گزشتہ دن کراچی کی معروف اور قدیمی دینی درسگاہ جامعہ اسلامیہ مخزن العلوم نارتھ ناظم آباد کی سالانہ تقریب دستار بندی میں شرکت کا موقع ملا۔
یہ پروگرام کئی حوالوں سے غیر روایتی، منفرد اور اس جامعہ کے مہتمم مولانا ڈاکٹر قاسم محمود کے وژن اور ذوق کا آئینہ دار تھا۔ سب سے پہلی چیز جو قطعی غیر روایتی بلکہ “ٹیبو شکن” تھی، وہ اس پروگرام کے مہمان تھے۔ ماشاءاللہ زندگی کے ہر شعبے سے تعلق رکھنے والی نمایاں شخصیات کا خوبصورت گلدستہ سجا ہوا تھا۔ بالخصوص سیکولر اور لبرل سمجھی جانے والی سیاسی جماعتوں جیسے متحدہ قومی موومنٹ پاکستان اور پاکستان پیپلز پارٹی کے نمائندے بھی ایک دینی جامعہ کے روحانی اسٹیج پر پہلو بہ پہلو بیٹھے ہوئے تھے۔ جنہیں عموما ایسی مذہبی مجلسوں سے دور ہی رکھا جاتا ہے۔ یہ بھی خاصی انوکھی بات تھی کہ طلبہ کی ہم نصابی سرگرمیوں میں میڈیا ٹاک شو، خاکے اور مارشل آرٹس مقابلے بھی شامل تھے۔ اس کے علاوہ ایک اور منفرد بات اس تقریب کی یہ تھی کہ ایک سیگمنٹ جامعہ کے مہتمم مولانا ڈاکٹر قاسم محمود کے سفرناموں کی رونمائی کا تھا۔ یہ سب وہ سرگرمیاں تھیں، جو تقریب کو یکسانی کی بوریت سے محفوظ اور شرکا کی دلچسپی آخر تک کھینچے رکھنے کیلئے کافی تھیں۔
یوں تو ہمیں اس تقریب کے سارے ہی سیگمنٹ عمدہ اور دلچسپ محسوس ہوئے، تاہم کچھ کچھ “کتابی” ہونے کے باعث ہمارے لئے زیادہ دلبستگی کا سامان بہرحال کتابوں کی رونمائی کے سیگمنٹ میں تھا۔ یہ اس تقریب کا آخری سیگمنٹ بھی تھا، چنانچہ مہمان خصوصی ناظم اعلیٰ وفاق المدارس العربیہ مولانا محمد حنیف جالندھری صاحب کا خطاب بھی اسی سیگمنٹ کے آخری لمحوں میں رکھا گیا تھا۔ جالندھری صاحب کو کئی بار سننے کا اتفاق ہوا ہے، تاہم کتاب کی رونمائی جیسی کسی خالص “فنی” تقریب میں ان کو سننے کا یہ پہلا تجربہ تھا۔ خیال تھا کہ رونمائی کیلئے موجود دونوں کتابوں کا سرسری ذکر کرکے وہ “وہی ڈھاک کے تین پات” کے مصداق موضوعِ سخن کے کان مروڑ کر روئے سخن مدارس کے فضائل، دفاع و تحفظ کے روایتی اور کئی بار بے شمار مقررین سے سنے ہوئے “پامال” خیالات کی طرف پھیر دیں گے، مگر ہوا وہی جو غالب خستہ کے ساتھ ہوا تھا کہ “دیکھنے ہم بھی گئے تھے، پہ تماشا نہ ہوا۔۔۔” ماشاءاللہ حضرت نے اپنے خطیبانہ آہنگ میں گفتگو کا آغاز کیا تو استاد غالب والا احساس جاگنا شروع ہوا کہ “وہ کہیں اور سنا کرے کوئی۔۔۔” حضرت نے بہت دلچسپ پیرائے میں کتاب، صاحب کتاب، سفر اور سفرنامہ کی صنف پر ایسی دلنشین گفتگو کی کہ شروع سے آخر تک ہمہ تن گوش رہنا پڑا۔
اب آتے ہیں ان دو کتابوں کے ذکر کی طرف جن کا چہرہ دکھانے کیلئے اس تقریب کا اہتمام کیا گیا تھا۔ گیارہویں صدی ہجری کے عظیم فارسی شاعرنظیری نیشاپوری کا ایک شہرہ آفاق مصرع ہے ع
افسانہ کہ گفت نظیری کتاب شد
یعنی نظیری نے داستان کہنا شروع کردی تو وہ کتاب بن گئی۔ میرے سامنے اس وقت مہتمم جامعہ اسلامیہ مخزن العلوم کراچی، معروف اسکالر مولانا ڈاکٹر قاسم محمود صاحب کی دو کتابیں رکھی ہوئی ہیں، جو حال ہی میں چھپ کر منظر عام پر آئی ہیں۔ پہلی کتاب ”دیارِ خلافت کا سفرِ شوق“ ہے، مختصراً اس کا تعارف یہ بنتا ہے کہ اپریل 2021ءمیں ڈاکٹر صاحب نے ملک بھر کے جید علماءکے ایک موقر وفد کے ہمراہ جمہوریہ ترکیہ کا آٹھ روزہ سیاحتی سفر کیا۔ اس وفد کی قیادت ناظم اعلیٰ وفاق المدارس العربیہ پاکستان حضرت مولانا محمد حنیف جالندھری فرما رہے تھے۔ اس آٹھ روزہ سفر کی داستان مولانا ڈاکٹر قاسم محمود نے کہنی شروع کردی تو وہ نظیری نیشاپوری کے بقول طویل ہوکر پوری ایک کتاب بن گئی، جس کی وجہ شاید عرفی شیرازی والا قصہ رہی ہوگی کہ
لذیذ بود حکایت، دراز تر گفتم
چنانکہ حرفِ عصا موسی گفت اندر طور
یعنی داستان ہی اتنی لذیذ تھی کہ اسے طول دیے بغیر چارہ ہی نہ رہا، جیسے کوہ طور پر جلوہ ربانی کے لطف و لذت کے وقت حضرت مو سیٰ علیٰ نبینا و علیہ السلام نے رب تعالیٰ سے ہمکلامی کا دورانیہ بڑھانے کیلئے عصا کے متعلق سوال کے جواب کو جان بوجھ کر طول دیا تھا۔ الغرض ڈاکٹر صاحب نے آٹھ دن کے اس سفر کی داستان سنانا شروع کردی تو وہ پھیل کر پون دو سو صفحوں کی ضخیم کتاب بن گئی۔
یہ تورہا مختصر تعارف، اب تفصیل اس اجمال کی یہ ہے کہ ڈاکٹر صاحب نے اپریل دوہزار اکیس میںکراچی سے ترکیہ کی طرف رخت سفر باندھا تو اس کی روداد سنانا شروع کردی، مگر یہ سلسلہ آٹھ روز بعد عالم اسلام کے ثقافتی دار الحکومت استنبول سے واپس گھر پہنچ کر رِکاب سے اترنے کے کئی ماہ بعد تک جاری رہا۔ گویا سفر ختم، مگر روداد سفر جاری رہی۔ ڈاکٹر صاحب یہ روداد سفر قسط وار اپنی فیس بک آئی ڈی پر پوسٹ کرتے رہے، یہ قسطیں ایک سو سے اوپر چلی گئیں اور شروع سے آخر تک نہ صرف یہ کہ اس سفر کے درجنوں شرکا اس کے ساتھ جڑے رہے بلکہ بے شمار دیگر لوگ بھی اس دلچسپ داستان کی سماعت کیلئے ڈاکٹر صاحب کی ایف بی وال سے چپکے نظر آئے۔ انداز بیان کی دلنشینی، عبارت کی روانی اور پھر خلافت عثمانیہ کے آثار سے ا±نس کے گہرے رشتے کا اثر تھا کہ اس احوالِ سفر کو زبردست مقبولیت حاصل ہوئی۔ سفر کا احوال بالاقساط مکمل ہوا تو آنے والے چند ماہ کے اندر اس کی کتابی شکل میں تدوین اور ایڈٹ کی ضرورت محسوس کی گئی اور یوں کچھ ہی عرصے میں سوفٹ کاپی میں کتاب مکمل ہوگئی، تاہم دلچسپ سفر کی اس لذیذحکایت کے کتابی صورت میں طباعت کا مرحلہ اب جا کر آیا ہے۔
جہاں تک مشمولات کی بات ہے، کتاب کی تمہید میں الغائے خلافت، جدید جمہوریہ ترکیہ کے قیام، نئے حالات میں ریاستی سطح پر دین اسلام پر عمل کے حوالے سے مشکلات، کمال ازم کے جبر تلے سیاست و سماج کے میدان میں احیائے دین کی جدوجہد اور جناب رجب طیب ایردوآن کے لائے ہوئے سافٹ انقلاب پر مختصر روشنی ڈالی گئی ہے اور اس کے بعد استنبول سے لیکر قونیہ اور پھر استنبول تک سوغوت، اِسکی شہر، بورصا سمیت کئی شہروں کے درجنوں مقامات، تاریخی مساجد، عہد خلافت کے آثار، سلاطین کی یادگاروں اور مزارات کا سیاحتی اور تاریخی احوال درج ہے، اس کے علاوہ کتاب میں ترک قوم کی عادات، تہذیب و تمدن اور سوِک سینس پر بھی جا بجا روشنی ڈالی گئی ہے۔
اہل اللہ کے سفر و حضر دونوں ذکر اللہ سے خالی نہیں ہوتے۔ اس سفر کے دوران بھی ہوا، سمندر اور خشکی جہاں بھی موقع و ماحول موزوں دکھائی دیا، اس سفر کے سبھی شرکا جو ماشاءاللہ سب اہل اللہ تھے اور ہیں، ذکر اللہ کی روح پرور مجلسیں سجاتے رہے، کتاب میں ان سفری مجلسوں کا بھی دلنشین احوال ملتا ہے۔
دوسری کتاب ”پھر کرم ہوگیا“ بھی ایک سفرنامہ ہے اور یہ سفرنامہ عمرہ اور زیارت حرمین شریفین کا ہے۔ یہ پچاس صفحوں پر محیط ایک مختصر کتابچہ ہے۔ اس کا انداز عاشقانہ اور عاجزانہ ہے۔ حرمین شریفین کی حاضری کے آداب، حرمین شریفین کی زیارت کی بے تابانہ آرزو، اہل اسلام کا ایمانی رشتہ، زیارت حرمین کے سلسلے میں اکابر و اسلاف کے مذاق و مزاج اور زیارت حرمین کے سلسلے میںمفید و موثر مجرب نسخوں کا بھی ذکر ہے۔ اللہ تعالیٰ دونوں کتابوں کو نافع اور قبول و مقبول فرمائے، آمین۔