آئندہ ماہ ترکیہ کے صدر رجب طیب اردوان کا ہائی لیول کوآرڈینیشن کونسل(ایچ ایل سی سی) کے ساتویں اجلاس کے موقعے پر متوقع دورہ پاکستان نہ صرف دونوں ممالک کے درمیان دیرینہ، گہری، اور پرخلوص دوستی کی تجدید کی علامت ہے بلکہ یہ خطے میں سیاسی، معاشی، اور سفارتی استحکام کی نئی راہیں کھولنے کا باعث بھی بن سکتا ہے۔
غور کیا جائے تو12 فروری سے شروع ہونے والا یہ دورہ ایسے وقت میں ہونے والا ہے جب دنیا بھر میں جغرافیائی اور سیاسی کشیدگی عروج پر ہے، اور یہ دونوں برادر اسلامی ممالک کو اپنی مشترکہ ترجیحات کو عالمی سطح پر اجاگر کرنے کا نادر موقع فراہم کرتا ہے۔
اس اہم دورے کے دوران کئی اہم معاہدے اور مفاہمت کی یادداشتوں(ایم او یوز) پر دستخط کیے جانے کی توقع ہے، جن کی بدولت دونوں ممالک کے درمیان تجارتی تعلقات کو مزید فروغ دینے کے ساتھ ساتھ صنعتی اور تکنیکی شعبوں میں بھی تعاون کو فروغ دیا جا سکے گا۔ یہ بات نہایت اہمیت کی حامل ہے کہ ترکی کی یورپی یونین کے اندرکسٹمز یونین میں شمولیت جو پہلے ہی بین الاقوامی تجارت کے فروغ میں معاون ثابت ہو رہی ہے، پاکستانی برآمدات کے لیے یورپی منڈیوں تک رسائی کی نئی راہیں کھولنے کا ذریعہ بن سکتا ہے، جو پاکستان کی معیشت کے لیے ایک انقلابی قدم ہوگا۔
مزید برآں، دورے کے دوران چھ اہم اجلاسوں کے انعقاد کی توقع ہے، جو ایچ ایل سی سی کے تحت ہوں گے، اور جن میں اقتصادی اور تجارتی تعلقات کے علاوہ جدید ٹیکنالوجی، سیاحت، اور توانائی کے شعبوں میں شراکت داری کے امکانات کا بھی جائزہ لیا جائے گا۔ 2022 میں پاکستان اور ترکی کے درمیان تجارت کا حجم 1,250 ملین ڈالر تھا، جس میں ترکی کی برآمدات 800 ملین ڈالر اور پاکستان کی برآمدات 450 ملین ڈالر رہیں۔ 2023 میں ترکی نے پاکستان کو 550.46 ملین ڈالر کی برآمدات کیں۔
خاص طور پر اس وقت جب غزہ کی صورتحال پر امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا سخت بیان سامنے آنے کے بعد عالمی سطح پر اس کے حق میں اور خلاف گفتگو ہورہی ہے، پاکستان اور ترکیہ کے مابین بھی غزہ کے معاملے پر گفتگو ضرور ہوگی، تاہم ضروری نہیں ہے کہ باہمی تعلقات اور تجارت جیسے معاملات سمیت دیگر اہم پہلوؤں پر گفتگو کے دوران دونوں ممالک غزہ کے معاملے پر اپنی گفتگو کو دنیا کے سامنے لانا چاہیں، اس لیے بقیہ مسلم ممالک کی طرح کچھ بیانات اور اسرائیلی و امریکی اقدامات کی مذمت سمیت دیگر عوامل کی توقع تو کی جاسکتی ہے، کچھ یقین سے نہیں کہا جاسکتا ۔
یہ دورہ خطے میں درپیش اہم مسائل، جیسے فلسطین اور غزہ کے بحران، کے حوالے سے ترکی اور پاکستان کے مشترکہ اور ہم آہنگ موقف کو مزید اجاگر کرے گا۔ ترکیہ نے ہمیشہ فلسطینی عوام کے حق میں مؤثر انداز میں آواز بلند کی ہے اور مظلوم اقوام کی حمایت میں اپنا منفرد کردار ادا کرنے کے لیے خاص شہرت کے حامل پاکستان کی جانب سے اس دورے میں ترکیہ کے ساتھ ان مسائل پر اپنی پالیسیوں کو ہم آہنگ کرنے کی کوشش کی جائے گی تاکہ عالمی سطح پر ان مسائل کو زیادہ مؤثر انداز میں پیش کیا جا سکے۔
دونوں ممالک کے درمیان ایک اسٹریٹجک اکنامک فریم ورک (SEF) موجود ہے جس کا مقصد تجارت، سائنس و ٹیکنالوجی، دفاع، سیاحت، صحت، اور تعلیم سمیت مختلف شعبوں میں تعاون کو فروغ دینا ہے
صدر رجب طیب اردوان اور پاکستانی قیادت کے درمیان قریبی اور باہمی اعتماد پر مبنی تعلقات حالیہ برسوں میں مزید مستحکم ہوئے ہیں جو اس بات کی ضمانت دیتے ہیں کہ یہ دورہ دونوں ممالک کے تعلقات کو نئی بلندیوں پر لے جائے گا۔ 2022 میں دونوں ممالک نے اپنے سفارتی تعلقات کے 75 سال مکمل ہونے کا جشن منایا، جس میں ان کے طویل مدتی روابط کو اجاگر کیا گیا اور سال 2025 دونوں ممالک کے مابین باہمی سفارتی تعلقات کا 78واں سال ہے۔
گزشتہ برس 2024 کی رپورٹس میں یہ بھی انکشاف ہوا کہ دونوں ممالک عسکری تعاون اور اقتصادی شراکت داری کو بڑھانے کے لیے گفتگو کر رہے ہیں، خاص طور پر تجارت اور سرمایہ کاری کے مواقع پر زور دیا جا رہا ہے، اس کے علاوہ ثقافتی تبادلوں اور مختلف شعبوں میں مشترکہ منصوبوں پر مسلسل توجہ دی جا رہی ہے، جس سے دونوں ممالک کے مابین پنپنے والی اسٹریٹجک شراکت داری مزید مضبوط ہو رہی ہے۔
عالمی سطح پر یوکرین کی جنگ، مشرقِ وسطیٰ کے تنازعات، اور اسلاموفوبیا جیسے مسائل بھی زیر بحث آئیں گے، جن پر ترکی اور پاکستان کی قیادت مشترکہ حکمت عملی اپنانے پر غور کرے گی۔ خاص طور پر اسلاموفوبیا کے خلاف ترکی کے مؤثر اقدامات اور پاکستان کی مسلسل سفارتی کوششیں عالمی سطح پر مسلمانوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے اہم ثابت ہو سکتی ہیں۔ جنوری 2025 میں پاکستانی ماہرین تعلیم اور سابق فوجی افسران کے ایک وفد نے استنبول میں اپنے ترک ہم منصبوں کے ساتھ ملاقات کی تھی جس میں دوطرفہ، علاقائی، اور عالمی سلامتی کے مسائل پر تبادلہ خیال کیا گیا۔
راقم الحروف کی رائے میں دونوں ممالک کے درمیان کئی دہائیوں پر محیط تعلقات کی تاریخ میں یہ دورہ ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے جو نہ صرف معاشی، سیاسی، اور سماجی شعبوں میں تعلقات کو نئی جہت دے گا بلکہ عالمی سطح پر بھی دونوں ممالک کی حیثیت کو مستحکم کرنے میں معاون ثابت ہوگا۔ مزید یہ کہ یہ دورہ ان دونوں ممالک کے لیے ایک ایسا پلیٹ فارم فراہم کرے گا جہاں وہ نہ صرف اپنے تعلقات کو مضبوط کر سکیں بلکہ خطے کے دیگر ممالک کے ساتھ بھی اپنے تعاون کو فروغ دے سکیں گے، اور خاص طور پر ٹرمپ کی بھونچالی پالیسیوں سے بچنے کے راستوں پر غوروخوض کریں گے، جس کے اثرات آنے والے سالوں تک محسوس کیے جائیں گے۔