پولیو وائرس کے خاتمے کی جنگ

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف ہیلتھ نے 2023 میں دوسری بار لاہور کے ماحولیاتی نمونوں سے پولیو وائرس کی تصدیق کی ہے۔

انسان کو ہمیشہ کیلئے اپاہج بنانے والے اس وائرس کا اس سے پہلے 2 جنوری اور پھر 16 جنوری کو ہی پنجاب کے صوبائی دارالحکومت لاہور میں پتہ چلا تھا۔ ان کیسز کے ڈانڈے بھی جنوبی وزیرستان اور افغانستان سے ملتے ہیں۔

ان کیسز کا فوری طور پر پتہ لگانا ہی اچھا اور مفید عمل ہے، تاہم ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ہم جب بھی پولیو وائرس کے خاتمے کے قریب پہنچ جاتے ہیں، اچانک ہی پھر کسی جگہ ایک نیا کیس سامنے آجاتا ہے۔ اگرچہ اب یہ صرف ایک ماحولیاتی نمونہ ہے، صورت حال مگر پھر بھی تشویشناک ہے۔ اس وائرس کا مسلسل دوبارہ ابھرنا کوئی اچھی اور صحت مندانہ علامت نہیں ہے۔  اس سے اس حوالے سے سخت چیلنجوں کی نشاندہی ہوتی ہے۔ اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ حکومت کی تمام تر مربوط کوششوں کے باوجود اس وائرس کے حوالے سے لوگوں کا ذہن مکمل طور پر تبدیل نہیں کیا جاسکا ہے، یہی وجہ ہے کہ اب بھی پولیو ورکرز کو سخت سیکورٹی حصار درکار ہوتا ہے اور جب سے پاکستان نے پولیو کے خلاف جنگ شروع کی ہے، اس جنگ کے اندر تقریباً 62 پولیو ورکرز شہید کیے جا چکے ہیں۔

سماجی و ثقافتی رکاوٹ پولیو کے خاتمے کی کوششوں پر بری طرح اثر انداز ہو رہی ہے۔ حفاظتی ٹیکوں اور پولیو ویکسی نیشن کے خلاف مسلسل ردعمل اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والے خوف کے زیر اثر خواتین ہیلتھ ورکرز کی کمی اب بھی اس راہ کے پتھروں کی صورت میں موجود ہے، جنہیں ہٹائے بغیر پولیو کے خاتمے کی جنگ نہیں جیتی جاسکتی۔ خاص کر شمالی اور جنوبی وزیرستان جو ممکنہ طور پر پولیو کی افزائش کے حوالے سے خطرے کی لائن پر ہیں، میں خواتین کی انسداد پولیو مہم میں بھرپور شراکت سے ہی یہ مہم کامیابی کی منزل سے کسی حد تک ہم کنار ہوسکتی ہے۔

بڑھتی ہوئی مہنگائی بھی ممکنہ طور پر انسداد پولیو کی مہم پر منفی طور پر اثر ہوسکتی ہے، کیونکہ خدشہ ہے کہ مہنگائی کے باعث لوگوں کی ترجیحات بدل جائیں گی، تو اس کے ساتھ ہی عوامی جذبات بھی اس حوالے سے سرد پڑجائیں گے اور اس کے متعلق جو ایک حساسیت قائم ہوچکی ہے، اس کا خاتمہ ہوجائے گا۔ خاص طور پر زیادہ خطرے والے اضلاع میں یہ معاملہ یقینی طور پر زیادہ امکانات کے ساتھ اثر ہونے کی صلاحیت رکھتا ہے۔

ساتھ ہی جو دہشت گردی کی نئی لہر اٹھی ہے، اس میں بڑھتے ہوئے سیکورٹی خدشات بھی انسداد پولیو کی راہ میں حائل ہوسکتے ہیں۔ وزارت صحت اور متعلقہ اداروں کو ان تمام باتوں کو سامنے رکھتے ہوئے مہم کو منظم کرنا چاہیے۔

وائرس کے خلاف مربوط منصوبہ بندی اور جامع کوشش بہت اہمیت رکھتی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ پاکستان اور افغانستان ہی اس وقت دنیا میں وہ دو ممالک ہیں جو اب تک یہ جنگ لڑ رہے ہیں۔ یہ یقینا بہت ہی معنی خیز اور قابل غور بات ہے۔

Related Posts