پاکستان کے 86000 شہریوں کی جان لینے والے ملکی تاریخ کے خوفناک ترین زلزلے کو آج 14 سال پورے ہوچکے ہیں۔ آزاد کشمیر اور خیبر پختونخواہ میں 8 اکتوبر 2005ء کو آنے والے زلزلے کو متاثرین آج تک بھول نہیں سکے۔
زلزلے کے باعث کئی شہروں میں قیامت خیز تباہی دیکھنے میں آئی جبکہ کئی گاؤں مکمل طور پر تباہ ہوگئے۔ بے گھر ہونے والے افراد کی تعدد لاکھوں میں تھی جبکہ وہ عمارتیں جو اس دوران ملبے میں تبدیل ہوئیں، انہیں اب تک شمار ہی نہ کیا جاسکا۔
یہ بھی پڑھیں: سال کے آخر تک عمران خان کی حکومت کوگھرجاناہوگا،بلاول بھٹو
زلزلے کے دوران بچوں، خواتین، بوڑھوں اور جوانوں سمیت کتنے ہی افراد اپنے ماں باپ، بہن بھائیوں اور پیاروں سے بچھڑ گئے اور کتنے ہی افراد کے پورے کے پورے خاندان زلزلے کے باعث منوں مٹی تلے جا سوئے۔
زلزلے کا مرکز وفاقی دارالحکومت اسلام آباد سے 95 کلومیٹر دور اٹک اور ہزارہ کے درمیان تھا جبکہ ریکٹر اسکیل پر زلزلے کی شدت 7.6 ریکارڈ کی گئی جبکہ زلزلے سے متاثرہ بڑے بڑے شہروں میں آزاد کشمیر، اسلام آباد، بالاکوٹ، ایبٹ آباد اور خیبر پختونخواہ کے مختلف شہر شامل تھے جس سے ایک بہت بڑا انسانی المیہ سامنے آیا۔
صبح اسکول جانے کے وقت یعنی 8 بج کر 50 منٹ پر آنے والے زلزلے کے دوران ہزاروں افراد اپنے گھروں میں سوئے ہوئے تھے جبکہ سینکڑوں افراد جاگنے سے قبل ہی اپنے خالق حقیقی سے جا ملے۔ بے شمار والدین اپنے گھروں میں اور بچے اسکولوں میں زلزلے کے باعث اپنی اپنی زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھے۔
زلزلے سے متاثرہ افراد کی امداد کے لیے 14000 منصوبے منظر عام پر لائے گئے تاہم ان میں سے 4000 منصوبے آج تک پایہ تکمیل کو نہیں پہنچائے جاسکے۔ زلزلے کے باعث زخمی اور معذور ہونے والے افراد کی تعداد لاکھوں میں ہے جبکہ زلزلے سے متاثرہ متعدد اسکول اور ہسپتال آج تک دوبارہ تعمیر نہ کیے جاسکے۔
متاثرین زلزلہ آج بھی در در کی ٹھوکریں کھا رہے ہیں اور کتنے ہی افراد بھیک مانگنے پر مجبور ہوچکے ہیں جن کے لیے ملک کے نامور سیاستدانوں، سماجی کارکنوں اور فنکاروں نے اپنی جھولیاں پھیلائیں اور پاکستان بھر کے عوام اور مخیر حضرات سے امداد طلب کی۔ زلزلہ متاثرین کی بحالی کے لیے دنیا بھر سے حکومتوں اور عوام نے بیش بہا امداد بھیجی، تاہم وہ گزشتہ حکومت کی عیاشیوں کی نذر ہو گئی اور اس سے زلزلہ متاثرین کو خاطرخواہ فائدہ نہ پہنچ سکا۔
مزید پڑھیں: کے سی آر کے منصوبے پر وفاقی حکومت کا کردار ٹھیک نہیں، سعید غنی