لاہور میں وکلا گردی کئی معصوم جانیں لے گئی

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

دنیا میں کسی بھی معاشرے کے لیے انصاف آکسیجن کی حیثیت رکھتا ہے ، جس ملک سے انصاف کا خاتمہ ہوجاتا ہے ، وہ ملک بھی بالاخر ختم ہوجاتا ہے ۔ وکلا برادری کا پڑھے لکھے طبقے سے ہوتاہے، اسی طبقے سے اعلیٰ عدلیہ کے جج بھی تعینات ہوتے ہیںمگر افسوس کہ اس طبقے میں کچھ عناصر بھی شامل ہو گئے ہیں جو اپنے کہے کو حرفِ آخر سمجھتے ہیں۔

پاکستان میں وکلاءتحریک کے بعدوکلاءنے عجیب و غریب رویہ اختیار کررکھا ہے ۔ وکلاءنے اپنے گروپ بنارکھے ہیں جن کے ذریعے وہ ماتحت عدالتوں میں اپنی مرضی کا فیصلہ کروانے کی کوشش کرتے ہیں اور اگر متعلقہ جج ان کی مرضی کے مطابق چلنے سے انکار کردے تو بھری عدالت میں جج پر تشدد بھی کرنے سے گریز نہیں کرتے ۔

پولیس افسران ، خواتین اور معمر افراد پر تشدد کے بعد وکلا نے گزشتہ روزلاہور کے پنجاب انسٹیٹیوٹ آف کارڈیالوجی پر دھاوا بول دیا اور آپریشن تھیٹر میں گھس کر توڑ پھوڑ کی جس کے باعث طبی امداد نہ ملنے پر 6 مریض جاں بحق ہوگئے جبکہ وکلا کی غنڈے گردی اور تشدد سے کئی افراد زخمی بھی ہوئے۔

وکلاء کی توڑ پھوڑ کے بعد اسپتال میں ملازمین اور وکلا میں تصادم بھی دیکھنے میں آیا اور وکلاء نے پولیس گاڑی کو آگ لگا دی ۔ صورتحال کا جائزہ لینے کے لیے آنیوالے صوبائی وزیراطلاعات فیاض الحسن چوہان کووکلا انہیں گھیر لیا اور تشدد کیا تاہم فیاض الحسن چوہان نے بھاگ کر جان بچائی ۔

وزیراعظم نے پنجاب انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی میں وکلاء کی ہنگامہ آرائی اور توڑ پھوڑ کا نوٹس لیتے ہوئے رپورٹ طلب کرلی ہے دوسری جانب وزیراعلیٰ عثمان بزدار نے صوبائی وزیر قانون راجہ بشارت کی سربراہی میں واقعہ کی تحقیقات کے لیے کمیٹی تشکیل دیدی ہے جبکہ وزیرقانون پنجاب راجہ بشارت کا کہنا ہے کہ پنجاب حکومت کسی وکیل کےساتھ کوئی رعایت نہیں کرے گی تاہم وکلاء کی جانب سے ڈاکٹرز اور مریضوں پر تشدد کے خلاف ینگ ڈاکٹرز نے کل سے او پی ڈیز بند کرنے کا اعلان کردیا ہے۔

واضح رہے کہ گزشتہ ماہ پنجاب انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی میں وکلاء اور ڈاکٹرز کے درمیان جھگڑا ہوا تھا جس پر وکلاء نے ڈاکٹرز کے خلاف مقدمہ درج کرایا تھا اور ملزمان کی گرفتاری کے لیے احتجاج کیا جارہا تھا۔

وکلاءکی عدالتوں کا احترام نہ کرنے اور سائلین کے ساتھ مارپیٹ کی روایت توپرانی ہوگئی ہے اوراس کے لیے وکلاءگردی کی اصطلاح بھی وجود میں آچکی ہے تاہم پاکستان میں  اب کالا کوٹ انصاف کی علامت کے بجائے دہشت کی علامت بن گیا ہے ۔زمانہ جنگ میں بھی فریقین اسپتالوں پر حملہ نہیں کرتے لیکن پاکستان میں بہادر وکلا نے اسپتال پر حملہ کرکے بہادری کی ایسی مثال قائم کی ہے جس کو تاریخ میں ہمیشہ یاد رکھا جائیگا۔

چیف جسٹس آف پاکستان کو اس کا واقعہ کانوٹس لیکر ذمہ داروں کو سخت سے سخت سزا دینی چاہیے اور اگر پھر بھی کوئی وکیل اپنا رویہ بدلنے پر آمادہ نہ ہو تو اس کا لائسنس کینسل کرنے کے ساتھ ساتھ وکالت کی ڈگری بھی منسوخ کر دینی چاہیے۔

Related Posts