گیس کا بحران

مقبول خبریں

کالمز

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

 ملک میں گیس کا بحران شدت اختیار کرچکا ہے، کراچی سمیت ملک کے مختلف شہروں میں کھانا بنانے کیلئے بھی گیس دستیاب نہیں جبکہ حکومت نے گھریلو صارفین کی طلب کو پورا کرنے کیلئے سی این جی اسٹیشن اور غیر پیدا واری صنعتیں بند کردی ہیں۔

اس کے باوجود گھروں میں گیس نہیں آرہی جبکہ وفاقی وزیراطلاعات فواد چوہدری کا کہنا یہ ہے کہ ہر سال 9 فیصد گیس کم ہو رہی ہے اور۔ملک میں اگلے چند سالوں میں گیس ختم ہوجائیگی۔

پاکستان میں مقامی طور پر گیس کی پیداوار کا جائزہ لیا جائے تو ادارہ شماریات پاکستان کے مطابق 2017-18میں ملک میں گیس کی مقامی پیداوار 1458935 ایم ایم سی ایف ٹی تھی جس میں مسلسل کمی دیکھی جا رہی ہے اور یہ گذشتہ مالی سال تک 962397 ایم ایم سی ایف ٹی تک گر چکی ہے۔ مقامی پیداوار میں کمی کی وجہ سے گیس بیرونِ ملک سے درآمد کی جار ہی ہے جو اس وقت تک ملکی ضرورت کا 23 فیصد پورا کرتی ہے۔

پاکستان کی موجودہ گیس کی یومیہ پیداوار 4300ملین کیوبک فٹ (ایم ایم سی ایف ڈی) ہے جو سردیوں میں کم ہوکر 3300ملین ایم ایم سی ایف ڈی تک رہ جاتی ہے جبکہ طلب 6500سے 7000 ملین کیوبک فٹ ہے جو سردیوں میں بڑھ کر 8000 ملین کیوبک فٹ تک پہنچ جاتی ہے اور اس طرح ہمیں 4000سے 5000 ملین کیوبک فٹ گیس کی کمی کا سامنا ہے۔

ہمارے پاس پورٹ قاسم کراچی میں درآمد کی گئی مائع گیس کو دوبارہ گیس میں تبدیل کرنے کے دو آر ایل این جی ٹرمینل ہیں جو اینگرو اور پاکستان گیس پورٹ نے لگائے جس کے حساب سے حکومت 10سے 12 ایل این جی کارگو منگوارہی ہے جس سے 1200ایم ایم سی ایف ڈی گیس حاصل ہورہی ہے جبکہ گیس کی کمی اس کے مقابلے میں 4گنا زائد ہے۔

یہ حقیقت ہے کہ گذشتہ چند برسوں میں ملک میں گیس کی طلب رسد سے بڑھ چکی ہے جس کی وجہ مقامی طور پر گیس کی پیداوار میں کمی ہے اور یہی وجہ ہے کہ پاکستان کو 2015 میں گیس درآمد کرنا پڑی۔ گیس کے شعبہ کے ماہرین کے مطابق پاکستان میں یومیہ چار بلین کیوبک فٹ کی ضرورت ہے جس میں سے 2اعشاریہ 8 بلین کیوبک فٹ مقامی ذرائع سے پیدا ہوتی ہے تو 1اعشاریہ 2 بلین کیوبک فٹ درآمد کی جاتی ہے۔

گیس شعبے کے ماہرین نے گیس کا بحران شدید تر ہونے کا خدشہ ظاہر کیا ہے جس کی وجہ حکومت کا بروقت منصوبہ بندی اور فیصلے نہ کرنا ہے۔موجودہ سیزن میں گیس کی قلت کی ایک بڑی وجہ عالمی قیمتیں ہیں جس کی وجہ سے پاکستان کو کچھ درآمدی گیس کے ٹینڈر منسوخ کرنا پڑے۔

کورونا کی وجہ سے دنیا بھر میں گیس کی قیمتیں بہت زیادہ بڑھ چکی ہیں اور پاکستان اسپاٹ کارگو معاہدے میں مہنگے داموں گیس کی خریداری سے گریزاں ہے ۔ماہرین کے مطابق آئندہ 2 ماہ میں ملک میں گیس کی قلت مزید شدید ہوسکتی ہے۔

حکومت نے سردیوں کی آمد سے پہلے ایل این جی کے سودے کرلئے ہوتے تو بحران کا سامنا نہ کرنا پڑتا جس کا اعتراف مشیر خزانہ شوکت ترین نے بھی کیا اور اب چونکہ پاکستان میں گیس کے ذخائر تیزی سے کم ہورہے ہیں اور ہمارا دارومدار درآمد پر بڑھ سکتا ہے تو ایسے میں ضرورت اس امر کی ہے کہ پاکستان گیس بحران پر قابو پانے کیلئے طویل المیعاد منصوبہ بندی کرے اورملک میں بار بار سر اٹھانے والے گیس بحران کا کوئی مستقل حل نکالا جائے۔

Related Posts