھودیں، ساتھ ہی ایک بحری کمانڈو یونٹ بھی بنایا، جس نے عسقلان کے ساحل پر کئی حملے کیے اور اسرائیل کو بھاری نقصان پہنچایا۔
سیاسی تجربہ:
اپنے فوجی تجربے کے علاوہ، ابو البراء کا سیاسی میدان میں بھی اہم کردار رہا۔ 2015ء میں غزہ میں الرباط یونیورسٹی کے ایک سائنسی سیمینار میں انہوں نے طاقت کو بڑھانے اور اتحادیوں کے ساتھ اسلحے کی فراہمی کے حوالے سے جاری کوششوں کے بارے میں گفتگو کی اور مصر کی عدالت کے اس فیصلے پر بھی تبصرہ کیا، جس میں حماس کو “دہشت گرد تنظیم” قرار دیا گیا تھا۔ انہوں نے کہا کہ “حماس اور اس کے فوجی دھڑے کو عالمی اور علاقائی سطح پر محاصرے کی تمام کوششیں ناکام ہوں گی۔” پھر تین ماہ بعد اس فیصلے کو عدالت نے واپس لے لیا۔ 2017 ء میں ابو البراء ایک فوجی سیاسی وفد کے ساتھ مصر پہنچے، جہاں انہوں نے قیدیوں کے تبادلے پر مذاکرات کیے۔ اس کے بعد بھی مختلف مواقع پر مصر کا دورہ کیا تاکہ قیدیوں، جنگ بندی اور سرحدی گزرگاہوں کے حوالے سے بات چیت کر سکیں۔ 2017ء میں مروان عیسیٰ کو حماس کے سیاسی دفتر کا رکن منتخب کیا گیا۔ 2019ء میں، وہ امریکی دہشت گردی کی فہرست میں شامل کیے گئے۔ پھر 2021ء میں انہیں دوبارہ سیاسی دفتر کا رکن منتخب کیا گیا اور اس بار وہ دفتر کے ارکان کی اجتماعی تصویر میں ماسک پہنے ہوئے نظر آئے۔ اسی سال جون میں، ابو البراء الجزیرہ چینل کے پروگرام “ما خفي أعظم” میں ایک مہمان کے طور پر شریک ہوئے، جہاں انہوں نے مزاحمت کی طاقتوں کے بارے میں بات کی اور یہ بتایا کہ کس طرح یہ طاقتیں قیدیوں کے تبادلے کے لیے ایک معاہدہ مکمل کر سکتی ہیں۔ بعد ازاں، 2022ء میں، وہ دو دستاویزی فلموں میں نظر آئے جو کتائب القسام نے “سيف القدس” کی جنگ کی پہلی سالگرہ پر جاری کیں۔ مارچ 2023ء میں، مروان عیسیٰ نے خبردار کیا کہ اگر مسجد الاقصیٰ کو نقصان پہنچا تو “ایک زلزلہ پورے علاقے کو متاثر کرے گا” اور کہا کہ “اسرائیل نے اوسلو معاہدے کو ختم کر دیا ہے اور آنے والے دنوں میں بہت سی اہم باتیں ہوں گی۔” اور یہی بات 7 اکتوبر 2023ء کو “طوفان الأقصیٰ” کی جنگ کے اعلان کے ساتھ سچ ثابت ہوئی۔
مناصب اور ذمہ داریاں:
2017 میں حماس کے سیاسی دفتر کا رکن منتخب ہوئے اور پھر 2021ء میں دوبارہ منتخب ہوئے۔ 2011ء میں “وفاء الأحرار” معاہدے کے معماروں میں سے ایک۔ قسام کی فوجی صلاحیتوں کو بڑھانے کے ذمہ دار۔ 2000ء میں صلاح شحادة کے ساتھ مل کر قسام کی تنظیم نو میں حصہ لیا۔ 2012ء میں بریگیڈ کے دوسرے اہم ترین شخص۔ فوجی قیادت اور سیاسی قیادت کے درمیان رابطے کی اہم کڑی۔ اسرائیل کے ساتھ کسی بھی قیدیوں کے تبادلے کی ذمہ داری رکھنے والی قیادت میں سے ایک۔ بریگیڈ کے مستوطنات آپریشنز کے ذمہ دار۔
بنا کردند خوش رسمے بخون و خاک غلطیدن
خدا رحمت کند ایں عاشقان طینت را

Related Posts