مردہ دلی کاعلاج

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

روحانی لحاظ سے ہم عزم و ہمت کا مظاہرہ کرکے اپنے مرتے ہوئے دل کو زندہ کرسکتے ہیں۔ اس لیے ہمیں اپنے آپ سے پوچھنا چاہیے کہ کیا ہم نے اپنی زندگی میں کبھی ہمت دکھائی ہے؟ کیا ہم کامیاب ہونے کا حوصلہ رکھتے ہیں یا وہ کام کرتے ہیں جو دوسرے لوگ کامیابی حاصل کرنے کے لیے کرنے کو تیار نہیں ہوتے؟ کیا ہم میں صرف ایک مسلمان کے مقابلے میں ایک اچھا مسلمان ہونے کی ہمت ہے یا اس سے بڑھ کر ایک اچھے مسلمان کے مقابلے میں ایک عظیم مسلمان ہونے کا بھی حوصلہ پایا جاتا ہے؟

ہم سب انسان اور مسلمان کی حیثیت سے غلطیاں کرتے ہیں لیکن ہم میں ان کو تسلیم کرنے ، ان سے سیکھنے اور آگے بڑھتے رہنے کی ہمت ہونی چاہیے۔ اللہ تعالیٰ کے تمام رسول خاص تھے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے انہیں زمین پر اس لیے بھیجا تاکہ وہ ہماری غلطیوں کو درست کریں اور ہمیں سکھائیں کہ غلطیوں کی روش اپنانے اور گناہ دہرانے سے کیسے بچنا ہے۔

حضورِ اکرم ﷺ نے اپنے آپ کو انسانی تاریخ کا سب سے بہادر انسان ثابت کیا۔ ہجرت کے بعد دورِ مدینہ کے ابتدائی دنوں میں مسلمان ہر رات قریشِ مکہ کے حملوں کیلئے خود کو تیار کرکے رکھتے تھے۔ ایک شب مسلمانوں نے احد کی سمت سے کچھ آوازیں سنیں۔ تمام صحابہ نے اپنے ہتھیار اور حسبِ توفیق سامانِ حرب جمع کیا اور اپنے گھوڑوں کو سواری کے لیے تیار کر لیا۔ جنگ کیلئے گھوڑوں پر سوار ہونے والے صحابہ نے دیکھا کہ ایک اکیلا آدمی گھوڑے پر ان کے قریب آرہا ہے، قریب آنے پر پتہ چلا کہ آنحضرت ﷺ واپس آ رہے تھے کہ صحابہ کو مطلع کریں کہ کوئی مسئلہ یا فکر کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بغیر قمیض مبارک پہنے باہر نکلے، صرف آپ ﷺ کے گلے میں تلوار لٹکی ہوئی تھی۔ مزید یہ کہ امام بخاری بیان کرتے ہیں کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جنگ شدید ہونے کے موقعے پر ہم خوفزدہ ہو کر محسنِ انسانیت ﷺ کے پیچھے چھپتے تھے۔

انسانی تاریخ کے ایک اور بہادر شخص سیدنا علی ابن ابی طالب کرم اللہ وجہ ہیں جنہیں حقیقی جنگجو اور اسد اللہ کہا جاتا ہے۔ آج کل ہالی ووڈ  کے سپر ہیروز پر مبنی متعدد فلمیں دیکھی جاتی ہیں لیکن سیدنا علی کرم اللہ وجہ ایک حقیقی سپر ہیرو تھے۔ آپ نے جنگ خیبر کے دوران اپنے ہاتھوں سے قلعے کا دروازہ کھولا۔ ایک دفعہ ایک لڑائی کے دوران دشمن سیدنا علی کرم اللہ وجہ  سے ٹکرا گیا جس کے نتیجے میں ان کی آنکھ نکل گئی لیکن آپ  رضی اللہ عنہ نے اللہ کے آخری نبی ﷺ اور اسلام کا دفاع کرتے ہوئے جہاد جاری رکھا۔ آپ اپنی آنکھ اپنے ہاتھ میں لے کر کیمپ میں واپس آئے اور اسی طرح ہمارے نبی ﷺ نے وہ آنکھ آپ سے لی اور لعابِ دہن سے اسے چہرے پر واپس منسلک کردیا اور آنکھ معمول کے مطابق کام کرنے لگی۔

سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی جرات اور بہادری کی ایک اور مثال یہ ہے کہ آپ نے مکہ مکرمہ سے مدینہ منورہ تک صحرا میں سفر کیا۔ گھوڑے پر سوارہو کر مکہ سے مدینہ تک کے اس سفر میں 14 دن لگے۔ حضرت علی کرم اللہ وجہ کے مدینہ کے سفر کے دوران قریش کے ساتھ ملحقہ قبیلوں میں سے ایک نے آپ کو دیکھ لیا اور قریش کے ہاتھ بیچنے کے لیے پکڑنے کا فیصلہ بھی کر ڈالا۔ قریش کے اتحادی قبیلے نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو پکڑنے کے لیے 200 آدمی بھیجے لیکن سیدنا علی نے انہیں آتے دیکھا اور پہاڑ پر چڑھ گئے۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے ان سے درخواست کی کہ راستے سے ہٹ جائیں کیونکہ آپ انہیں نقصان نہیں پہنچانا چاہتے تھے۔

مذکورہ 200 آدمیوں نے سیدنا علی کرم اللہ وجہ کی درخواست مسترد کرنے کی گستاخی کر ڈالی۔ آپ رضی اللہ عنہ نے انہیں چیلنج کیا کہ وہ لڑائی کے لیے پہاڑ پر آئیں۔ 100 آدمی اوپر گئے لیکن ان میں سے کوئی واپس نہیں آیا۔ بقیہ 100 آدمیوں نے کہا کہ اگر ہم حضرت علی کرم اللہ وجہ کو حاصل نہ کرسکے تو شاعر ہماری ہجو لکھ کر بدنام کریں گے، تو ہمیں یہ چیلنج قبول کرنا ہوگا۔ باقی 100 آدمی بھی پہاڑ پر چڑھ گئے لیکن سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے ان میں سے 20 کو پکڑ لیا۔

ہمیں اپنے آپ سے پوچھنا چاہیے کہ بے خوف زندگی گزارنے کا کیا مطلب ہے؟ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہمیں ایک صاف ستھری زندگی گزارنے کی ضرورت ہے۔ ہم میں ہمت ہونی چاہئے کہ جو اللہ تعالیٰ فرمائے، اس پر عمل کرسکیں، نہ کہ دنیا کے کہنے پر چلتے جائیں۔

ایک مسلمان اپنے دل سے دیکھتا، محسوس کرتا، سنتا اور اپنے معاملات کو کنٹرول کرتا ہے۔ صحیح بخاری و مسلم کی حدیث ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ جسم میں گوشت کا ایک لوتھڑا ہے، اگر یہ تندرست ہو تو پورا جسم تندرست ہوتا ہے اور اگر بیمار ہو تو پورا جسم بیمار ہوجاتا ہے، (جان لو کہ) یہ دل ہے۔

دل سے مراد انسانی شخصیت کے 3 پہلو یعنی جسمانی، ذہنی اور روحانی پہلو ہیں۔ دل کو دماغ پر قابو پانا ہوتا ہے تاکہ خاموش غلطیاں روکی جاسکیں۔ بعض اوقات ہم اپنے آپ کو احمقانہ کام کرتے ہوئے دیکھتے ہیں، حالانکہ دوسرے لوگ اور ہمارا جسم ہمیں ایسا کرنے سے روکتا ہے لیکن ہم یہ کام جاری رکھتے ہیں۔ اگر ایسا ہو تو اس سے پتہ چلتا ہے کہ ہم میں خود کو روکنے اور ایک اعلیٰ معیار پر اپنے افعال کو برقرار رکھنے کی ہمت نہیں پائی جاتی۔

 ممتاز عالمِ دین ابنِ تیمیہ نے کہا کہ بہت سے ڈاکٹروں اورفلسفیوں کی یہ رائے ہے کہ ذہن دماغ میں ہوتا ہے، اس لیے ہم اپنے دماغ سے سوچتے سمجھتے ہیں، نہ کہ دل سے۔ انہوں نے مزید کہا کہ مرکز دل ہے۔تفسیر ابنِ کثیر، جلد 4، صفحہ نمبر 508 میں ایک اور مشہور عالمِ دین ابنِ کثیر نے کہا کہ متکبر فلسفی کہتے ہیں کہ ذہن دماغ میں ہوتا ہے۔ 

Related Posts