ہز ہائی نس پرنس کریم آغا خان کا انتقال، ایک عہد کا خاتمہ

مقبول خبریں

کالمز

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

ہز ہائی نس پرنس کریم آغا خان کا انتقال نہ صرف اسماعیلی کمیونٹی کے لیے ایک ناقابل تلافی نقصان ہے بلکہ عالمی سطح پر انسانیت کی خدمت کا ایک عظیم باب بھی بند ہوگیا ہے۔ آغا خان ڈویلپمنٹ نیٹ ورک (AKDN) کے ذریعے ان کی دور اندیشی اور تدبر کے باعث ہزاروں لوگوں، خاص طور پر پسماندہ طبقات کی زندگیوں میں بہتری آئی۔ ان کی خدمات افریقہ اور ایشیا دو براعظموں میں پھیلی ہوئی تھیں۔

پرنس کریم آغا خان، جو آغا خان ڈویلپمنٹ نیٹ ورک کے بانی اور چیئرمین تھے، نے اپنی پوری زندگی ترقی پذیر دنیا میں لوگوں کے معیارِ زندگی کو بہتر بنانے کے لیے وقف کیے رکھی اور اس معاملے میں انہوں نے کسی مذہبی و ملی تفریق کو روا نہیں رکھا۔ انہوں نے دنیا کی سب سے بڑی نجی بین الاقوامی ترقیاتی تنظیم کی بنیاد رکھی، جو بعض انتہائی پسماندہ اور غیر مستحکم علاقوں میں خدمات انجام دے رہی ہے۔ ایک مدبر فلاحی رہنما کے طور پر انہیں عالمی سطح پر امن، انسانی ترقی اور بین المذاہب ہم آہنگی کے داعی کے طور پر سراہا جاتا تھا۔

1967 میں قائم ہونے والا AKDN مختلف بین الاقوامی ترقیاتی اداروں پر مشتمل ہے، جو تقریباً 80,000 افراد کو روزگار فراہم کرتا ہے۔ اے کے ڈی این اور ان کے ذیلی ادارے لوگوں کی زندگی کی بنیادی سہولتوں کی فراہمی، اسکولوں اور ہسپتالوں کی تعمیر اور غریب ترین خطوں میں خوشحالی لانے کا کام کر رہے ہیں۔ پرنس کریم آغا خان کی ترقیاتی حکمت عملی محض خیرات دینے تک محدود نہیں بلکہ وہ غربت کا پائیدار حل تلاش کرنے کے حامی تھے اور خود انحصاری کو فروغ دینے پر یقین رکھتے تھے۔ اس وژن کے تحت انہوں نے فلاحی کاموں کو کاروباری حکمت عملی کے ساتھ مربوط کیا، جس کی مثال یوگنڈا میں ان کے مختلف تجارتی منصوبے ہیں، جن میں دواساز کمپنی اور بینک کے پروجیکٹ نمایاں ہیں جو کمرشل بنیادوں پر اے کے ڈی این کی چیریٹی خدمات کو سہارا فراہم کرتے ہیں۔

ان کی ترقیاتی سوچ کو درج ذیل اقتباس میں بڑے اچھے انداز میں سمویا گیا ہے جو Vanity Fair میں شائع ہوا: “بہت کم لوگ ایسے ہیں جو روحانی اور مادی، مشرق و مغرب، مسلمان اور عیسائی دنیا کے درمیان اس قدر خوش اسلوبی سے رابطہ قائم کرتے ہیں جیسا کہ وہ کرتے رہے ہیں۔ بلاشبہ وہ مشرق و مغرب ہی نہیں، اسلام اور غیر مسلم دنیا کے درمیان اپنی انسانی خدمات کے ذریعے ایک پل کا کردار ادا کر رہے تھے۔ آج کے دور میں جہاں اختلافات اور تقسیم کے رجحانات غالب ہیں، ایسے جامع اور مربوط اقدامات کی بڑے پیمانے پر  ضرورت ہے۔ پرنس کریم آغا خان نے اپنے عمل سے ثابت کیا کہ ترقی محض اقتصادی خوشحالی نہیں بلکہ ثقافتی اور مذہبی تفریق اور منافرت کو ختم کرنے کا ذریعہ بھی بن سکتی ہے اور یہ ایک ہمہ گیر اور مساوات پر مبنی انسانی معاشرہ تشکیل دینے کی ایک بہترین راہ ہے۔

آغا خان کا ترقیاتی ماڈل پسماندہ طبقات کا معیار زندگی بہتر کرنے پر مرکوز تھا۔ AKDN کے ذریعے انہوں نے مقامی کمیونٹیز کو اپنے مسائل کا حل خود تلاش کرنے کی ترغیب دی۔ اس طرزِ فکر نے نہ صرف لوگوں کے مسائل کے حل میں مدد فراہم کی بلکہ ترقیاتی عمل کو زیادہ مساوی اور دیرپا بھی بنایا۔ AKDN کے منصوبے صرف انفرااسٹرکچر کی تعمیر تک محدود نہیں بلکہ ان میں ایسے منصوبے بھی شامل ہیں جو ملازمت کے بے شمار مواقع بھی پیدا کرتے اور لا تعداد لوگوں کا معیارِ زندگی بہتر بنانے کا ذریعہ ہیں۔

تعلیم کے شعبے میں ان کا کردار بے مثال ہے، خاص طور پر ان علاقوں میں جہاں وہ سرگرم تھے۔ پاکستان میں آغا خان اسکولوں نے تعلیم، خصوصاً لڑکیوں کی تعلیم کو فروغ دینے میں اہم کردار ادا کیا، جس کے نتیجے میں خواندگی کی شرح میں نمایاں اضافہ ہوا۔ بطور خاص گلگت بلتستان جیسے دور افتادہ علاقوں میں شرح خواندگی تقریباً 100 فیصد ہونے کے قریب ہے، جس میں بہت بڑا حصہ آغاخان اسکولز کا ہے۔

اسی تسلسل میں آغا خان یونیورسٹی (AKU) کے قیام نے تعلیمی انقلاب کا ایک اور سنگ میل عبور کیا۔ اس ادارے نے معاشی پسماندگی میں گھرے افراد کو غربت سے نکال کر ایک مستحکم مستقبل فراہم کیا۔ آغا خان کے ترقیاتی فلسفے نے روایتی خیراتی ماڈلز سے ہٹ کر ایک نیا راستہ متعارف کروایا، جو خود کفالت کے تصور پر مبنی ہے۔ ان کے ترقیاتی منصوبے زراعت، پانی اور نکاسی آب، صحت اور تعلیم جیسے شعبوں کو محیط ہیں، جن سے لوگوں کی ایک بڑی تعداد مستفید ہو رہی ہے۔

AKDN کے زرعی منصوبوں کے نتیجے میں نہ صرف کسانوں کی غذائی ضروریات پوری ہو رہی ہیں، بلکہ اس کے ساتھ ہی زرعی پیداوار میں بھی اضافہ ہو رہا ہے۔ صحت کے میدان میں کلینک اور ہسپتال قائم کیے گئے۔ یہ وہ شعبہ ہے جس میں اے کے ڈی این کی خدمات کا ایک جہاں معترف ہے۔

عالی جناب پرنس کریم آغا خان کا خدمت خلق کا وقیع ورثہ خود انحصاری کے تصور پر قائم ہے۔ یہ قیادت کا ایسا ماڈل ہے جو عوامی شمولیت اور انسانی ترقی کے ذریعے زندگیوں کو بدلنے پر کارگزار ہے۔ خدمت کے اس ماڈل نے نہ صرف لاکھوں زندگیوں کو بدل ڈالا بلکہ مختلف طبقات میں تعاون کو بھی پروان چڑھایا۔ یہی وجہ ہے کہ گلگت بلتستان میں مختلف مسالک کے افراد ان کے تعلیمی اور سماجی منصوبوں میں اکٹھے کام کرتے ہیں، جس سے ان علاقوں میں امن اور برداشت کی فضا قائم ہوگئی ہے۔

آل انڈیا مسلم لیگ کے قیام میں آغا خان خاندان، خصوصاً سر سلطان محمد شاہ آغا خان سوم کی گراں قدر خدمات کو ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ آغا خان سوم قائداعظم محمد علی جناح کے نہ صرف قریبی ساتھی بلکہ تحریکِ آزادی کے ایک پُرجوش حامی تھے، جن کی کاوشوں نے بالآخر برصغیر کے مسلمانوں کے لیے ایک علیحدہ وطن کے قیام میں اہم کردار ادا کیا۔

1947 میں پاکستان کے قیام کے بعد بھی آغا خان سوم نے مسلمانوں کی ہجرت، آبادکاری اور فلاح و بہبود کے لیے کلیدی کردار ادا کیا۔ ان کی بصیرت اور قیادت نے لاکھوں مہاجرین کو ایک نئے وطن میں قدم جمانے میں مدد فراہم کی۔ 1957 میں ان کے انتقال کے ساتھ ایک عہد کا خاتمہ تو ضرور ہوا، مگر ان کی خدمات اور جدوجہد پاکستان اور اس کے عوام کی تاریخ میں ہمیشہ سنہری حروف میں لکھی جائیں گی۔

ہمیں ان کی حیات و خدمات پر غور کرتے ہوئے ان کے اس عظیم ورثے کو آگے بڑھانے کی ضرورت ہے۔ ان کے فراہم کردہ خود انحصاری اور استحکام کے اصول اور عوامی شمولیت پر مبنی ترقیاتی ماڈل ایک پرامن اور خوشحال انسانی معاشرے کی تشکیل کیلئے مشعل راہ رہے گا۔ AKDN کے تجربے سے حکومتوں، غیر سرکاری تنظیموں (NGOs) اور نجی شعبے کو سیکھنا چاہیے تاکہ امن و خوشحالی کو زیادہ سے زیادہ فروغ حاصل ہو۔

ہز ہائی نس پرنس کریم آغا خان کا انتقال بلاشبہ ایک گہرا صدمہ ہے، ان کی انسان دوستی، ترقیاتی وژن اور پائیدار ترقی کے اصول ان کو تا دیر زندہ رکھنے کا ذریعہ ثابت ہوں گے، کیونکہ تاریخ ایسے ہی لوگوں کو اپنے صفحات میں زندہ رکھتی ہے جو دنیا اور انسانیت کو کچھ دے کر رخصت ہوں اور بلا شبہ پرنس کریم آغاخان نے انسانیت کو ترقی، خوشحالی اور امن و بھائی چارے کی جو راہ دکھائی ہے، وہ دنیا کو ہمیشہ یاد رہے گی۔

Related Posts