سوئی اور دھاگے کے ذریعے ماحول کے تحفظ کا انوکھا پروجیکٹ کیا ہے؟

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

فلسطین کے علاقے غزہ میں سوئی اور دھاگے سے ماحول میں موجود بد صورتی کو ختم کرکے خوبصورتی میں بدلنے اور ماحولیات کو تحفظ دینے کا ایک نادر منصوبہ سامنے آگیا۔

اس منفرد پراجیکٹ میں فلسطین کی ایک تخلیقی ذہن رکھنے والی خاتون نے پھٹے پرانے کپڑوں، باقی بچ جانے والی کترنوں کو جمع کرنے اور ری سائیکل کرکے استعمال میں لانا شروع کردیا۔ خاتون اپنے ’’ ابرۃ و سنارۃ ‘‘ پراجیکٹ کے ذریعے انہیں پرانے کپڑوں سے بیگ، ملبوسات، فرنیچر، میز پوش اور دیگر اشیا بنا رہی ہیں۔

ناکارہ چیزوں کو کار آمد بنانے کا یہ منصوبہ ماحول میں موجود فاضل اشیا کو بھی کم کر رہا اور ماحول کے تحفظ میں کردار ادا کر رہا ہے۔ اس منصوبے کی مرکزی کردار ایناس ہیں۔ انہوں نے غزہ میں ناکارہ کپڑوں کا فضلہ جمع کرنے کا انتخاب کیا تاکہ اسے دوبارہ استعمال کیا جا سکے اور اسے استعمال کے لیے موزوں لباس اور فرنیچر کے ٹکڑوں میں تبدیل کیا جا سکے۔

ایناس نے ماحول کو کپڑوں کے ٹکڑوں، خراب کپڑوں اور مینوفیکچرنگ کے عمل میں بچ جانے والے چمڑے کے ٹکڑوں کو جمع کرنا شروع کیا۔ ان چیزوں کو ٹھوس فضلہ میں تبدیل کر کے ٹھکانے لگایا جاتا ہے۔ انہیں جلانے یا مٹی میں دفن کرنے سے یہ فضلہ کئی دہائیوں تک بغیر سڑنے کے باقی رہ جاتا ہے۔ دونوں صورتوں میں یہ فاضل اشیا ماحول کو نقصان پہنچاتی ہیں۔

ایناس نے اقوام متحدہ کے ماحولیاتی پروگرام کے ذریعے شروع سرکلر گرین اکانومی کے اقدام کے مطابق کپڑے کے فضلے کو جدید طریقوں سے ری سائیکلنگ کے فریم ورک میں ڈھالا اور مختلف دستکاری بنانا شروع کردی۔ اس اقدام کا مقصد ماحول کو مشکل سے گلنے والے نامیاتی مواد سے بچانا ہے۔

ایناس کا یہ پراجیکٹ اچانک اور اتفاق سے شروع نہیں ہوگیا بلکہ انہوں نے غزہ سے پیدا ہونے والے ٹھوس فضلہ کا سروے کیا اور دیکھا کہ غزہ کی پٹی میں سلائی کے 200 کارخانے ہیں جو روزمرہ کے پھٹے ہوئے کپڑے اور کپڑوں کا فضلہ پیدا کرتی ہیں۔ اس فضلہ کو ری سائیکل کیے بغیر مٹی میں چھوڑ دیا جاتا یا جلا دیا جاتا ہے۔

غزہ میں سالڈ ویسٹ مینجمنٹ سروسز کونسل کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر عبدالرحیم ابو القمبز کے مطابق غزہ کی پٹی روزانہ تقریباً 18 سو ٹن ٹھوس فضلہ پیدا کرتی ہے۔ اس فضلے میں تقریباً 120 ٹن بوسیدہ کپڑے شامل ہوتے ہیں۔ 400 ٹن شیشہ اور 200 ٹن پلاسٹک ہوتا ہے۔

ابو القمبز نے بتایا کہ غزہ میں فضلہ کو چھانٹنے کا کوئی پروگرام نہیں ہے کیونکہ اسے ایک کوڑے میں جمع کیا جاتا ہے۔ ابو القمبز نے کہا کہ کپڑے کے تانے بانے مشکل سے گلنے والے مواد میں شامل ہے۔ یہ کپڑے مٹی میں 10 سال سے زیادہ عرصے تک رہ سکتے ہیں۔

ایناس نے غزہ میں ماحولیات کی اس نقصان دہ صورت حال کو بہتر کرنے کی ٹھان لیا اور سوئی اور کانٹے کے استعمال کا آئیڈیا اپنا لیا۔ اپنے آئیڈیا کو عملی جامہ پہنانے کے لیے ایناس نے اپنے گھر کے ایک چھوٹے کمرے کو بُنائی کی ورکشاپ میں بدل دیا۔ اس نے اپنے پراجیکٹ کو ’’ ابرۃ و سنارۃ‘‘ کا نام دیا۔ اس پراجیکٹ میں وہ خواتین کے ساتھ مل کر ٹیکسٹائل کے فضلے کو ری سائیکل کرتی ہیں اور اس سے تقریباً 12 مصنوعات تیار کرتی ہیں۔ یہ مصنوعات مقامی بازاروں میں فروخت ہوتی ہیں۔

ایناس نے بتایا کہ جب میں غزہ کی گلیوں میں گھومتی تو مجھے بہت زیادہ کچرا نظر آتا جس میں سے زیادہ تر کپڑوں کا کچرا ہوتا ہے۔ میں نے سوچا کہ اس سے ماحول کو نقصان پہنچ رہا ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ غزہ کی پٹی کا مسئلہ اس بات میں پنہاں ہے کہ کچرے سے کیسے چھٹکارا حاصل کیا جائے۔ لوگوں کو کچرا گھر سے نکالنے کی پروا ہے لیکن وہ یہ نہیں جانتے کہ اسے ٹھکانے کیسے لگایا جا سکتا ہے۔

اب میں کپڑوں کے اس باقیات اور فضلے کو نہ صرف اپنی آمدنی کا ذریعہ بنا رہی ہوں بلکہ ماحول کے تحفظ میں بھی اپنا کردار ادا کر رہی ہوں۔

ایناس اپنی ورکشاپ میں ان بچے کھچے اور پھٹے پرانے کپڑوں سے کپڑے، بلیوں کے گھر، خواتین کے بیگ اور فرنیچر تیار کر رہی ہیں۔ ورکشاپ تقریباً 12 مصنوعات تیار کرتی ہے۔ ان مصنوعات میں بچوں اور بالغوں کے کپڑے، تکیے، قالین، میز پوش، بٹوے، بیگ، کچھ فرنیچر اور بلی کے گھر شامل ہیں۔ ان اشیا کی قیمت 3 ڈالر سے زیادہ نہیں ہے۔

Related Posts