کشمیر۔۔ آگ اور خون کی ہولی اور جی 20 کانفرنس

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

بھارت نے 2019ء میں مقبوضہ کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت ختم کرکے کشمیر کی ہیئت کو بدل ڈالا جو کشمیریوں کا ازلی حق رہا ہے، گو پاکستان جی 20 کا رکن ملک نہیں لیکن پاکستان کی جانب سے بھی انڈیا کے زیرِ انتظام مقبوضہ کشمیر میں جی 20 کے ورکنگ گروپ کااجلاس منعقد کرنے کی پرزور مخالفت کی جا چکی ہے۔

بھارت کی مقبوضہ کشمیر میں جی 20اجلاس کے انعقاد کے پیچھے یہ مکاری کارفرما تھی کہ عالمی قوتیں یہ سمجھنے پر مجبور ہوجائیں کہ کشمیر متنازعہ علاقہ ہونے کے باوجود پرسکون ہے اور بھارت کا 5 اگست 2019 کا اقدام درست تھا۔

یوں محسوس ہوتا ہے کہ وزیرخارجہ پاکستان بلاول بھٹو زرداری کی کاوشوں کی بدولت چین اور ترکیہ کے بعد سعودی عرب اور مصر نے بھی سری نگر آنے سے انکار کردیا ہے، خصوصی طور پر مدعو کیے گئے مصر نے بھی اجلاس میں شرکت کے لیے رجسٹریشن نہیں کروائی۔

ہم قانونی اور عوامی سفارت کاری میں ماضی میں خاص کامیابی نہ حاصل کرسکے، حالانکہ یہ معاملہ قانونی، عوامی اور روایتی سفارت کاری کے ذریعے حل کیا جاسکتا تھا۔ اس حوالے سے عالمی قوانین بہت واضح ہیں کہ متنازعہ علاقے میں کوئی ملک اہم سرگرمی نہیں کرسکتا اور اپنے دیگر علاقوں سے لوگوں کو یہاں لاکر نہیں بساسکتے اور اسی اصول کے تحت جی 20 جیسے انٹرنیشنل ایونٹ کا انعقاد بھی نہیں کیا جاسکتا۔

قابض افواج متنازعہ علاقے میں کسی قسم کی تعمیری یا نئی آبادی کو بسانے کی سرگرمی دکھاتے ہیں تو یہ جنیوا کنونشن کے آرٹیکل 49 کی خلاف ورزی کے زمرے میں آتا ہے۔ کسی بھی متنازعہ خطے کی آبادی کے لحاظ سے ہیئت تبدیل کرنے پر جنگی جرائم کا آرٹیکل 20 لاگو ہوتا ہے۔

جی 20دنیا کا ایک اہم اور فعال فورم ہے جس میں دنیا کی تقریباً 3 چوتھائی معیشت رکھنے والے ممالک شامل ہیں اور اس فورم پر دنیا کی معیشت کی سمت کا تعین کیا جاتا ہے اور اہم بات تو یہ ہے کہ آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کے نمائندے بھی بطور مبصر اس فورم میں شریک ہوتے ہیں۔

برطانیہ نے کبھی بھی سیکورٹی کونسل یا دیگر فورمز پر بھارت کے اقدامات کی حوصلہ افزائی نہیں کی اور کئی بار انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر برطانیہ قابل تعریف بیانات بھی دے چکا ہے تاہم عملی طور پر کچھ نہیں کیا، بقول شاعر:

سرِ محفل وہ خوابوں کے محل تعمیر کرتے ہیں
علاج غم نہیں کرتے فقط تقریر کرتے ہیں

اقوام عالم کو معلوم ہے کہ بھارت کشمیر میں کیسے بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی کررہا ہے لیکن افسوس کہ دنیا اس سنگین انسانی بحران کے حل کیلئے کشمیریوں کے ساتھ کھڑی دکھائی نہیں دیتی۔

پاکستان نے کشمیر میں اجلاس کے خلاف واضح مؤقف اپنایا اور چین کی طرف سے جی 20 کا بائیکاٹ خوش آئند ہے تاہم ترکیہ، سعودی عرب اور انڈونیشیا کی جانب سے بھی واضح اور مضبوط بیانات سامنے آنے چاہئیں جن کی آج توقع کی جارہی ہے۔

چین نے بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر کے متنازعہ علاقے میں آئندہ ہفتے منعقد ہونے والے جی 20 ٹوراِزم اجلاس پر تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے اس میں شرکت کرنے سے انکار کر دیا ہے۔

ممبر ممالک کے علاوہ مصر، عمان، بنگلہ دیش، نائیجریا، ماریشس اور دیگر مہمان ممالک بھی اگر اجلاس میں شرکت سے انکار اور مذمتی بیانات جاری کردیں تو اس سے کشمیر کے مسئلے کو مزید تقویت مل سکتی ہے۔ ترکیہ ہمیشہ پاکستان کے ساتھ آہنی دیوار بن کر کھڑا رہتا ہے اور امید ہے کہ جی ٹوئنٹی اجلاس کے حوالے سے ترکیہ جلد بیان بھی جاری کریگا۔

روس یوکرین جنگ کے بعد دنیا میں بڑی تبدیلیاں آرہی ہیں اور چین تیزی کے ساتھ ابھرکر سامنے آرہا ہے گوکہ امریکا کی خارجہ پالیسی کا محور چین کا اثرو رسوخ کم کرنے پر مرکوز ہے تاہم خطے میں چین کا اثرورسوخ بڑھتا جارہا ہے جو خوش آئند ہے۔

اس وقت مقبوضہ کشمیر کو ایک عالمی جیل میں تبدیل کردیا گیا ہے اور سابق وزیراعلیٰ کشمیر محبوبہ مفتی نے بھی کشمیر کو گوانتا ناموبے جیل سے مماثل قرار دیکر ہمارے مؤقف کو مزید تقویت دی ہے کیونکہ بھارت سے کچھ بعید نہیں کہ اجلاس میں آنے والے ممالک کے ممبران کو مقبوضہ کشمیر میں کنٹرولڈ علاقوں کا دورہ کرواکے دنیا کو دکھانے کی کوشش کرے کہ کشمیر میں لوگ خوش ہیں اور امن وامان کی صورتحال ان کے حق میں ہے۔

اس فورم کی دنیا میں انتہائی اہمیت ہے اور بھارت جی 20 اجلاس کا سری نگر میں انعقاد کرکے خود نکتہ چینی کا شکار ہورہا ہے کیونکہ صرف پاکستان ہی نہیں بلکہ اقوام متحدہ، انسانی حقوق کی تنظیمیں اور بااثر ممالک بھی بھارت کے اس اقدام کو انسانی حقوق کی خلاف ورزی سمجھتے ہیں۔

عالمی قوانین کی خلاف ورزی پر سلامتی کونسل سے رجوع کیا جاتا ہے اور یہاں اہم بات یہ ہے کہ جی 20 کا بائیکاٹ کرنےوالا چین سلامتی کونسل کا ممبر ہے ، بھارت اوکاس (AUKUS)اور قوارڈ(QUARD)کے پلیٹ فارمز پر اپنا مؤقف مضبوط بنانا چاہتا ہے لیکن چین نے عالمی قانونی دائرے میں رہ کر اہم اقدام اٹھایا ہے۔

ہمیں کوشش کرنی چاہیے کہ او آئی سی کے ساتھ ملکر ایک قرارداد منظور کرائی جائے اور سلامتی کونسل کو باور کروایا جائے کہ بھارت نے متنازعہ علاقے میں یہ اجلاس بلاکر معاملے کی اہمیت کو کم کرنے کی کوشش کی ہے اور یہاں چین کی حمایت ہمارے لئے بہت اہم ہے۔

اب یہاں حالات کا تقاضہ یہ ہے کہ جب چین اور دیگر دوست ممالک کشمیر کے مسئلے پر پاکستان کی صف میں کھڑے ہوں تو پاکستان کو روایتی اور عوامی سفارتکاری کے ذریعے معاملے کو آگے بڑھانا چاہیے تاکہ کشمیر کاز کو مزید دوام اور تقویت دی جاسکے۔

Related Posts