شام میں بشار الاسد کے دور آمریت میں شہید، گرفتار اور پھر لاپتہ ہونے والے افراد کا ڈیٹا جمع کرنے کا سلسلہ تا حال جاری ہے۔ وزیر عدل شادی الویسی کا کہنا ہے کہ ابتدائی تحقیقات سے معلوم ہوا ہے کہ بشار کے دور میں جبری لاپتہ کئے جانے والے شامیوں کی تعداد ربع ملین (ڈھائی لاکھ) سے زاید ہے۔
بعض ذرائع کا کہنا ہے کہ اصل تعداد نصف ملین سے بھی زاید ہوسکتی ہے۔ اس سیاہ دور میں جنگل کا قانون نافذ تھا۔ اس حوالے سے کچھ وکلاء نے پہلے سے کام شروع کیا تھا۔ اندازہ لگایئے کہ صرف ایک خاتون وکیل نورا غازی نے 3500 ایسے خاندانوں کی مکمل تفصیلات جمع کی ہیں، جن کے پیارے لاپتہ کر دیئے گئے۔ ایسے افراد کی تعداد ڈیڑھ لاکھ ہے، جن کے ناموں کی مختلف جیلوں میں انٹری کی گئی تھی، مگر ان کا کچھ پتہ نہ چل سکا۔ جبکہ بشاری درندے بعض جیلوں کے ڈاکومنٹس ضائع کر کے فرار ہوگئے۔ اس لیے ہزاروں افراد کے بارے میں معلومات کا کوئی ذریعہ بھی نہیں ہے۔ پھر بھی حکام مختلف ذرائع سے ڈیٹا جمع کر رہے ہیں۔ 13 سالہ فرعونی دور میں شامی عوام پر قیامت ڈھائی جاتی رہی۔ ہم اس رپورٹ میں شامی متاثرین پر مختصر روشنی ڈالیں گے۔
اسرائیلی جیل سے منگیتر کی رہائی کا 16 سال تک انتظار کرنے والی فلسطینی لڑکی کے سہرے کے پھول کھل گئے
دور سیاہ میں متاثرین کا ڈیٹا جمع کرنے والے شامی نیٹ ورک برائے انسانی حقوق نے ان 13 برسوں کے دوران 236,278 شہریوں کی شہادت کو دستاویزی شکل دی ہے، جن میں 15,334 افراد جیلوں اور عقوبت کدوں میں تشدد کرکے ہلاک کیا گیا اور 156,757 افراد کو جبری طور پر لاپتہ کیا گیا۔ تقریباً 14 ملین شامی باشندے بے گھر ہوگئے۔ شامی عوام 13 سال تک دنیا کے سب سے بدترین جابرانہ نظام کا تنہا سامنا کرنے پر مجبور ہوئے۔ بدقسمتی سے دنیا نے ان کے حق میں آواز تک نہیں اٹھائی۔ پرامن مظاہرین کے خلاف بشار حکومت کا ردعمل انتہائی پرتشدد تھا۔ مظاہرین پر براہ راست گولیاں چلائی گئیں اور ان کے رہنماؤں کو بڑے پیمانے پر گرفتار کیا گیا۔ گرفتار شدگان کو سخت اذیت کا نشانہ بنایا گیا، جس کے نتیجے میں کچھ افراد دوران حراست جاں بحق ہو گئے۔ آج بھی 2011 سے سیاسی قیدیوں کی بڑی تعداد لاپتہ ہے۔ کم از کم 236,278 شہریوں کی ہلاکت کا اندراج کیا گیا ہے، جن میں 30,193 بچے اور 16,451 خواتین (بالغ خواتین) شامل ہیں۔ 201,260 افراد جن میں 23,039 بچے اور 12,002 خواتین شامل ہیں، شامی حکومت کی افواج کے ہاتھوں ہلاک ہوئے۔ روسی افواج نے 6,969 افراد کو ہلاک کیا، جن میں 2,055 بچے اور 983 خواتین شامل ہیں۔
داعش کے ہاتھوں 5,056 افراد، جن میں 959 بچے اور 587 خواتین شامل ہیں، قتل ہوئے، جبکہ حکومت مخالف جنگجوؤں کے ہاتھوں 538 افراد، جن میں 76 بچے اور 82 خواتین شامل ہیں، ہلاک ہوئے۔ نیشنل آرمی کے ہاتھوں 4,227 افراد، جن میں 1,009 بچے اور 886 خواتین شامل ہیں، قتل کیے گئے۔ شامی ڈیموکریٹک فورسز (قسد) کے ہاتھوں 1,491 افراد ہلاک ہوئے، جن میں 264 بچے اور 177 خواتین شامل ہیں۔ بین الاقوامی اتحاد کی افواج کے حملوں میں 926 بچوں اور 658 خواتین سمیت 3,055 افراد ہلاک ہوئے۔ دیگر فریقوں نے 8,678 شامیوں کو قتل کیا، جن میں میں 1,865 بچے اور 1,076 خواتین شامل ہیں۔
13 سالوں کے دوران ہلاکتوں کے مجموعی اعداد و شمار اور ان کے تجزیے سے ظاہر ہوتا ہے کہ 91فیصد ہلاکتیں شامی حکومت اور اس کے اتحادیوں کے ہاتھوں ہوئیں، جبکہ مجموعی شہری ہلاکتوں کا تقریباً 52فیصد دمشق کے دیہی علاقوں، حلب اور حمص کے صوبوں میں ہوا۔ شہدا میں 876 طبی عملے کے افراد شامل ہیں، جن میں سے تقریباً 83فیصد کو شامی اور روسی اتحاد کی افواج نے قتل کیا۔ اسی طرح، 717 میڈیا کے کارکنان کی ہلاکت کا اندراج کیا گیا، جن میں سے تقریباً 78فیصد کو شامی حکومت کی افواج نے قتل کیا۔ کم از کم 156,757 افراد کو دستاویزی طور پر قید یا جبری گمشدگی کا شکار بتایا گیا ہے، جن میں 5,235 بچے اور 10,205 خواتین شامل ہیں۔ ان میں سے 3,696 بچوں اور 8,497 خواتین سمیت 136,192 افراد کو شامی حکومت نے لاپتہ کیا۔ داعش نے 8,684 افراد کو لاپتہ کیا، جن میں 319 بچے اور 255 خواتین شامل ہیں۔ حکومت مخالف جنگجوئوں نے 2,587 افراد کو حراست میں لیا، جن میں 47 بچے اور 45 خواتین شامل ہیں۔
القادر یونیورسٹی میرے پاس آگئی، اب جادو ٹونہ نہیں، تعلیم ہوگی، مریم نواز
نیشنل آرمی نے 4,243 افراد کو گرفتار کیا، جن میں 364 بچے اور 879 خواتین شامل ہیں۔ شامی ڈیموکریٹک فورسز (قسد) نے 5,051 افراد کو قید کیا، جن میں 809 بچے اور 529 خواتین شامل ہیں۔ تشدد کے سبب ہلاک ہونے والوں کی تعداد کم از کم 15,334 بتائی گئی ہے، جن میں 199 بچے اور 115 خواتین شامل ہیں۔ ان میں سے 15,074 افراد، جن میں 190 بچے اور 95 خواتین شامل ہیں، شامی حکومت کی افواج کے ہاتھوں مارے گئے، جو کل تعداد کا تقریباً 99 بنتا ہے۔ داعش کے ہاتھوں 32 افراد، جن میں ایک بچہ اور 14 خواتین شامل ہیں، ہلاک ہوئے۔ حکومت مخالف جنگجوئوں نے 41 افراد کو قتل کیا، جن میں 2 بچے اور ایک خاتون شامل ہیں۔ نیشنل آرمی نے 57 افراد کو قتل کیا، جن میں ایک بچہ اور 2 خواتین شامل ہیں۔ شامی ڈیموکریٹک فورسز (قسد) کے ہاتھوں 100 افراد ہلاک ہوئے، جن میں 2 بچے اور 3 خواتین شامل ہیں۔ دیگر فریقوں نے 30 افراد کو قتل کیا، جن میں 2 بچے اور ایک خاتون شامل ہے۔
بشار حکومت نے عوامی قتل عام کے لیے چار اقسام کے ہتھیار زیادہ تر استعمال کئے: سب سے زیادہ بیریل بم، پھر کیمیکل ہتھیار، پھر کلسٹر ایمونیشن اور آتش گیر ہتھیار۔ بشار حکومت کے ہیلی کاپٹر اور جنگی طیاروں نے کم از کم 81,916 بیریل بم گرائے، جن کا پہلا ریکارڈ شدہ استعمال 18 جولائی 2012 کو ہوا۔ ان حملوں کے نتیجے میں 11,087 شہری شہید ہوئے، جن میں 1,821 بچے اور 1,780 خواتین شامل ہیں۔ شام میں دسمبر 2012 سے کیمیائی ہتھیاروں کے 222 حملوں کا اندراج کیا گیا۔ ان میں سے 217 حملے شامی حکومت نے کیے، جبکہ 5 حملے داعش کے ہاتھوں انجام پائے۔ ان حملوں میں مجموعی طور پر 1,514 افراد ہلاک ہوئے، جن میں 214 بچے اور 262 خواتین شامل ہیں اور یہ تمام ہلاکتیں بشار حکومت کے حملوں میں ہوئیں۔
مزید یہ کہ 11,212 افراد زخمی ہوئے، جن میں 11,080 افراد بشار حکومت کے حملوں اور 132 افراد داعش کے حملوں میں زخمی ہوئے۔ کلسٹر ایمونیشن بشار حکومت اور اس کے روسی اتحادی نے بڑے پیمانے پر استعمال کیا۔ جولائی 2012 سے ان ہتھیاروں کے 497 حملے ریکارڈ کیے گئے، جن میں سے 252 حملے بشار حکومت نے، 237 حملے روسی افواج نے، اور 8 مشترکہ روسی/شامی حملے تھے۔ ان حملوں کے نتیجے میں 1,053 شہری شہید ہوئے، جن میں 394 بچے اور 219 خواتین شامل ہیں۔ آتش گیر ہتھیاروں کے 181 حملے ریکارڈ کیے گئے، جن میں سے 51 حملے بشار حکومت، 125 روسی افواج، اور 5 بین الاقوامی اتحاد کی افواج نے کیے۔ یہ حملے زیادہ تر شہری علاقوں کو نشانہ بنانے کے لیے کیے گئے۔ بشار اور اس کے اتحادیوں نے بنیادی ڈھانچے کو تباہ کیا۔ مارچ 2011 سے اب تک 897 طبی مراکز، 1,453 عبادت گاہیں اور 1,675 اسکولوں پر حملے ریکارڈ کیے گئے، جن میں سے کئی کو متعدد بار نشانہ بنایا گیا۔ ان حملوں میں شامی، روسی، اور ایرانی اتحاد کا حصہ تقریباً 86 فیصد رہا۔ نصف سے زیادہ شامی عوام یا تو بے گھر ہوئے یا پناہ گزین بن گئے۔ اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے مہاجرین کے مطابق تقریباً 13.4 ملین شامی افراد اندرونی طور پر بے گھر ہوئے یا دیگر ممالک میں پناہ لینے پر مجبور ہوئے۔
یہ تو وہ نقصانات ہیں، جو شامیوں نے جھیل لیے۔ بشار حکومت نے عوام کو کچھ ایسی ضربیں بھی لگائی ہیں، جو کئی دہائیوں تک انہیں متاثر کرتی رہیں گی۔ ان کارروائیوں میں سرفہرست غیر قانونی گرفتاری/ حراست اور جبری گمشدگیاں ہیں، یہ وہ مظالم ہیں جنہیں بشار حکومت نے 13 برسوں تک مسلسل جاری رکھا۔ 2011 سے گزشتہ برس مئی تک بشار نے 23 جعلی معافی نامے جاری کیے، مگر دکھاوے کی اس کارروائی کے باوجود قیدی رہا نہیں ہوئے۔ یوں لاکھوں قیدی لاپتہ ہوگئے۔ گمشدگی کا مسئلہ متاثرین کے اہلِ خانہ کے لیے ایک مستقل عذاب بن ہوا ہے۔
بشار حکومت کے خاتمے تک لاپتہ افراد کی تعداد تقریباً 113,000 تھی۔ لیکن اب تحقیقات سے اس میں مزید اضافہ ہوا ہے۔ نئی حکومت کے جمع کردہ ڈیٹا کے مطابق لاپتہ افراد کی تعداد ڈھائی لاکھ تک پہنچ سکتی ہے۔ ان میں سے بڑی تعداد کو جعلی عدالتی کارروائی کے بعد سزائے موت دی گئی۔ مارچ 2011 سے اگست 2023 تک فوجی عدالت نے کم از کم 7,872 سزائے موت سنائی۔ اس کے ساتھ بشار حکومت کی بچھائی بارودی سرنگیں بھی شامیوں کے لیے موت کا پیغام ثابت ہو رہی ہیں۔ اس کے ساتھ کلسٹر ایمونیشن کی باقیات کے بارے میں بھی بتایا گیا، جو شام کے کئی علاقوں میں پھیلے ہوئے ہیں اور آئندہ کئی دہائیوں تک عوام کی زندگیوں کو خطرے میں ڈالیں گے۔ 2014 کے آغاز سے لے کر مارچ 2024 تک، شامی حکومت نے واپس آنے والے مہاجرین اور بے گھر افراد میں سے کم از کم 4,643 افراد کو گرفتار کیا، جن میں سے 1,518 جبری گمشدگی کا شکار ہوکر لاپتہ ہوگئے۔ جن میں 251 بچے اور 214 خواتین شامل ہیں۔
13 سالہ طالب علم کیساتھ جنسی تعلقات سے بچہ پیدا کرنے والی اسکول ٹیچر گرفتار
“شام کی نئی انتظامیہ نے اعلان کیا ہے کہ وہ مارچ تک عبوری حکومت کے ذریعے ملک پر حکومت کرے گی، اور اس نے ماضی میں کیے جانے والے جنگی جرائم کے بارے میں اپنی سنجیدگی کا اظہار کیا ہے۔ اس نے ایک عدالتی کمیٹی قائم کیا ہے تاکہ حقوقِ انسان کے حوالے سے اپنا کردار ادا کرے اور نیا آئین مرتب کرنے میں مدد کرے۔ اس نے یہ بھی کہا کہ اس کے پاس ان افسران کے ناموں کی فہرست ہے جو تشدد اور لوگوں کو لاپتہ کرنے میں ملوث ہیں اور ان کی گرفتاری میں مدد کرنے والوں کے لیے انعام کا وعدہ کیا ہے۔ حقوقِ انسانی کی تنظیموں نے نئی حکومت پر اعتماد ظاہر کیا ہے کیونکہ وہ قتل عام کے ثبوت جمع کرنے کی کوششوں میں سنجیدگی دکھا رہی ہے۔
جب بشار الاسد کا نظام ملک سے فرار ہوا، تو اس نے نہ صرف جیلوں کو خالی کیا بلکہ اس کے ساتھ ساتھ انٹیلی جنس دفاتر بھی کھول دیئے، جہاں ہزاروں دستاویزات اور فائلیں موجود تھیں جن میں فوج اور پولیس کی کارروائیوں کی تفصیلات درج تھیں۔ اس صورتحال نے شامی سول سوسائٹی تنظیموں کو ان دفاتر میں داخل ہونے کا موقع فراہم کیا تاکہ وہ ان دستاویزات کو اکٹھا کر سکیں، جنہیں مستقبل میں جنگی جرائم کے مقدمات میں استعمال کیا جا سکتا ہے۔ انٹیلی جنس دفاتر سے شامی مرکز برائے انصاف کو 500,000 صفحات پر مشتمل دستاویزات ملی ہیں، جنہیں اس نے محفوظ کیا، تجزیہ کیا۔ تنظیم کے قانونی ڈائریکٹر روجر لو فیلیپس نے بتایا کہ ان فائلوں کو اسدی حکومت کے خلاف یورپ، امریکہ اور دیگر عدالتوں کے سامنے مقدمات دائر کرنے کے لیے استعمال بھی کیا جا رہا ہے۔ حال ہی میں، تنظیم نے اپنی ٹیمیں بھیجیں، جن کی قیادت شامیوں نے کی تاکہ وہ حالیہ کھولے گئے دفاتر میں داخل ہو کر زیادہ سے زیادہ دستاویزات کی تصاویر لے سکیں، جنہیں تنظیم انتہائی اہم سمجھتی ہے۔ ان میں سے کچھ دفاتر ایسے ہیں جو “تحریر الشام” کی نگرانی میں ہیں، انہوں نے انسانی حقوق اور صحافت کے شعبے میں کام کرنے والے رضاکاروں کو کچھ عرصے تک ان دفاتر میں داخل ہونے کی اجازت دی، لیکن بعد میں انہیں روک دیا۔ دوسری طرف کچھ دفاتر ایسی جگہوں پر واقع ہیں جن پر کوئی نگرانی نہیں ہے، جس کی وجہ سے وہاں موجود ثبوت ضائع ہونے کا خطرہ ہے۔
فیلیپس اس صورتحال پر تبصرہ کرتے ہوئے کہتے ہیں: “ہم ان جگہوں پر واپس گئے، جہاں ہم نے پہلی بار داخل ہونے کے ایک دن بعد دوبارہ داخل ہونے کی کوشش کی اور ہمیں معلوم ہوا کہ وہ جگہ جلا دی گئی تھی، کیونکہ کچھ افراد دستاویزات کو تباہ کرنے کی کوشش کر رہے تھے اور ممکنہ طور پر یہ وہ لوگ ہیں جو اسد کے سابقہ نظام سے تعلق رکھتے ہیں اور انہیں ان دستاویزات کی موجودگی سے پریشانی ہو رہی ہے۔”