ہمارے لبرل حلقوں کی جانب سے وقتاً فوقتاً سوشل میڈیا پر مذہبی فکر رکھنے والے فکشن رائٹرز کو طنز کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ ان کی باقاعدہ تحقیر کی جاتی ہے۔ ہم اس سے ہمیشہ لاتعلق رہتے ہیں۔
یعنی دفاع وغیرہ کا کشت نہیں اٹھاتے۔ البتہ ایک بار ایسا ہوا کہ تحقیر کرنے والے نے بانو قدسیہ کو ہی نشانے پر لے لیا۔ سو ہم سے رہا نہ گیا اور کمنٹس بار میں کچھ گزارشات کردیں۔ سوال یہ ہے کہ ایسا کیوں ہے کہ بانو قدسیہ کو تو ہم نے ڈیفینڈ کیا لیکن دیگر کے معاملے میں ہم خاموش رہتے ہیں ؟
اس ضمن میں دو باتیں سمجھنے کی ہیں۔ پہلی یہ کہ لبرل فکر والوں نے مذہبی فکر کو تنقید کا نشانہ بنانا ہی بنانا ہے۔ کیونکہ یہ وہ فکر ہے جس سے وہ اتفاق نہیں رکھتے ۔ سو یہ ایک فطری چیز ہے کہ وہ تنقید کریں گے۔ خود ہم بھی لبرل فکر پر تنقید کرتے ہیں۔ مگر جو دوسری بات ہے وہ اصل مسئلہ ہے۔
مذہبی فکر رکھنے والے فکشن نگار کا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ وہ اپنی کہانی کو سماجی روایات اور نفسیات سے ہم آہنگ کرنے میں بری طرح ناکام ہے۔ اس کا سارا زور بس “مذہبی ٹچ” پر رہتا ہے۔ ایسا نہیں کہ سب کے ہاں یہ صورتحال ہے۔ اشفاق احمد اور بانو قدسیہ کے ہاں یہ صورتحال نہیں۔ مگر مردوزن دونوں میں کچھ اور معروف نام ایسے ہیں جن کے ہاں یہ کمی شدت سے محسوس ہوتی ہے۔
اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ یہ کمی کوئی بڑا مسئلہ نہیں تو اس کا مطب ہے وہ فکشن کی ساخت سے آگہی نہیں رکھتا۔ اور نہیں جانتا کہ فکشن کی تخلیق کے بنیادی اجزاء ہیں کیا ؟ فکشن کی ہر سطر کو معاشرت اور نفسیات سے جڑا نظر آنا چاہئے۔ فکشن ہے ہی انسان اور اس کے سماج کا ایکسرے۔
اگر کوئی رائٹر ان دونوں کا پورا شعور رکھتا ہی نہیں تو وہ ماہرین فن کی نظر میں مردود ہی ٹھرے گا۔آپ انسان اور اس کے تشکیل دیئے سماج پر قلم اٹھا رہے ہیں اور یہی نہیں جانتے کہ انسانی نفسیات ہے کیا ؟ تو سماج کو کیسے سمجھ سکتے ہیں ؟ سماج کی ساخت میں نفسیات کا کردار کلیدی ہے۔ اور نفسیات ایسی چیز ہے جو جو موسم اور جغرافیے تک کے زیر اثر رہتی ہے۔ مثلا پہاڑی اور میدانی انسان کی نفسیات ایک جیسی نہیں ہوتی۔
شدید گرم اور شدید سرد علاقوں والے انسانوں کی نفسیات بھی ایک دوسرے سے مختلف ہوتی ہے۔ پھر سب سے اہم یہ کہ نفسیات سے ہٹ کر بھی جغرافیائی حالات اور موسم دونوں سماج کی ساخت پر اثر انداز ہوتے ہیں۔
جب ان بنیادی باتوں کا شعور نہ ہو تو لکھا گیا ناول بے اثر رہ جاتا ہے۔ مثلا لبرل فکر رکھنے والا پاکستانی فکشن نگار اگر افغان جنگ کے پس منظر میں ناول لکھے اور اس کے باوجود لکھے کہ وہ افغانستان میں اتنے عرصے کے لئے بھی نہیں رہا کہ واجبی حد تک ہی افغان نفسیات و سماج کو سمجھ سکے تو ایسے ناول کو لاہور کا نقاد جتنی بھی داد دیدے وہ ناول اور داد دونوں ہی لغو رہیں گے۔
خود ہم اس ناول کو محض اس بنیاد پر پڑھنے سے گریز کریں گے کہ جب لکھنے والے نے افغانستان میں قیام کیا ہی نہیں تو اس کے ناول کا کیا اعتبار ؟ باقی سب چھوڑ دیجئے، کیا وہ اتنا ہی بتا سکتا ہے کہ افغان نان پاکستانی نان کے مقابلے میں سائز اور ساخت دونوں حوالوں سے مختلف کیوں ہے ؟ سو یہ اصول ہے کہ فکشن انسانی نفسیات اور معاشرتی روایات کے دائرے میں ہی تخلیق ہوگا۔
یوں سمجھ لیجئے کہ ان دونوں چیزوں کا کردار اس میں سیمنٹ اور بجری کا ہے۔ اگر یہی کمزور ہیں تو عمارت کا گرنا طے سمجھئے۔ ہم آپ کو اس کی ایک مثال دیتے ہیں۔
آپ نے ٹالسٹائی کے ناول اینا کرینینا کا نام تو سنا ہی ہوگا۔ اس کا ذکر بھی پڑھ اور سن رکھا ہوگا۔ اس ناول پر بات کرنے والے ایک عجیب ظلم یہ کرجاتے ہیں کہ داد و تحسین کے ڈونگرے تو برسا دیں گے مگر جان بوجھ کر اس ناول کے موضوع کا ذکر گول کر جائیں گے۔
ٹالسٹائی کے ہاں ایک حیران کن ہنر یہ ہے کہ وہ مرکزی کہانی کے گرد چھوٹی چھوٹی ضمنی کہانیوں کا بھی ایک شہر آباد کر دیتا۔ اور اس شہر کے وسط میں اپنا اصل موضوع گویا کریملن کے گنبد کی طرح کھڑا کردیتا ہے۔ اور یہ سب ایک دوسرے سے مکمل طور پر مربوط بھی ہوتا ہے۔ چنانچہ آپ نے دیکھا ہوگا کہ ٹالسٹائی کے ہاں “کردار” بہت زیادہ ہوتے ہیں۔ اس کے وار اینڈ پیس کے کردار تو چھ سو سے زائد ہیں۔
سو اینا کرینینا پر بات کرنے والوں کے لئے آسان ہوجاتا ہے کہ وہ اصل موضوع کو گول کر جائیں۔ اور بس ضمنی کہانیوں کے شہرستان کی شان و شکوہ کی داد دیں۔
اب ذرا آیئے اس بات کی جانب جو ہم سمجھانا چاہتے ہیں۔ اینا کرینینا کا موضوع ہے “زنا” اور وہ بھی شادی شدہ عورت کا۔ اگر آپ روسی سماج کا شعور رکھتے ہوں تو ضرور جانتے ہوں گے کہ جنسی امور میں روسی ایک قدامت پسند قوم ہے۔ ان کے ہاں پبلک پلیس پر کوئی بڑی جنسی سرگرمی تو دور بوس و کنار بھی نہیں ہوتا۔
وہ ہم جنس پرستی کے بھی شدید خلاف ہیں۔ یہ دونوں معاملات آج کے روس میں بھی قابل دست اندازی پولیس ہیں۔ وہ کہتے ہیں، آپ نے جنسی تسکین حاصل کرنی ہے تو دو باتوں کی پابندی لازمی ہے۔ پہلی یہ کہ یہ سرگرمی مرد و عورت کے بیچ ہونی چاہئے۔ دوسری یہ کہ یہ تخلیے میں ہونی چاہئے۔
اب ٹالسٹائی تقریبا ڈیڑھ سو برس قبل کا لیجنڈ ہے۔ تو خود ہی اندازہ کر لیجئے کہ اس زمانے میں یہ روسی سوچ کتنی پختہ رہی ہوگی اور زنا اس کے ہاں باقاعدہ موضوع کیوں بنا ہوگا؟ ٹالسٹائی مذہبی شخص تھا۔
اس کے فکشن والے دور میں خدا اور اس کی منشاء اس کی ترجیحات میں شامل تھے۔ لیکن کیا آپ کو اینا کرینینا میں کوئی “مفتی پن” نظر آتا ہے ؟ اس موضوع کو اس نے خالصتا سماجی روایات اور نفسیات کے تحت نبھا کر ثابت کیا ہے کہ زنا نقصان پہنچانے والی چیز ہے۔
حتیٰ کہ وہ یہ فتوی بھی باقاعدہ صادر نہیں کرتا کہ زنا نقصان پہنچانے والی چیز ہے۔ وہ تو بس اپنی کہانی کی ساخت اور کرداروں پر پڑنے والے نفسیاتی اثرات سے ثابت کردیتا ہے کہ یہ ایک نقصان دہ سرگرمی ہے اور اس سے بچنا چاہئے۔ اسے یہ کہنے کی ضرورت ہی پیش نہیں آتی کہ “اس سے بچنا چاہئے” کہانی کے نتائج خود بخود یہی نکل آتے ہیں۔
سو ہماری تجویز یہ ہے کہ ہمارا مذہبی فکشن نگار چار لوگوں کا بغور مطالعہ کرے۔ صرف مطالعہ ہی نہ ہی کرے بلکہ اس مطالعے کو طویل اور گہرے غور و خوض سے بھی گزارے۔ اپنے دماغ کو اس غور و فکر پر اتنا کھپائے کہ اعصاب چٹخنے کی نوبت آجائے۔ وہ چار لوگ یہ ہیں
٭ جلال الدین رومی
٭ شیخ سعدی
٭ لیو ٹالسٹائی
٭ فیودور دوستوئیسکی
ان چار لوگوں سے آپ یہ سیکھ سکتے ہیں کہ سماجی مسائل پر بات کس طرح کی جاتی ہے ؟ انسانی ذہن کو انسانی نفسیات کی روشنی میں کیسے مخاطب کیا جاتا ہے۔ کیا آپ جانتے ہیں رومی پر امریکہ میں باقاعدہ سینٹر قائم ہے ؟ ان کے افکار پر باقاعدہ کام چل رہا ہے ؟ آخر کیا وجہ ہے کہ گورا رومی کے سحر میں مبتلا ہے وہ بھی اکیسویں صدی میں ؟ کیونکہ رومی کی نفسیات اور سماجیات پر اعلی درجے کی گرفت ہے۔
رعایت اللہ فاروقی کی دیگر تحاریر پڑھنے کیلئے لنک پر کلک کریں
اس کی بات محض مذہبی نہیں ہوتی۔ وہ مذہبی بات کو بھی نفسیات سے اتنا ریلیٹ کردیتا ہے کہ اس کا مذہبی پن پس منظر میں چلا جاتا ہے۔ اسی لئے تو غیر مسلم بھی اس پر غور کر رہا ہے۔ اگر وہ خالص مذہبی بات ہوتی تو گورا نظر انداز کرتا ۔ وہ کہتا، میرا سلامی تعلیمات سے کیا لینا دینا ؟
سو ہماری سنجیدہ تجویز ہے کہ نئے ابھرنے والے مذہبی فکشن نگار اس کمی کو دور کرنے پر توجہ دیں، ورنہ مولویوں اور مذہبی سوچ والوں کے سوا انہیں کوئی نہیں پڑھے گا۔ اور ہم تو خیر سے مولوی و مذہبی دونوں ہو کر بھی نہ پڑھیں گے !