قطر میں غزہ جنگ بندی پر مذاکرات بارآور ہوتے نظر آ رہے ہیں۔ فریقین میں معاہدے تک پہنچنے کے امکانات واضح ہو چکے ہیں۔ امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے بھی نیو میکس کو انٹرویو میں کہا ہے کہ معاہدہ اب زیادہ دور نہیں ہے۔ متعدد ذرائع نے تصدیق کی ہے کہ دوحہ میں اسلامی مزاحمتی تحریک (حماس) اور اسرائیل کے درمیان ہونے والے مذاکرات میں بڑی پیش رفت ہوئی ہے، جس سے غزہ میں جنگ بندی اور قیدیوں کے تبادلے کے معاہدے کے اعلان کے امکانات بڑھ گئے ہیں۔
رائٹرز کے مطابق دوحہ مذاکرات میں شامل شرکاء نے منگل کو معاہدے کو حتمی شکل دینے کے لیے ملاقات کی۔ ثالثوں نے حماس اور اسرائیل کو معاہدے کا حتمی مسودہ پیش کر دیا ہے۔ دوسری جانب عبرانی چینل 13 نے کہا ہے کہ اسرائیل میں تخمینے اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ معاہدے کے طے پانے کا اعلان جلد متوقع ہے۔ امریکی صدر جو بائیڈن کے ایلچی بریٹ میکگرک اور منتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے مشرق وسطیٰ کے لیے ایلچی اسٹیفن وٹکوف بھی دوحہ مذاکرات میں شریک ہیں۔ یہ پیش رفت مختلف فریقوں کی جانب سے پیش کردہ بیانات کے بعد سامنے آئی ہے۔ امریکی صدر نے کہا ہے کہ معاہدہ “حقیقت بننے کے قریب ہے” جبکہ امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن نے کہا کہ دونوں فریق “کسی بھی وقت کے مقابلے میں معاہدے کے قریب ہیں”۔
کیلیفورنیا کی جنگلاتی آگ پر گلابی پاؤڈر: آگ روکنے کا انوکھا حل یا ماحولیاتی خطرہ؟
حماس نے بھی تصدیق کی کہ مذاکرات میں اچھی پیش رفت ہو رہی ہے، جبکہ ایک اسرائیلی عہدیدار نے کہا کہ مذاکرات اعلیٰ مراحل میں پہنچ چکے ہیں۔ امریکی قومی سلامتی کے مشیر جیک سلیوان نے اہم نکات پر “نمایاں قربت” حاصل ہونے کی تصدیق کی۔ انہوں نے وضاحت کی کہ قیدیوں اور زیر حراست افراد کے تبادلے کے فارمولے، غزہ سے اسرائیلی افواج کے انخلا کے دوران ان کے مقام اور جنگ بندی کے بعد انسانی امداد میں اضافے جیسے معاملات میں پیش رفت ہوئی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ “اختلافات آہستہ آہستہ حل ہو رہے ہیں، ایک کے بعد دوسرا۔”
“ٹائمز آف اسرائیل” نے حکام کے حوالے سے بتایا کہ غزہ کی بات چیت میں پیش رفت ایک کشیدہ ملاقات کے بعد ہوئی، جس میں وزیر اعظم نیتن یاہو اور اسٹیفن وٹکوف شریک تھے۔ ٹرمپ کے ایلچی نے نیتن یاہو پر زور دیا کہ وہ معاہدے کو مکمل کرنے کے لیے ضروری رعایتیں قبول کریں، خاص طور پر ٹرمپ کے 20 تاریخ کو عہدہ سنبھالنے سے پہلے۔ حماس نے بارہا اپنی معاہدے کے لیے آمادگی ظاہر کی ہے، بلکہ مئی میں ہی بائیڈن کی پیش کردہ تجویز کو قبول بھی کر لیا تھا، لیکن نیتن یاہو نے جنگ جاری رکھنے اور غزہ سے فوج نہ نکالنے کے اصرار کے باعث اس سے پیچھے ہٹ گئے۔
رائٹرز کے مطابق متوقع معاہدے میں چند اہم نکات شامل ہیں، جن میں غزہ میں زیر حراست 33 اسرائیلیوں کی رہائی شامل ہے، جن میں بچے، خواتین، فوجی خواتین، 50 سال سے زائد عمر کے افراد، زخمی اور بیمار افراد شامل ہیں۔ اگر معاملات منصوبے کے مطابق چلتے ہیں، تو معاہدے کے نفاذ کے سولہویں دن ایک دوسرے مرحلے پر مذاکرات شروع ہوں گے۔ دوسرے مرحلے میں باقی زندہ قیدیوں کی رہائی کی جائے گی، جن میں فوجی اور خدمت کے قابل عمر کے مرد شامل ہیں، نیز ان کے ہلاک شدہ افراد کی لاشیں بھی واپس کی جائیں گی۔ ہر اسرائیلی قیدی کی رہائی کے بدلے، اسرائیل کئی فلسطینی قیدیوں کو رہا کرے گا، جن میں طویل سزا یافتہ افراد بھی شامل ہوں گے۔
یہ ہے ہمارا نظام انصاف! ایک گھنٹے میں نمٹنے والا کیس 10 سال میں نمٹائے جانے پر عدالت حیران
معاہدے کے تحت اسرائیلی قابض افواج مرحلہ وار غزہ سے پیچھے ہٹیں گی، لیکن وہ سرحدوں کے قریب موجود رہیں گی تاکہ “اسرائیلی شہروں اور قصبوں کا دفاع” کیا جا سکے۔ اس کے علاوہ، سیکورٹی انتظامات کے تحت جنوبی غزہ میں فیلادلفیا (صلاح الدین) راہداری سے متعلق اقدامات کیے جائیں گے اور معاہدے کے ابتدائی دنوں کے بعد اسرائیل اس کے کچھ حصوں سے پیچھے ہٹ جائے گا۔ شمالی غزہ کے رہائشیوں کو اپنی علاقوں میں واپس جانے کی اجازت دی جائے گی، جبکہ یہ یقینی بنانے کے لیے ایک طریقہ کار وضع کیا جائے گا کہ وہاں ہتھیار منتقل نہ کیے جائیں۔ اسرائیلی افواج غزہ کے وسط میں نتساریم کراسنگ سے بھی پیچھے ہٹ جائیں گی اور غزہ کو بھیجی جانے والی انسانی امداد کی مقدار میں اضافہ کیا جائے گا۔ رائٹرز کے مطابق، مذاکرات میں سب سے زیادہ پیچیدہ مسئلہ یہ ہے کہ جنگ کے بعد غزہ پر حکومت کون کرے گا۔ خیال کیا جاتا ہے کہ موجودہ مذاکراتی دور میں اس مسئلے کو اس کے پیچیدگی کی وجہ سے حل نہیں کیا گیا، کیونکہ یہ کسی معاہدے تک پہنچنے میں رکاوٹ بن سکتا ہے۔
اسرائیلی نیوز سائٹ “حدشوت بزمان” نے اس معاہدے کی مکمل تفصیلات جاری کی ہیں: جس کے مطابق دونوں فریقوں کے درمیان عارضی جنگ بندی اور اسرائیلی فوج کے دستوں کا مشرقی خط “نیٹزر” کے علاقے تک انخلا اور پہلے مرحلے میں 42 دن تک بے گھر افراد کی اپنے گھروں کو واپسی ہوگی۔ جنگ بندی کے پہلے دن سے غزہ کو وافر امداد کی فراہمی، جس میں ایندھن بھی شامل ہے۔ اسرائیلی مغویوں (خواتین، بچے، بزرگ، اور فوجی) کو فلسطینی قیدیوں کی رہائی کے بدلے آزاد کیا جائے گا، جن میں “شالیط ڈیل” کے قیدی بھی شامل ہیں اور یہ سب ایک طے شدہ وقت کے مطابق ہوگا۔ رہائی پانے والے فلسطینی قیدیوں کو دوبارہ گرفتار نہیں کیا جائے گا۔ دوسرے مرحلے کے نفاذ پر اتفاق کے لیے دونوں فریقین کے درمیان بالواسطہ مذاکرات کا آغاز ہوگا۔ تمام متفقہ اسرائیلی مغویوں کی رہائی کے بعد، رفح کراسنگ کے ذریعے مسافروں پر عائد پابندیاں ختم کر دی جائیں گی۔ دوسرے مرحلے میں تمام فوجی کارروائیوں کا مکمل خاتمہ، باقی مغوی فوجیوں کا تبادلہ اور غزہ کی پٹی سے مکمل انخلا شامل ہوگا۔ تیسرے مرحلے میں دونوں فریقین کے درمیان لاشوں اور ان کی باقیات کا تبادلہ ہوگا اور غزہ کی پٹی کی بحالی کے منصوبے کا آغاز کیا جائے گا۔
متعلقہ معاہدہ:
پہلے مرحلے کی مدت 42 دن ہوگی، جس میں انسانی بنیادوں پر قیدیوں کے تبادلے کا معاہدہ ہوگا، جس میں زندہ افراد اور لاشوں کا تبادلہ شامل ہے۔ 33 مغویوں میں سے 11 جنگجو ہیں۔ ہر اسرائیلی فوجی کی رہائی کے بدلے اسرائیل 50 فلسطینی رب قیدیوں کو رہا کرے گا، جن میں 30 عمر قید کے قیدی اور 20 طویل مدت کی سزاؤں کے قیدی شامل ہیں۔ کسی بالغ اسرائیلی مغوی یا غیر فوجی خاتون کی رہائی کے بدلے 30 عرب بچے، بیمار، خواتین اور مختلف سزاؤں کے عرب قیدیوں کو رہا کیا جائے گا۔
پہلے انسانی مرحلے میں شامل 11 مغویوں کی رہائی کے حوالے سے (جن میں افراہام منجستو اور ہشام السید شامل ہیں) تاہم اسرائیل نے منجستو اور السید کو فوجیوں کے طور پر شمار کرنے سے انکار کر دیا ہے۔ معاہدے کے مطابق، انہیں “نیلے” اور بزرگ افراد کے طور پر شمار کیا جائے گا اور ان کی رہائی ان فلسطینی قیدیوں کے بدلے کی جائے گی، جنہیں شالیط معاہدے کے تحت رہائی کے بعد دوبارہ گرفتار کیا گیا تھا۔ باقی 9 اسرائیلی مغویوں کو 60 فلسطینی قیدیوں کے بدلے رہا کیا جائے گا، جن میں عمر قید کے قیدی، مختلف سزاؤں کے قیدی، اور 7 اکتوبر کے بعد گرفتار ہونے والے غزہ کے قیدی شامل ہوں گے۔
معاہدے کے ساتویں دن جنوبی غزہ کے بے گھر افراد کو شمالی غزہ میں اپنے گھروں کو واپس جانے کی اجازت دی جائے گی اور یہ واپسی مغربی غزہ میں واقع شارع الرشید کے ذریعے ہوگی۔ معاہدے کے بائیسویں دن غزہ کے رہائشیوں کو وسطی غزہ کے شارع صلاح الدین کے ذریعے اپنے گھروں کو واپس جانے کی اجازت دی جائے گی۔واپسی کے دوران گاڑیوں کی جانچ پڑتال ہوگی۔ جنوبی غزہ سے شمالی غزہ واپس جانے والی گاڑیوں کو خصوصی آلات کے ذریعے چیک کیا جائے گا اور یہ معائنہ بین الاقوامی حکام یا ثالثی ممالک کے حکام کریں گے۔ تاہم، پیدل واپس آنے والوں کی جانچ نہیں کی جائے گی۔