دو مقابلے، دو فتوحات

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

بابر اعظم الیون نے بدھ، اقبال ڈے کوسیمی فائنل جیت کر پوری پاکستانی قوم کو از حد خوش اور ایک طرح سے سرخرو کر دیا۔ چھٹی کا دن ہونے کی وجہ سے ریکارڈ لوگوں نے یہ میچ دیکھا۔ دنیا میں جہاں بھی پاکستانی ہیں، انہیں یہ خوشی مبارک ہو۔
دراصل آج ایک میچ نہیں کھیلا گیا، بلکہ ایک ہی دن ایک ہی جگہ دو میچز بیک وقت کھیلے جا رہے تھے۔ایک میچ پاکستان اور نیوزی لینڈکے درمیان تھا۔ دوسرا میچ بابر اعظم الیون اور ان کے زہریلے ناقدین کے درمیان تھا۔ وہ جو بھوکے بھیڑیوں کی طرح تیار تھے کہ بابر، رضوان اور پاکستانی ٹیم ناکام ہو اور وہ دانت نکوسے، زہریلی رال ٹپکاتے ہوئے ان پر حملہ آور ہوں،انہیں بھنبھوڑ ڈالیں۔
وہ سابق کرکٹرجن کی پہاڑ جیسی انا ان کے آگے کھڑی ہے، تعصب،بغض اور غصہ ان کے حواس پر غالب آ چکے ہیں۔ کسی کو یہ غصہ کہ ان کے پسندیدہ کرکٹر کو قومی ٹیم میں شامل نہیں کیا گیا، کوئی کرکٹ بورڈ میں پرکشش ملازمت نہ ملنے پر برہم،کسی کو یہ زعم کہ اس کے مشورہ کو کوئی رد نہیں کر سکتا اوربابر اعظم اور کوچز کو اس پر عمل نہ کرنے کی جرات کیسے ہوئی؟
بعض سا بق کرکٹرز اپنے جھگڑوں کی وجہ سے سپورٹس چینلز سے فارغ ہوچکے ہیں، اب کمائی کا ذریعہ صرف یوٹیوب رہ گیا ہے اور وہاں پر ویڈیو کلپ وائرل کرنے کا ایک ہی آسان طریقہ ہے کہ کھل کر بدزبانی کی جائے اور تندوتیز تبصرے کئے جائیں۔
ایک حلقہ ان مذہب بیزار لبرلز، سیکولرز کا بھی ہے جنہیں باریش کوچز ثقلین اور یوسف سے چڑ ہے کہ یہ مولوی لکنگ کوچ کہاں سے آ گئے؟ جن کی ڈکشن تبلیغی جماعت جیسی ہے،جو ڈریسنگ روم میں بیٹھے بری کارکردگی پر منہ بنانے اور چیخنے چلانے کے بجائے تحمل سے پرسکون رہتے ہیں اور میچ کے بعد بھی کھلاڑیوں کو موٹیویٹ کرتے رہتے ہیں۔ ان کوچز کا مذہبی، منکسرانہ سٹائل ہمارے ان لبرلز، سیکولر اور مذہب بیزارحلقوں کے لئے تکلیف دہ رہا۔
آج پاکستانی کرکٹ ٹیم نے نیوزی لینڈ کو شکست دے کر فائنل کے لئے کوالیفائی کر لیا۔ اسی کے ساتھ بابر ااعظم الیون نے اپنے ان ناقدین کو بھی دندان شکن جواب دیا ہے۔ ان کا منہ بند کر دیا۔ ان کے زہریلے تیر ترکش ہی میں رکھے رہ گئے۔
میچ کے بعد ٹی وی چینلز پر ان ناقدین کو دیکھا تو بوکھلائے ہوئے تھے۔جیونیوز پر عاقب جاوید بیٹھے پورا ورلڈ کپ زہر اگلتے رہے۔ یوں لگتا تھا جیسے بابراعظم کے ساتھ ان کا کوئی ذاتی ایشو چل رہا ہے۔ ایک آدھ نہایت گھٹیا ذاتی حملہ بھی بابر اعظم پر کیا۔ آج جیت کے بعد عاقب کا رنگ مزید سیاہ ہوچکا تھا، ستے ہوئے چہرے اور پھیکی مسکراہٹ سے وہ بیکار کی وضاحتیں کرتے رہے،کبھی کہتے کہ ہماری تنقید مثبت تھی، کبھی کوئی اورعذر، مایوسی اور کھیسانا پن مگر ان کے لہجے سے چھلک رہا تھا۔
اے آر وائی چینل پر یونس خان اور کامران اکمل کے ساتھ ایک سابق کرکٹر تنویر احمد بھی پروگرام کر رہے ہیں۔ بنگلہ دیش کے خلاف میچ سے قبل جب یوں لگ رہا تھا کہ پاکستان سیمی فائنل نہیں پہنچ پائے گا تواس پروگرام کے نان سیریس تھالی کے بینگن نما اینکر نے تو یونس خان کو کرکٹ بورڈ کا نیا چیئرمین ہی بنا دیا تھا۔
اس پروگرام کے حوالے سے کسی شائق نے ٹوئیٹ کیا تھاکہ پاکستانی ٹیم ہار کر واپس آئے گی توبورڈ مینجمنٹ بدل جائے گی، اس نے تجویز دی کہ یونس خان کو بورڈ کا نیا چیئرمین بنایا جائے۔مجھے شدید حیرت ہوئی جب یونس خان دل وجان سے اس تجویز پر راضی نظرآئے۔حد تو یہ ہے کہ اسی پروگرام میں انہوں نے بڑی سنجیدگی سے اعلان کیا کہ وہ اگر چیئرمین بنے تو تنویر احمد کو کوئی اہم ذمہ داری دیں گے۔ تنویر بھی اس پر کھل اٹھے مگر اوپری دل سے کہا کہ میں نے کرکٹ بورڈ میں کوئی کام نہیں کرنا۔ اس خوابوں کی سوداگری پرہم ہکے بکے سب دیکھے جارہے تھے۔
یہ تنویر احمد وہ باؤلر تھے جنہیں دو چار ٹیسٹ میچز کھلائے گئے، بطور فاسٹ باؤلروہ کھیلے،مگران کی گیند وکٹ کیپرتک بمشکل پہنچ پاتی تھی، ظاہر ہے ایسی بری کارکردگی پر ڈراپ ہی ہونا تھا، بھیا جی مگر دل پر لے گئے۔ خیرآج کے میچ کے بعدیونس سمیت سب کی امیدوں پر اوس پڑ گئی۔تنویر نے تو مایوسی سے اعلان کیا کہ پاکستان ورلڈ کپ فائنل میں پہنچ گیا، اب نہ کپتان تبدیل ہوگا نہ کوئی اور۔ مجھے ہنسی آئی کہ ایک ہی دن میں غریب کے سپنوں کا محل برباد ہوگیا۔
میں بیک وقت کھیلے جانے والے ان دونوں میچز سے لطف اندوز ہورہا تھا۔ ان دونوں میں فتح نے سرشار کر دیا۔ ایک بار پھر یہ بات سمجھ آئی کہ تنقید برائے تنقید ہمیشہ غلط ہوتی ہے، دوسرا یہ کہ کسی رائے کو اپنی انا کا مسئلہ نہیں بنانا چاہیے، کبھی آدمی غلط ہوجاتا ہے، غلطی مان لینی چاہیے، اس پراڑے رہنا مزید تباہ کن ثابت ہوتا ہے۔
رہا پاکستان اور نیوزی لینڈ کا میچ تو حقیقت یہ ہے کہ پاکستان نے نیوزی لینڈ کو آؤٹ کلاس کر دیا۔پاکستان نے نیوزی لینڈ سے اچھی باؤلنگ کی، ان سے بہت بہتر بیٹنگ کی، ہمارے اوپنرز ان سے بدرجہا بہتر رہے،فیلڈنگ بھی نیوزی لینڈ سے تھوڑا بہتر ہی رہی۔ آج بابر کی کپتانی بھی اچھی تھی،ورنہ ولیمسن ہمیشہ بہت اچھے اور جہاندیدہ کپتان سمجھے جاتے ہیں، پرسکون اور نہایت زیرک،چالباز۔ بابر نے آج ولیمسن کو بھی آؤٹ کلاس کر دیا۔
پاکستان ٹاس ہار گیا، سڈنی میں ٹاس اہم سمجھا جاتا ہے، ہر کوئی ٹاس جیت کر پہلے کھیلتا ہے۔ توقع تھی کہ نیوزی لینڈ اگر ایک سو اسی یا اس سے کچھ زیادہ رنز بنا لے گا تو پاکستانی ٹیم کے لئے یہ ہدف حاصل کرنا آسان نہیں رہے گا۔ پاکستان نے مگر بہت عمدہ باؤلنگ کی اور نیوزی لینڈ کو ڈیڈھ سو رنز تک محدود رکھا۔ اس میں بڑا کردار شاہین شاہ کا ہے جنہوں نے نیوزی لینڈ کے خطرناک ہٹر اوپنر فن ایلن کو پہلے اوور میں آؤٹ کر دیا۔ پہلے پاور پلے یعنی چھ اوورزمیں پاکستانی باؤلنگ بہت اچھی رہی، خاص کر چھٹے اوور کے آخر میں شاداب خان کی عمدہ تھرو پر دوسرا خطرناک اوپنر کانوائے بھی رن آؤٹ ہوگیا۔ میچ میں برتری پاکستان نے یہیں حاصل کرلی تھی، اسے بعد میں برقرار رکھا۔شاہین، وسیم، نسیم شاہ،حارث، نواز، شاداب سب اچھے رہے۔ نسیم شاہ نے آخری اوور اچھا کرایااور ایک سو ساٹھ رنز کا بظاہر نظر آتاہدف بھی کم کر دیا۔
شاہین شاہ کے لئے بھی یہ میچ اہم تھا۔ اس غیر معمولی باؤلر پر بھی بہت تنقید ہوتی رہی۔ وہ خود کہتا تھا کہ میں فٹ ہوں، کوچ کہتے فٹ ہے، میڈیکل ٹیم کہتی فٹ ہے، مگر ہزاروں میل دور بیٹھے ہمارے سابق کرکٹرز کے نزدیک شاہین ان فٹ ہے اور اسے غلط کھلایا جا رہا ہے۔ شاہین نے پچھلے دومیچز میں بہت عمدہ کاکردگی دکھائی، بنگلہ دیش کے خلاف میچ میں مین آف میچ بھی بنے، آج سیمی فائنل میں شاہین شاہ میچ کا سب سے کفایتی باؤلر رہا، اس نے بہت کم رنز دے کر دو اہم وکٹیں لیں۔
پاکستان نے اصل کمال بیٹنگ میں کیا جب اپنی اچھی فارم کے لئے کوشاں بابراعظم اور رضوان دونوں نے آج شاندار بیٹنگ کی۔ بابر کی پہلی گیند پر ایج نکلا مگر بعد میں اس نے بہت عمدہ شاٹس کھیلے، وہ گیند اچھا مڈ ل کر رہا تھا اور آج اس نے اپنے کئی ٹریڈ مارک شاٹس کھیلے۔ بابر کی تکنیک میں کچھ عرصے سے معمولی سی تبدیلی آئی تھی، وہ نسبتاً کلوز بیٹ سے کھیل رہا تھااور گیند کو کراس کھیلتے ہوئے جلدی کر جاتا، ایشیا کپ اور اس ورلڈ کپ میں وہ اسی وجہ سے آؤٹ ہوتا رہا۔ آج وہ نسبتاً اوپن بیٹ سے کھیلا اور اس نے عمدگی سے گیندیں مڈل کیں، جارحانہ سٹروکس کھیلے اور سٹرائیک روٹیٹ بھی اچھی کی۔ یہی معاملہ رضوان کا تھا، وہ بھی آج بہت اچھے ردھم میں تھا، ساوتھی جیسے باؤلر کو جس طرح رضوان نے اٹیک کیا اور اسے دو خوبصورت چوکے لگائے، وہ دیکھنے سے تعلق رکھتے تھے۔ بابر نے ادھر بولٹ کی خبر لی۔
پاکستانی اوپننگ جوڑی پر سب سے زیادہ تنقید یہ ہوتی ہے کہ وہ پہلے چھ اوورز کا اچھا استعمال نہیں کرتے اور پہلے دس اوور میں ساٹھ پینسٹھ رنز بنا کر بعد کے اوورز میں ٹیم کے لئے مشکل پیدا کر دیتے ہیں۔ آج بابر، رضوان نے پاور پلے میں شاندار بیٹنگ کی۔ چھ اوورز میں پچپن رنز بنائے جو ورلڈ کپ کے بہترین پاورپلے بیٹنگ میں سے ایک ہوگا، دس اوورز میں پچاسی رنز بنائے اور گیارہ بارہ اوورز میں سو بنا ڈالے۔ بابر اور رضوان نے آج اس طرح بیٹنگ کی کہ ٹیم ایک سو اسی، پچاسی رنز کا ہدف بھی حاصل کر سکتی تھی۔
حارث نے اچھی بیٹنگ کی۔ آج اس نے ثابت کی کہ وہ صرف ٹلر نہیں اور سنگلز بھی لے سکتا ہے۔ حارث اس لئے تھوڑا سست کھیلا کہ تب میچ سیچوئشن ہی یہی تھی۔بعد میں لوکی فرگوسن جیسے تیز باؤلر کو اس نے بہت عمدہ چھکا اور چوکا لگا کر میچ یک طرفہ بنا دیا۔
پاکستان نے آج کا میچ بہت اچھے طریقے سے لڑ کر جیتا۔ فائنل میں ان کے حریف کا تعین کل سیمی فائنل سے ہوگا۔ اگر بھارت فائنل میں پہنچا تو ایک بہت ہائی پروفائل ورلڈ کپ فائنل کے لئے سب تیار ہوجائیں۔ اگر انگلینڈ پہنچا، تب بھی بہت دلچسپ صورتحال بن جائے گی، کیونکہ انیس سو بانوے میں بھی پاکستان انگلینڈ کو ہرا کر ورلڈ کپ جیتا تھا، دلچسپ بات یہ ہے کہ تب بھی سیمی فائنل میں نیوزی لینڈ کو ہرایا تھا، اور اس دن بھی بعد میں بیٹنگ کی تھی۔
ورلڈ کپ فائنل اگلے اتوار، تیرہ نومبر کو ہے۔ پاکستان کے لئے بہترین دعائیں، نیک تمنائیں۔

Related Posts