ادب کی دنیا کے بس چند ہی لوگ ہیں جو فیس بک کو سمجھ سکے ہیں۔ باقی سب کا یہ تصور ہے کہ یہ “جریدے” کی ہی کوئی جدید قسم ہے۔ چنانچہ وہ یہ دیکھتے ہیں کہ ان کی نظم یا افسانہ یہاں دھوم مچا رہا ہے یا نہیں؟ اور جب دیکھتے ہیں کہ ایسا تو کچھ بھی نہیں ہو رہا بلکہ الٹا یہ ہورہا ہے کہ جس شخص کو ادبی جریدے کے دفتر کی سیڑھیوں پر بھی برداشت نہ کیا جائے، وہ یہاں خوب پڑھا جا رہا ہے تو ان کا صدمے سے برا حال ہوجاتا ہے۔
چنانچہ شام پانچ بجے سے قبل ہو خواہ بعدفیس بک سے متعلق ان کی ماہرانہ رائے یہی ہوتی ہے کہ یہ لغو چیز ہے، اس کا ادب کو کوئی فائدہ نہیں۔ ایسی رائے دینے والوں میں شمس الرحمن فاروقی جیسی بڑی ہستی بھی شامل ہیں۔ ان حضرات کو یہ بات سمجھنی ہوگی کہ فیس بک کی جریدے سے بس اتنی ہی مماثلت ہے کہ یہاں بھی تحریر شائع ہوتی ہے۔ اس کے سوا کوئی مماثلت نہیں۔
فیس بک ایک بالکل ہی الگ میڈیم ہے، اس کا اپنا ایک ماحول ہے، اور اس کے اپنے ہی کچھ تقاضے ہیں۔ مثلا یہی دیکھ لیجئے کہ اگر آپ نے اپنی تحریر اپلوڈ کی۔ اور اپنے قاری کو نظر انداز کردیا۔ نہ تو اس کے کسی کمنٹ کا جواب دیا۔ نہ ہی اس کے کمنٹس کو لائیک کیا، تو قاری بھی آپ کو نظر انداز کردے گا۔
آپ کو فقط پوسٹ کی صورت ہی نہیں کمنٹس بار میں بھی اپنے قاری سے ہمکلام ہونا ہے۔ بیشک لڑ لیجئے، ڈانٹ لیجئے، مگر اس کے کمنٹ پر ردعمل دے کر اسے یہ احساس دیجئے کہ آپ اس سے صرف پڑھوا نہیں رہے، اس کے ردعمل کو پڑھ بھی رہے ہیں۔ سو وہ آپ کی تحریر کو کسی صورت نظر انداز نہیں کرے گا۔
فیس بک پر کمنٹس بار میں سب سے سفاک ہم ہیں۔ قاری نے ذرا سی لوز بال کرائی تو ہم باؤنڈری سے باہر پہنچانے میں سیکنڈ نہیں لگاتے۔ نتیجہ یہ ہے کہ خود ہم ہی نہیں طے کر پا رہے کہ ہمارے حامی اکثریت میں ہیں یا مخالفین ؟ مگر ایک بات تو طے ہے جو اصل بھی ہے اور مطلوب بھی کہ ہمارا بدترین مخالف بھی ہمیں پڑھ ضرور رہا ہے ۔گالی کی صورت ہی سہی مگر ردعمل اسی لئے دے رہا ہےکہ اس نے ہمارا لکھا پڑھ لیا ہے۔
ہمیں اور چاہئے ہی کیا ؟ رائٹر کی پہلی تمنا یہی ہوتی ہے کہ اسے پڑھا جائے، تو لوگ پڑھ رہے ہیں۔ اور اس لئے پڑھ رہے ہیں کہ ہم ان سے کمنٹس بار میں بھی ہمکلام ہیں۔ ہم اپنے قاری کو یہ احساس بالکل منتقل نہیں کرتے کہ تم اس لائق نہیں کہ ہم تم سے بات کریں۔ تم تو بس ہمارا آٹو گراف لینے کی ہی اہلیت رکھتے ہو۔ خبردار جو ہم سے فری ہونے کی کوشش کی۔
فیس بک پر ہماری حکمت عملی سمپل ہے، بات تو ہم آپ سے کریں گے۔اور عین اسی لہجے میں کریں گے جس لہجے کا آپ نے انتخاب کیا ہوگا۔ آپ طنز کریں گے، جواب طنز سے آئے گا، آپ طیش دکھائیں گے جواب جہنم جیسی حرارت والا آئے گا، اور پیار سے بات کریں گے تو جواب میں پیاربھی دگنا ملے، مگر بات ہوگی ضرور۔ یہ بزم صرف ہمارے دم سے نہیں۔ ہم دونوں اس کا حصہ ہیں۔ اس کی رونقوں میں آپ کا بھی اتنا ہی حصہ ہے جتنا ہمارا ہے۔
ادیبوں میں ہی آپ ہمارے سلیم بھائی یعنی سلیم مرزا صاحب کو ہی لے لیجئے۔ منفردادیب ہیں، انہیں فیس بک پر ٹھیک ٹھاک پڑھا جا رہا ہے کہ نہیں ؟ کیوں پڑھا جا رہا ہے ؟ کیونکہ اپنے قاری سے ہمکلام رہتے ہیں۔ وجاہت مسعود اور صلاح الدین درویش کو لے لیجئے۔
پڑھا جا رہا کہ نہیں ؟ کیوں ؟ کیونکہ قاری سے جڑے ہوئے ہیں۔ سو فیس بک سے شاکی بس وہ ادیب ہیں جو اپنے تخت طاؤس سے اترنے کی زحمت ہی گوارا نہیں کرتے۔ خود کو خاص سمجھ کر عام آدمی کو نظر انداز کرنے کا چلن رکھتے ہیں۔ ان سے کمنٹس بار میں گھلنا، ملنا اپنی شان کے خلاف سمجھتے ہیں۔فرعون صفت لوگ۔
اب آیئے فیس بک کے ایک خاص امتیاز کی جانب۔ فیس بک کا سب سے بڑا امتیاز یہ ہے کہ یہ ادب کی دنیا میں ایک نیا اسلوب لایا ہے۔وہ اسلوب جو کتاب اور جریدے دونوں میں نہیں چل سکتا۔ کتاب اور جریدے میں رائٹر کو ایک ایسے خیالی قاری سے مخاطب ہونا پڑتا ہے، جس کی کوئی شکل و صورت نہیں ہوتی۔ سو رائٹر خود کار طور پر کچھ ایسی بندشوں کا پابند ہوتا ہے جو کتاب اور جریدے کا تقاضا ہیں۔ وجہ اس کی یہ ہے کہ اس کا وہ بے صورت خیالی قاری، اشاعت کے بعد صدر مملکت سے لے کر چپڑاسی تک کسی بھی شکل و صورت میں مجسم ہوسکتا ہے۔ سو یہی وہ پریشر ہوتا ہے جو وہاں قلم کو محتاط رکھتا ہے۔
لیکن جب فیس بک پر لکھا رہا ہوتا ہے تو دوسروں کا تو نہیں معلوم ، اپنا حال یہ ہے کہ لکھتے وقت کبھی عتبان چوہان کی صورت نظر آرہی ہوتی ہے، کبھی انہیں دھکا دے کر درویش آگے آجاتے ہیں، کبھی گلا کھنکار کر ڈاکٹر عاصم اللہ بخش توجہ کھینچ لیتے ہیں، کبھی فضل اللہ فانی کی چمک دار آنکھیں نظر آنے لگتی ہیں۔
گویا ایک دم مجلسی ماحول ہوتا ہے۔ اور اپنی فرینڈ لسٹ کے ہی چہروں کے سوا کچھ نظر نہیں آتا۔ کوئی صدر مملکت نہیں، کوئی آرمی چیف نہیں۔ سو بات بھی ہمیں مجلسی ماحول کے تقاضوں کے مطابق لکھنی پڑتی ہے۔
آپ انصاف سے بتایئے، ہم کتاب یا جریدے میں وہ مخصوص الفاظ لکھ سکتے ہیں جو ہماری فیس بکی تحاریر میں آتے رہے ہیں ؟ آپ کا کیا خیال ہے، اگر ہم نے کبھی اپنی تحاریر کا مجموعہ شائع کیا تو وہ الفاظ وہاں آسکیں گے ؟ نہیں بھئی، وہ ایڈٹ ہوجائیں گے۔
ہم سب مجالس میں کھلی ڈلی گفتگو کرتے ہیں۔ حتی کہ ادیب بھی ایسا ہی کرتے ہیں، لیکن جب سیمینار سے مخاطب ہوتے ہیں تو لہجہ ہی نہیں الفاظ بھی بدل جاتے ہیں۔ کیونکہ وہاں سامع خاموش ہے، اور بولنے والا بول رہا ہے۔ بظاہر سیمینار مجلس ضرور ہے مگر اس کا ماحول مجلسی نہیں ہے۔ مجلسی ماحول یہ ہوتا ہے کہ تمام شرکاء شریک گفتگو ہیں۔ جس کے جو جی میں آرہا ہے کہہ رہا۔ تلخی بھی ہو رہی ہے اور ہنسی مذاق بھی۔
سو فیس بک پر اسلوب مجلسی ہی کامیاب ہوگا، ایسی صورت میں ہفتے میں ایک آدھ تحریر اگر آپ جریدے یا مقالے والے اسلوب میں بھی لکھ دیں گے، تو ہماری گارنٹی ہے کہ وہ بھی چل جائے گی۔ لیکن اسے آپ مستقل معمول نہیں بنا سکتے۔
فیس بک کی نسبت سے بات یہیں ختم نہیں ہوجاتی۔ اس کا سب سے بڑا احسان تو کچھ اور ہے۔ ذرا سوچئے کتنے ہی رائٹر ہوں گے جو سوشل میڈیا دور سے قبل محض اس لئے منظر عام پر ہی نہ آسکے کہ ایڈیٹر کے “معیار” پر پورا نہیں اتر سکے۔ یہ ایڈیٹر کا معیار بھی عجب شئی ہے۔ بطاہر یوں لگتا ہے کہ وہ بس یہ دیکھتا ہے کہ تحریر تکنیکی لحاظ سے ٹھیک ہے یا نہیں ؟ مگر فی الحقیقت بات اتنی سادہ نہیں۔
مثلا ادب کی دنیا میں ہی دیکھ لیجئے۔ آپ ادیبوں کے کسی بھی حلقے سے نہیں تو کہیں نہیں چھپ سکتے۔ اگر ایک حلقے سے ہیں تو دوسرے حلقے میں نہیں چھپ سکتے۔ دوسرے حلقے سے آپ پر صرف تبرا ہوسکتا ہے۔ ابھی کل ہی ہم نے ایک شاعر کو ایک ہی نشست میں شمس الرحمن فاروقی، حسن عسکری اور اقبال کو ڈی گریڈ کرتے سنا۔ پرابلم بس اتنی سی تھی کہ قبلہ شاعر کے تصورات مذکورہ بالا تین ہستیوں سے میل نہیں کھاتے تھے۔
رعایت اللہ فاروقی کی دیگر تحاریر پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں۔
گویا فن گیا بھاڑ میں، ان شخصیات کو اپنے نظریے یا عقیدے کی عینک سے دیکھا جائے گا۔ اپنے نطریے اور عقیدے کے نہیں، تو فنی لحاظ سے جتنے بھی بلند ہوں، ان کی تحقیر کی جائے گی۔ اور ایسے دلائل تراشنے کی کوشش ہوگی جن کی مدد سے ثابت کیا جاسکے کہ شمس الرحمن فاروقی، حسن عسکری اور اقبال تو بس متوسط درجے کے لوگ ہیں۔
سو جہاں شمس الرحمن فاروقی، حسن عسکری، اور اقبال کو بھی ان کے مقام سے گرانا فرض سمجھا جاتا ہو وہاں کسی اجنبی کے لئے کہاں ممکن کہ منظوری حاصل کرسکے ؟ ان حالات میں فیس بک ہی وہ واحد مقام ہے جہاں نئے رائٹر کو ابھرنے سے کسی ایڈیٹر کے ابا حضور بھی نہیں روک سکتے۔ یہاں کوئی بھی “بے کس و لاچار” اپنے قلم کا لوہا منوا سکتا ہے۔ یہاں کوئی نہیں جو نئی آواز کا گلا گھونٹ سکے۔
بات یہیں ختم نہیں ہوجاتی۔ اب وہ سنئے جو آپ بالکل نہیں جانتے۔ ملک کے صف اول کے تین اخبارات نے پچھلے پندرہ برسوں کے دوران ایک عجیب پالیسی متعارف کرا دی تھی۔ تینوں بڑے اخبارات نے کچھ ایسی شخصیات کو کالم نگار کے منصب پر فائز کردیا تھا جو سماجی سطح پر کسی نہ کسی حوالے سے “متعارف” تھے۔ خدا جانے ان کے نام سے چھپنے والے کالم لکھتا کون ہے مگر اخبارات میں نام ان پر ان معروف لوگوں کا ہی ہوتا ہے۔ ان میں ایک دو ایسے بھی ہیں جو ٹاک شوز کے بڑے نام ہیں۔ ان کی اس صلاحیت سے انکار ہی نہیں۔ بلا شبہ بڑے اینکر ہیں۔
ایک نیوز ویب سائٹ نے فیصلہ کیا کہ ان میں سے ایک بڑے نام کو اپنے پلیٹ فارم پر لایا جائے تاکہ لاکھوں قارئین حاصل کئے جاسکیں۔ مگر ایک ماہ بعد ہی چلتا کردیا۔ ہم نے ایڈیٹر سے وجہ پوچھی تو جواب ملا
“انہیں کوئی پڑھ ہی نہیں رہا تھا، تو مفت میں کس بات کے پیسے دیتے ؟ٹویٹر پر انہیں لاکھوں لوگوں نے فالو کر رکھا ہے۔ اور پڑھ انہیں دو ہزار افراد بھی نہیں رہے تھے”
اگر آپ غور کریں تو فیس بک پر توصیفی یا تنقیدی کسی نہ کسی پہلو سے پروفیشنل کالم نگار زیر بحث ضرور ہوتے ہیں۔ ان کے کالمز شیئر بھی ہوتے نظر آتے ہیں۔ مگر یہ نان پروفیشنل “مشہور” کہیں زیر بحث ملتے ہیں ؟ گویا یہ بھی فیس بک اور ٹویٹر کا ہی احسان ہے کہ ان کا پول کھول دیا ہے۔ اور ثابت کردیا ہے کہ یہ شہرت کی وجہ سے بس چھپ ہی رہے ہیں۔ پڑھ انہیں کوئی نہیں رہا۔